تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     17-02-2021

بیوقوف بھیڑوں کا قصائی

پاکستان اور ہندوستان میں ایک ہی ہفتے میں دو یکساں باتیں ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں مودی کی حکومت میں ایک اکیس سالہ لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے کہ وہ وہاں جاری کسانوں کے احتجاج میں اظہار ِیکجہتی کیلئے ایپ پر کام کررہی تھی جبکہ پاکستان میں عمران خان صاحب کی حکومت نے سرکاری ملازمین پر اندھا دھند آنسو گیس فائر کی ۔وزیرداخلہ شیخ رشید‘ جنہوں نے آنسو گیس کا حکم جاری کیا ‘ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ پرانی آنسو گیس پڑی تھی سوچا کچھ سرکاری ملازمین پر ٹیسٹ کی جائے اور حسبِ معمول چند جگتیں ماریں اور قہقہے لگائے۔ اس گیس بارے کہا جارہا ہے کہ یہ ایکسپائر ہوچکی تھی اور اس کے نتیجے میں پورا اسلام آباد متاثر ہوا لیکن بقول شیخ صاحب‘ آنسو گیس کو ٹیسٹ کیا جارہا تھا۔ ان کے کہنے کا مقصد تھا کہ ابھی پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا ہے لہٰذا وہ ذرا سوچ سمجھ کر شہر کی طرف رخ کریں۔ یوں پی ڈی ایم کو ڈرانے کیلئے آنسو گیس سرکاری ملازمین پر ٹیسٹ کی گئی۔
سوچتا ہوں موجودہ حالات میں اگر جناح‘ گاندھی اور نہرو ہوتے تو آج کی سیاسی قیادت کے ہاتھوں وہ کیا سلوک فیس کرتے؟ بھارت میں ایک اکیس سالہ لڑکی کو گرفتار کر کے پولیس کو پانچ دن کا ریمانڈ دے دیاگیا کہ اس نے کسانوں کے مظاہروں میں لوگوں کو ان کی اخلاقی سپورٹ کرنے کیلئے ایک ایپ میں مدد دی تھی۔ یاد آیا نہرو اور گاندھی ساری عمر یہی کام کرتے رہے۔ وہ ہندوستان کے دیہاتوں میں جا کر کسانوں کو منظم کرتے رہے‘تاکہ وہ انگریزوں سے آزادی حاصل کر سکیں۔ انگریزوں نے بھی ان پر مقدمات بنائے اور ہر دفعہ کسی نہ کسی علاقے میں تقریر کرنے پر انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ نہرو اور گاندھی کی جوانی ہندوستانیوں میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور اپنے حقوق کیلئے شعور پیدا کرنے میں گزرگئی۔ آج اسی ہندوستان میں وہ سب قوانین ہندوستانیوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں جن کے خلاف گاندھی جی اور نہرو صاحب لڑتے رہے اور جیل جاتے رہے۔آج ڈیڑھ ارب کے ہندوستان کو ایک اکیس سالہ لڑکی سے وہی خطرہ ہے جو کبھی انگریزوں کو تھا۔ چلیں مان لیا کہ انگریز غاصب تھے‘ وہ ہندوستان کولوٹ رہے تھے اور ان کے خلاف جدوجہد بنتی تھی لیکن ہمارے دیسی حکمرانوں کو اپنے ہی لوگوں سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے کہ ان پر وہی طاقت اور قوانین اپلائی کیے جائیں جو انگریز کرتے تھے؟ وہی تشدد اور بربریت کا مظاہرہ کیا جائے جو فرنگی دور میں کیا جاتا تھا۔
اب ذرا تصور کریں کہ عمران خان اپوزیشن میں ہوتے اور کسی اور حکومت کا وزیرداخلہ یہی بیان دیتا تو ان کا کیا ردعمل ہوتا؟ اگر آپ کو یاد ہو تو عمران خان اور طاہر القادری کے مشترکہ دھرنے پرنواز شریف کی حکومت نے گولیاں چلوائی تھیں‘ آنسو گیس کے گولے بھی استعمال کیے گئے ۔ یہ خبر بھی آئی تھی کہ آنسو گیس کے گولے ایکسپائر ہوچکے تھے۔ ان کی زد میں خود عمران خان اور ان کے ساتھی آئے۔ اُس وقت عمران خان اِن سب پولیس افسران کے نام لے کر کہتے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر انہیں خود سزا دیں گے۔ ایک دفعہ تو بنی گالہ جاتے ہوئے انہوں نے راستے میں دیکھا کہ پولیس والے ان کے ورکرز کو گرفتار کر کے گاڑیوں میں ڈال رہے تھے تو خود اُتر کر ان سب کو پولیس سے چھڑایا تھا۔ اس پر بھی خاصی لے دی ہوئی تھی کہ انہیں یہ کام کرنا چاہیے تھا یا نہیں۔اب انہی کے دور میں ایکسپائرڈ آنسو گیس سے اسلام آباد کا پورا آسمان بھر دیا گیا۔ چلیں آپ نے قانون کے نام پر سب کچھ کیا ہوگا‘ جیسے آپ سے پہلی حکومتوں نے آپ کے ورکرز پر گیس آزمائی تھی‘ لیکن ایک وزیرداخلہ مذاق اُڑاتے ہوئے ٹی وی پر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم نے سوچا‘ کچھ گیس سرکاری ملازمین پر ٹیسٹ کی جائے۔
یہ بات طے ہے کہ پاکستان اورہندوستان میں پاپولر حکومتوں کی وجہ سے انسانی آزادیاں بڑی حد تک ریاست نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ بھارت ستر سالوں سے جمہوری ملک ہے وہاں حالات بہتر ہوں گے‘ لیکن لگتا ہے وہاں آزادیٔ رائے بڑی حد تک کمپرومائز ہوئی ہے۔ اگر وہاں ایک اکیس سالہ لڑکی کو محض کسانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے ایپ بنانے پر گرفتار کیا جاسکتا ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ستر‘ بہتر سالوں کی جمہوریت کا کیا انجام ہوا ہے۔ آج کے پاکستان اوربھارت کو دیکھ کر ایک بات کی سمجھ آتی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپکے ہاں بہتّر سال سے جمہوریت ہے یا چار آمرانہ حکومتیں تیس برس سے زائد عرصہ رہ چکی ہیں۔سوال یہ ہے کہ شیخ رشید صاحب کو یہ نرگسیت کیسے لاحق ہو گئی کہ وہ کچھ بھی کہہ دیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا؟ شیخ رشید وہی ہیں جنہوں نے عمران خان کی نجی زندگی پر سنگین حملے تک کیے اور عمران خان کو ٹی وی شو میں کہنا پڑ گیا کہ اللہ انہیں شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنائے۔ وہ شیخ رشید کو چپڑاسی تک نہیں رکھیں گے۔ سیانے کہتے ہیں: بندے کو بڑا بول نہیں بولنا چاہیے‘ پلٹ کر منہ پر پڑتا ہے۔ وہی شیخ رشید ان کی حکومت میں وزیر داخلہ ہیں اور دھڑلے سے بیان دے رہے ہیں کہ ہم نے سوچا کچھ گیس سرکاری ملازموں پر ٹیسٹ کی جائے۔
شیخ رشید ان چند سیاستدانوں میں سے ہیں جنہوں نے صرف ایک سیٹ کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکائی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے ڈاکٹر شیر افگن نیازی کا نام ذہن میں آتا ہے جو اکیلی سیٹ پر جیت کر آتے تھے اور ان کے بغیر اسمبلی نہیں چل سکتی تھی۔ شیخ رشید اور شیر افگن کے فائر ورکس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں حکومت میں شامل کر لیا جائے۔ یہ بات بینظیر بھٹو کو سمجھ آگئی اور انہوں نے شیر افگن نیازی کو اپنی حکومت میں وزیر بنا کر رکھا۔ بعض کو آپ اس وجہ سے وزیر بناتے ہیں کہ وہ اپوزیشن میں رہے تو جینا حرام کر دیں گے۔ مصطفی کھر کے بارے میں بھی یہی سوچ کر بینظیر بھٹو نے انہیں وزیر بنایا تھا۔ جب کسی نے کہا کہ محترمہ یہ وہی کھر ہیں جنہوں نے آپکی پہلی حکومت کے خلاف مصطفی جتوئی کے ساتھ مل کر سازش کی تھی اور آپ ہیں کہ انہیں وزیر بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ بینظیربھٹو نے اعتراض کرنے والے سے پوچھا: اب وہی غلام مصطفی کھر کابینہ میں بیٹھ کر مجھے کیا کہتا ہے؟ یس پرائم منسٹر۔
شیخ رشید بھی سیاستدانوں کے اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیخ رشید نے بڑی کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ نواز شریف کے ساتھ مل جائیں۔2013 ء کے الیکشن کے بعد نواز شریف کو وزیراعظم کا ووٹ بھی دیا کہ شاید نظرِ کرم ہو جائے لیکن نواز شریف اس '' سمجھداری‘‘ کا مظاہرہ نہ کر سکے جو بینظیر بھٹو نے کی تھی۔ نواز شریف اس زعم میں رہے کہ شیخ رشید کو دبا لیں گے۔ وہی شیخ رشید نواز شریف سے مایوس ہوئے تو عمران خان نے انہیں جھپٹ لیا۔ خان صاحب کو بھی شیخ صاحب کی صلاحیتیوں کا علم تھا کہ یہ ون مین آرمی کیسے کسی کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔ یوں شیخ رشید نے ٹی وی چینلز سنبھال لیے جہاں انہوں نے روز شریف حکومت کا پوسٹ مارٹم شروع کیا تو خان صاحب نے جلسے سنبھال لیے۔ خان صاحب نے بھی بینظیر بھٹو والا راستہ اپنایا کہ جو آپ کو برا بھلا کہتے ہیں انہیں ساتھ ملا لو اور انہیں اپنے بڑے مخالفوں پر استعمال کرو۔ یوں عمران خان نے شیخ رشید کو استعمال کیا تو شیخ صاحب نے خان صاحب کو تاکہ وہ نواز شریف سے بدلے لے سکیں۔
قدرت کا کرشمہ دیکھیں ‘انہی نواز شریف کا پاسپورٹ شیخ رشید نے renew کرنا ہے جن سے نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد پارلیمنٹ میں سیدھی طرح ہاتھ بھی نہیں ملایا تھا۔ اس لیے آج شیخ رشید کا یہ کہنا بنتا ہے کہ سوچا کچھ گیس سرکاری ملازمین پر ٹیسٹ کر لی جائے۔شیخ رشید صاحب کے اس بیان سے ایک جرمن کہاوت یاد آئی کہ بیوقوف بھیڑیں اپنا قصائی خود چنتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved