تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     16-02-2021

متاعِ غرور!

انسان کی فطرت میں مال وزر کی طلب ودیعت کی گئی ہے۔ مال ودولت بنیادی انسانی ضروریات کے لیے ضروری بھی ہے؛ تاہم مادی دولت اور ذرائع کے حصول کے بارے میں اللہ نے انسانوں کو حدود کا پابند بنایا ہے۔ حلال وحرام کا تصور دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ دولت کے پجاری نہ بن جاؤ۔ دولت حلال ذرائع سے کماؤ اور اس میں سے اللہ اور بندوں کا حق ادا کرو۔ مال پر زکوٰۃ تو فرض ہے ہی، مگر فرض زکوٰۃ کے علاوہ بھی صدقاتِ نافلہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے فرماں بردار بندے مال ودولت میں سے اللہ اور اس کی مخلوق کا حق بخوشی ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اللہ کی یاد سے غافل اور اس کے احکام سے برگشتہ بندے اپنے مال کو اپنی عقل ودانش اور محنت ومہارت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں کردار دنیا میں ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ دنیا اور اس کی دولت کو قرآن نے متاعِ غرور یعنی دھوکے کا سامان قرار دیا ہے۔ اقبال نے اسی کی طرف اپنے شعر میں اشارہ کیا ہے:
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں! لا الہ الا اللہ
محدث ابن ابی حاتم نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ ابوامامہ الباہلی سے روایت بیان کی کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دعافرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال ودولت سے مالامال کردے‘‘۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''ثعلبہ تم پر افسوس ہے (تم نے اللہ کے نبی سے مطالبہ بھی کیا تو کیسی حقیر چیز کا کیا)۔ وہ تھوڑا مال جس کا تُو شکر ادا کرسکے، اس کثیر دولت سے اچھا ہے، جس کی تُو طاقت وسکت نہ رکھتا ہو‘‘۔ اس وقت تو ثعلبہ چلا گیا مگر کچھ دنوں بعد پھر عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لیے مال ودولت کی دعا فرمائیے‘‘۔ آپﷺ نے اسے سمجھایا اور کہا: ''تُو اس بات پر خوش نہیں ہے کہ اللہ کے نبی جیسی زندگی گزارے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن جاتے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے، مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا۔‘‘
ثعلبہ نے کہا: ''اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو رسولِ برحق بنا کر بھیجا ہے، اگر مجھے مال کی فراوانی عطا ہوئی تو میں ہر حقدار کا حق بطریق احسن ادا کروں گا‘‘۔ اس کے بار بار اصرار پر آخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: ''اے اللہ ثعلبہ کو مال دے دے۔‘‘ ثعلبہ نے بکریاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان میں یوں اضافہ ہونے لگا جیسے موسم برسات میں کیڑوں مکوڑوں میں ہوتا ہے۔ مدینہ اس کے لیے تنگ پڑ گیا۔ وہ مدینہ سے باہر ایک وادی میں چلا گیا۔ اب وہ نمازِ ظہر اور عصر تو مسجد نبوی میں آکر ادا کرلیا کرتا تھا مگر باقی نمازیں جماعت کے بجائے بکریوں کے پاس ہی تنہا ادا کرنے لگا۔ بکریاں مسلسل بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ وادی بھی تنگ ہوگئی تو ثعلبہ اس سے آگے ایک اور میدان میں چلا گیا۔ اب ساری نمازیں بلاجماعت پڑھنے لگا۔ صرف جمعہ کے روز نمازِ جمعہ ادا کرنے مسجد چلا آتا تھا۔ بکریاں اور زیادہ ہوگئیں تو اس میدان سے بھی آگے کھلے علاقے میں چلا گیا۔ اب نمازِ جمعہ بھی گئی۔ گزرنے والے قافلوں سے مدینہ کے حال احوال پوچھ لیا کرتا تھا جو نمازِ جمعہ ادا کرکے اپنے اپنے دیہات کو جارہے ہوتے تھے۔ ایک دن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثعلبہ کا حال احوال لوگوں سے پوچھا تو آپﷺ کو بتایا گیا کہ اس کی بکریاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور وہ مدینہ سے دور چلا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اے ثعلبہ تم پر افسوس، اے ثعلبہ تم پر افسوس، اے ثعلبہ تم پر افسوس!‘‘۔
جب زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا کہ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا (اے نبیﷺ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ۔(سورۃ التوبہ9:103) تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاملین زکوٰۃ کو مختلف علاقوں میں بھیجا اور زکوٰۃ کی وصولی، نصاب، شرح وغیرہ سے متعلق احکام لکھ کر انہیں دے دیے۔ اس علاقے میں آپﷺ نے دو صحابہ کرام کو بھیجا، ایک بنو جہینہ میں سے تھے اور دوسرے بنو سلیم میں سے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''ثعلبہ اور بنوسلیم کے فلاں آدمی سے زکوٰۃ وصول کرکے لاؤ۔ یہ دونوں صحابی مدینہ سے نکلے اور ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنایا اور خط دکھایا۔ حکم سن کر اس نے کہا: ''یہ تو جزیہ ہے، یہ تو جزیہ کی طرح کا ٹیکس ہے۔ بخدا میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ آپ لوگ جائیں اور دیگر افراد سے وصولیاں کرکے پھر میرے پاس آجائیں‘‘۔
جب یہ صحابہ کرام بنو سلیم کے مالدار مسلمان کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان کا استقبال کیا اور خط پر مسرت کا اظہار کیا۔ پھر اپنے اونٹوں میں سے بہترین اونٹ چھانٹ کر پیش کردیے۔ صحابہ کران نے دیکھا تو کہا: ''یہ تو درست نہیں ہے کہ ہم چن چن کر بہترین مال چھانٹیں، ہمیں حکم ہے کہ درمیانے درجے کا مال وصول کریں‘‘۔ انہوں نے کہا: ''خدا کے لیے یہ قبول کرلیں کیونکہ میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ راہِ خدا میں بہترین مال پیش کروں‘‘۔ ان سے مال لے کر یہ صحابہ کرام دیگر زمینداروں کے پاس بھی گئے اور ان سے بھی زکوٰۃ وصول کی۔ اب واپسی پر پھر وہ ثعلبہ کے پاس آئے۔ اس نے کہا: ''ذرا مجھے خط تو دکھاؤ‘‘۔ خط لے کر پڑھا اور پھر وہی بات دہرائی کہ یہ تو جزیہ ہے۔ اس کے بعد کہنے لگا: ''تم لوگ جاؤ میں اس مسئلے پر غور کروں گا‘‘۔
یہ دونوں صحابی مدینہ پہنچے تو ان سے کہانی سننے سے قبل ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنوسلیم کے صحابی کے حق میں دعائے خیر کی اور ثعلبہ کے بارے میں فرمایا: ''اے ثعلبہ تم پر افسوس ہے‘‘۔ بعد میں ان صحابہ کرام نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپﷺ کے ساتھیوں کو پوری کہانی سنائی۔ اس موقع پر سورۃ التوبہ کی یہ آیات نازل ہوئیں: ''اور ان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد باندھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہمیں مال عطا کیا تو ہم ضرور صدقہ ادا کریں گے اور لازماً صالحین جیسے کام کریں گے مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے، جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا، جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا‘‘۔ (التوبہ9:75تا 77)
ثعلبہ کے رشتہ داروں نے یہ آیات سنیں تو ثعلبہ کے پاس گئے اور اس کو سرزنش بھی کی اور یہ بھی بتایا کہ اس کے بارے میں سخت وعید پر مشتمل آیات نازل ہوئی ہیں۔ ثعلبہ اب بکریاں لے کر مدینہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کا صدقہ اور زکوٰۃ قبول کرلیں مگر آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے مجھے تمہارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے‘‘۔ اب ثعلبہ نے سر میں مٹی ڈال لی اور رونے دھونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں نے تجھے بار بار سمجھایا تھا مگر تو نہ سمجھا۔ اب یہ تیرا اپنا عمل ہے جو تیرے سامنے آگیا‘‘۔
ثعلبہ روتا دھوتا واپس گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد وہ خلیفۂ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مال لے کر آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول فرمالیں مگر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا: ''رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارا مال قبول نہیں کیا تو میں کیسے قبول کرسکتا ہوں‘‘۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی ثعلبہ مال لے کر آیا مگر حضرت عمرؓ نے بھی یہی فرمایا: ''رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے تمہارا مال قبول نہ کیا، تو کیا میں تمہارا مال وصول کرلوں؟‘‘ آپؓ نے بھی اسے رد کردیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ثعلبہ پھر حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اس کا مال قبول فرمالیں۔ مگر حضرت عثمان غنی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کریمینؓ نے تمہارا مال مسترد کردیا تو عثمان تمہارا مال کیسے قبول کرسکتا ہے۔ بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہی ثعلبہ ذلت ورسوائی کے ساتھ ہلاک ہوگیا۔
قارئین محترم! ہم آج عرصۂ امتحان میں ہیں۔ اللہ نے ہمیں کم یا زیادہ‘ جو بھی مادی وسائل عطا کیے ہیں‘ یہ ہماری آزمائش ہیں۔

 

یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لا الہ الا اللہ

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved