تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     29-06-2013

مذاکرات کا کھیل

اب تک عمران خان کو ایک بات کا ادراک ہو چکا ہو گاکہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت کرنا کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔ جب وہ قومی ٹیم کے کامیاب کپتان ہوا کرتے تھے تو فرد واحد کی طرح فیصلے کرتے تھے ،لیکن وہ کوئی قومی رہنما نہ تھے۔ ایک کرکٹ ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں اوراگر کوئی کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنانا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کپتان کی مخالفت یا حکم عدولی نہ کرے۔ تاہم اب عمران خان کسی گیارہ رکنی ٹیم کی قیادت نہیں کررہے، اب وہ پارلیمانی سیاست کے مشکل اکھاڑے میں ہیں۔ یہاں سیاست دان کھلاڑیوں کے برعکس قواعد وضوابط کے پابند نہیںہوتے اور بعض اوقات تو پارٹی قائد کا احترام تو کجا، لحاظ بھی نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں مجھے بے شمار قارئین کی طرف سے نہایت غصیلی ای میلز وصول ہوئیں۔ اُن کے غم و غصے کا محور پی ٹی آئی کے دو اراکین ِ پارلیمنٹ تھے جن کے احمقانہ بیانات نے عمران خان کے پیغام ’’ہم نیا پاکستان تعمیر کریں گے‘‘ کا مذاق اُڑایا تھا۔ ان میں سے ایک ایم این اے مجاہد علی خان تھے جنھوںنے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی ’’باعزت رہائی ‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ یوں فلور آف دی ہائوس کسی بھی عوامی نمائندے کی طرف سے قانون سے انحراف کی بات پہلی مرتبہ کی گئی (ممتاز قادری کو عدالت نے اس ملک کے قانون کے تحت سزا سنائی تھی)۔ دوسرے شوکت علی یوسفزئی ہیں جنھوںنے چند دن پہلے پشاور کی ایک مسجد پر خود کش حملے کے بعد بیان دیا ’’کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ انھیں اس حملے میں غیر ملکی ہاتھ نظر آیا۔ پی ٹی آئی کے اس سرکردہ رہنما کا خیا ل ہے کہ طالبان سچے مسلمان ہیں اور وہ ’’عبادت گاہوں پر حملوں کے خلاف ہیں۔‘‘گزشتہ چند سالوں کے دوران مذہبی مقامات پر حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کوئی خود کش حملہ آور ’’مغربی ممالک ‘‘ سے نہیں آیا تھا۔ تاہم اس معاملے میں بھی شوکت یوسفزئی اکیلے نہیں ہیں۔ جب نانگا پربت کے دامن میں غیر ملکی کوہ پیمائوں کے کیمپ پر حملہ کرکے اُن کو قتل کر دیا گیا تو وزیر ِ اعظم صاحب نے کہا۔۔۔’’ یہ حملہ اُن لوگوں کی سازش ہے جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ذرا غور کریں، اس حملے کے فوراً بعد ہی تحریک ِ طالبان پاکستان اور اس کے معاون گروہ ’’جنود الحفصہ‘‘ (Junood ul Hifsa) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر کے ’’خفیہ ہاتھ ‘‘ کی رٹ لگانے والوں کو شرمندگی سے سرجھکانے پر مجبور کر دیا۔ عمران خان اور نواز شریف ، دونوں اس مطالبے کے پرزور حامی ہیں کہ ان جہادی گروہوں، جو کینسر کی طرح پورے ملک میں پھیل چکے ہیں، کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ چلیں، اب وہ مذاکرات کا شوق پورا کر لیں کیونکہ مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اُن کی حکومتیں قائم ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس راہ پر قدم بڑھائیں، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کس قسم کے لوگوںسے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کراچی کے ڈاکٹر فیض الدین کا خط پڑھیں جو اُنھوںنے ایک انگریزی اخبار کو لکھا ہے۔۔۔’’ نیوز رپورٹ کے مطابق طالبان نے دس جون کو دولڑکوں ، جن کی عمریں دس اور سولہ سال تھیں، کا سرقلم کیا کیونکہ اُنہیں شبہ تھا کہ وہ افغان فوج کے لیے جاسوسی کر رہے ہیں۔ یہ طالبان انتہائی سفاک ، وحشی اور بے رحم ہیں ورنہ بچوں کو اس بے رحمی سے ذبح کرنے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہیے۔ مہذ ب دنیا کو چاہیے کہ وہ ان وحشیوں کے خلاف مل کر کھڑی ہوجائے اور ان کا خاتمہ کرے۔ یہ کسی رحم کے حقدار نہیں ہیں۔‘‘ اگر عمران خان اور نواز شریف یہ سمجھتے ہیںکہ پاکستانی طالبان اپنے افغان بھائیوں کی نسبت نرم خو اور انسان دوست ہیں تو اُنہیں چاہیے کہ وہ سینکڑوں سکیورٹی اہل کاروں سے بات کرکے دیکھ لیںکہ پاکستانی طالبان نے کس طرح اُن کے ساتھیوں پر تشدد کیا اور پھر اُن کا سرقلم کر دیا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ایک بات تواتر سے کی جارہی ہے کہ اگر امریکی طالبان سے بات کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟یہ احمقانہ جملے ادا کرنے سے پہلے ایک بات سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ امریکی تو اپنے انخلا کے لیے مذاکرات کررہے ہیں، کیا ہمارے پاس بھی کوئی ایسی ’’سہولت ‘‘ ہے؟اس کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ معاہدے کرکے دیکھ لیا ہے۔ ہمارے دفاعی ادارے ان کے ساتھ کئی مرتبہ جنگ بندی کرکے امن کے معاہدے کر چکے ہیں،لیکن ان جہادی گروہوںنے اس جنگ بندی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے قدم مزید مضبوط کیے اور اپنی نفری میں اضافہ کرکے مزید مہلک حملے کرکے جانی نقصان پہنچایا۔ یہ قیاس کرنا غلطی ہوگا کہ چونکہ طالبان کم تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے وہ کسی حکمت ِعملی کے تحت کارروائیاں نہیں کرتے۔ ماضی کو چھوڑ دیں، صرف نانگاپربت پر ہونے والی خونریزی کو دیکھیں تو اس کے ذریعے طالبان نے جو تھوڑے بہت کوہ پیما پاکستان آنے کی جرأت کر رہے تھے، کو خائف کر دیا ہے اور مستقبل قریب میںتو ادھر کوئی نہیںآئے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ گلگت بلتستان کے ہزاروں افراد ، جو غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے روزی کماتے تھے، مفلوک الحالی کا شکار ہو جائیں گے۔ اس سے یہاں قائم ہونے والی حکومت بھی ناکامی سے ہمکنار ہو گی۔ اس کارروائی نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر باور کرادیا ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کی حالت انتہائی خراب ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں بھی سات انگریز دوستوںکے ساتھ وہاں گیا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ مغربی دوست اس جگہ کی خوبصورتی اور سکون سے بہت متاثر ہوئے ۔ اُن کے دل میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر ہوا۔ وہ سب کہہ رہے تھے کہ وہ واپس جاکر دوسرے دوستوںکو بتائیںگے کہ پاکستان کتنا خوبصورت ملک ہے وہ یہاں ضرور آئیں۔ تاہم جب ہم شاہراہِ قراقرم سے واپس آرہے تھے تو چیلاس (Chilas) کے قریب مقامی باشندے ہمیں بہت نفرت بھری نظروںسے دیکھ رہے تھے۔ اُن کے دل میں نفرت کے بیج کس نے بوئے ؟ میںنے فیصلہ کیا کہ آئندہ غیر ملکی دوستوںکو ادھر نہیںلائوںگا۔ مجھے نواز شریف اور عمران خان کے طالبان کے لیے اپنائے گئے رویے پر سخت حیرت ہے۔ یہ دونوں رہنما تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے سامنے دنیا کے ممالک کی بہت سی مثالیں ہیںکہ اُنھوںنے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی قوتوںسے کس طرح آہنی ہاتھ سے نمٹا۔ چاہے کوئی عرب ملک ہو یا برطانیہ، کوئی بھی دہشت گردی کو برداشت نہیں کرتا، اس کے باوجود پاکستان میں ان انتہا پسندوں کو چھوٹے بچوںکی طرح چمکار کر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذاکراتی گروہ ایک اور بات بھول جاتا ہے کہ طالبان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ آئین ِ پاکستان کو معطل کرکے اُن کی تشریح کردہ شریعت نافذکر دی جائے۔ جب اُن کو مذاکرات کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اسے حکومت کی کمزوری سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان قاتلوں، جوبچوں کی کھال اتار دیتے ہیں اور ان کو ذبح کر دیتے ہیں، سے بات کرنے کون جائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved