تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     16-02-2021

آیئے ہاتھ اُٹھائیں ہم بھی

فیض صاحب نے جب یہ مصرع لکھا تو اس توقع پر لکھا کہ اگر ان کے قارئین اپنے دفاع کیلئے ہاتھ اٹھانے سے قاصر ہیں تو کم از کم دعا کیلئے ہی ہاتھ اُٹھائیں۔ انہیں کیا پتا تھا کہ ہم اتنے مفلوج ہو جائیں گے کہ ہم سے یہ بھی نہ ہو سکے گا۔ اگر ہم اپنے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے۔ نہ اپنے دفاع کیلئے اور نہ دعا کیلئے۔ غالباً آواز تو بلند کر سکتے ہیں۔ وہی آواز‘وہی نعرہ جس نے برسوں قبل معزول ججز کو بحال کرایا‘ عدلیہ کو آزاد کرایا‘ اُمید کا اک نیا چراغ جلایا۔ مگر ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف ایک قدم بڑھ کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ خدا کرے اب ہم یہاں رُک جائیں۔ اپنے خون آلودہ پائوں پر مزید کلہاڑیاں نہ چلائیں۔ پہلے لگے ہوئے زخموں کو مندمل ہونے دیں۔ اُن باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیں جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ آیئے ہم ان قدروں کو اُجاگر کریں جو ہم میں مشترک ہیں۔ مکالمہ اور مفاہمت کی فضا پیدا کریں۔ اُس کشتی میں سوراخ نہ کریں جو ڈوب گئی تو ہم سب (اپنے اختلافات کے ملبے سمیت) غرق ہو جائیں گے۔ اس وقت ہماری کشتی میں دو بڑے سوراخ ہیں‘ بلوچستان کی صورتحال ‘ افراطِ زر اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ آپ اخبارات میں روزانہ پڑھتے ہیں کہ فلاں پارٹی یا مکتب ِ فکر کی قوت بڑھ گئی اور فلاں کی گھٹ گئی۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ سیاسی قوت کیا ہوتی ہے؟ صرف اور صرف عوامی تائید اور عوامی حمایت۔ اگر ایک سیاسی یا مذہبی جماعت وہ بات کہے گی جسے عوامی تائید حاصل ہو تو اس کی قوت بڑھ جائے گی (یا صورتحال اس کے برعکس ہوگی)۔ ہمارے ملک میں جو طبقہ لبرل کہلاتا ہے وہ مغربی اقدار پر دل و جان سے فریفتہ ہے بلکہ مغرب زدگی جیسی مہلک بیماری کا مریض بن جاتا ہے‘ مگر یہ قابلِ صد ستائش افتخار اقبالؔ اور ان جیسے دیگربڑے لوگوں کو حاصل ہوا کہ انہوں نے تعلیم مغربی ممالک میں حاصل کی مگر دانش فرنگ انہیں خیرہ نہ کر سکی۔ مغربی چکا چوند سے اپنی بینائی نہ کھو بیٹھے۔ انگریزی بولنا بے ضرر فعل ہے مگر انگریزی میں سوچنا سارے فساد کا باعث ہے۔ انگریزی میں سوچنے کا مطلب ہے مغربی اندازِ فکر اپنانا۔ مغرب کی بنائی ہوئی عینک سے دنیا کو دیکھنا۔ ناریل بن جانا جو باہر سے رنگدار مگر اندر سے سفید ہوتا ہے۔
جب سے (غالباً 90ء کے عشرے سے اور خصوصاً سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد) ہمارے ملک میں لبرل طبقہ کی مغرب زدگی نے اُس کی خوئے غلامی کو اتنا پختہ کر دیا ہے کہ وہ افغانستان پر کی جانے والی امریکی جارحیت کی حمایت کرتا ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعے ان گنت بے گناہ افراد کے قتل عام پر خوشی سے تالیاں بجاتا تھا۔ دنیا بھر میں امریکی دہشت گردی کی بلند آواز سے تعریف کرتا تھا۔ عافیہ صدیقی پر ڈھائے جانے والے شرمناک ظلم و ستم پر خاموش رہتا ہے۔ خالصتاًامریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتا تھا۔ بھرپور اور پرُ زور مذمت کرتا ہے تو صرف اس دہشت گردی کی جو امریکی دہشت گردی کے خلاف ردِ عمل کی صورت میں ہمارے معصوم شہریوں پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ جارحیت کی تعریف مگر جوابی اور انتقامی کارروائی کی مذمت۔ ہمارے حکمران طبقے نے امریکی خیرات کی وصولی کیلئے امریکی جارحیت کو دعوت دی اور پھر اس کی معاونت کی مگر خمیازہ بے چارے عوام کو بھگتنا پڑا۔
ان سطور کو لکھنا والا 53 سال سے دیارِ مغرب میں رہتا ہے۔اس نے برطانیہ میں دس برس سیاسیات پڑھائی‘سات برس قانون پڑھا‘ چار سال BBC سے خبریں نشر کیں‘ 28 سالوں سے لندن میں وکالت کر رہا ہے ‘مگر وہ اور اُس کی پاکستانی بیوی اور ان کے برطانیہ میں پرورش پانے والے چھ بچے مغربی جارحیت‘ مغربی تسلط اور سامراج کی غنڈہ گردی کے سخت مخالف ہیں۔ ان سطور کو لکھنے والا پرُ امید ہونے میں حق بجانب ہے کہ ان کو پڑھنے والے بھی اس کے خیالات سے متفق ہوں گے۔ ایک جلا وطن شخص پاکستان میں رہنے والے تمام محب الوطنوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان اُٹھانا بند کر دیں۔ سفالِ پاک سے مینا و جام پیدا کریں۔ ہم نے اتنی قربانیاں دے کر ایک آزاد ملک حاصل کیا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد برضا و رغبت اپنے آپ کو دوبارہ مغربی سامراج کا غلام نہ بنائیں۔ اپنی ہتھکڑیاں اور اپنے پائوں کی بیڑیاں توڑ ڈالیں۔ ہم عہد کر لیں کہ ہم نے خود کفیل اور خود مختار ہونا ہے۔ ہمیں ربِّ ذوالجلال کی برکتوں اور رحمتوں پر یقین ہے۔ وہ ہم پر نور کی طرح برسیں گی بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو ان کا اہل ثابت کریں۔
بات بڑی آسان اور سیدھی سادی ہے اور وہ یہ کہ اب صرف چہرے بدلنے سے کام نہیں چلے گا۔ بہتری کیلئے اور بڑھتے ہوئے اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کیلئے فرسودہ اور گلاسڑا نظام بدلنا ہوگا۔ بقول اقبال ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ عام۔ موجودہ نظام عوام دشمن اور مغرب نواز اور امریکہ دوست ہے۔ دوستی تو گمراہ کُن اصلاح ہے۔ ایک حقیر اور فقیر کی خیرات دینے والے سے دوستی؟ کتنا تکلیف دہ مذاق ہے۔ ہر سال امریکی خیرات لینے کی مجبوری اس لئے پیش آتی ہے کہ ہمارا بجٹ بے حد غیر متوازن ہے۔ ہم خود کفیل نہیں۔ آمدنی کے مقابلے میں اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ ناقابلِ برداشت غیر پیداواری اخراجات۔ ہماری کمزور معیشت کے تناسب سے کئی گنا زیادہ اخراجات۔ ایک ہزار ارب روپے کی سالانہ کرپشن۔ اربوں روپوں کے قرضوں کی معافی۔ ناقابلِ تصور کرپشن۔ قومی دولت کا ناقابلِ بیان ضیاع۔ ان سب نے مل کر ہماری کمر توڑ دی ہے۔ آمدنی پر براہ راست ٹیکس لگانے کی بجائے اشیائے ضرورت اور خورو نوش اور صارفین کی خریداری پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ امیر اور غریب میں فرق کئے بغیر۔ محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز تو پڑھ سکتے ہیں مگر ٹیکس ان دونوں کو اپنی اپنی آمدنی کے حساب سے دیناچاہیے۔ حکومت نوٹ چھاپ چھاپ کر گزارہ کر رہی ہے۔ افراطِ زر اور جان لیوا مہنگائی اس مہلک پالیسی کی پیداوار ہے۔ قصہ مختصر ہم جب تک معاشی طور پر خود کفیل اور خود مختار نہیں ہوتے ہم اُس وقت تک مغربی ممالک سے بھیک مانگتے رہیں گے اور اس خیرات کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح زندہ رہیں کہ کاسۂ گدائی لے کر دنیا میں گھومتے رہیں۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جئیں؟ ہم اپنے ہاتھ خیرات مانگنے کیلئے مستقل پھیلائے رکھیں۔ کیا ہمارے نزدیک آزادی کا مطلب یہ ہے؟
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ فون پر یہ بُری خبر ملی کہ اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے مظاہرے پر پولیس ٹوٹ پڑی اور اشک آور گیس کا بے دردی سے استعمال کیا گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں میں اضافے کا تھا۔ وہ حکومت جو اربوں روپے ہر سال آنکھیں بند کرکے ضائع کرنے کے فن کی ماہر ہو وہ کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کئی کئی عشرے اس بنیاد پر اضافہ نہیں کرتی کہ سرکاری خزانہ اس اضافی بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک ماہ قبل میرے ایک کالم (باجرے دی راکھی) پر اس کالم کو پڑھنے والے ایک ذہین اور عوام دوست شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کم آمدنی والے ملازمین کی تنخواہوں کا زیادہ تنخواہ لینے والوں سے زمین آسمان کا فرق ہے۔اُن صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مجھے یہ لکھنا چاہئے کہ سماجی انصاف اور فلاحی مملکت کے قیام کی طرف ہم اپنا پہلا قدم صرف اسی صورت بڑھا سکتے ہیں کہ تنخواہوں میں ایک اوردس سے زیادہ فرق نہ ہو یعنی کم از کم 30 ہزارروپے ماہانہ اور زیادہ سے زیادہ تین لاکھ روپے ماہانہ‘ یہی واحد حل ہے۔ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ملک کے شایان شان حل‘ یقینا قابلِ قبول اور قابلِ عمل حل۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved