تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     17-02-2021

مڈل ایسٹ نئی جنگ کی دہلیز پہ؟

امریکا میں اقتدار کی منتقلی کے ساتھ ہی عالمی پالیسیوں میں غیر معمولی تبدیلیوں کی گونج نے مڈل ایسٹ کو نئے مسائل کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کو ریورس کرنے کی حکمت عملی نہ صرف نئی جنگ کے اسباب پیدا کرسکتی ہے بلکہ اس سے امریکا کے داخلی سیاسی تضادات بھی دوچند ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحریک مواخذہ کی ناکامی اسی اندرونی تقسیم پہ پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش محسوس ہوتی ہے۔ سابق صدر کے مواخذے سے پسپائی پر تبصرے کے نپے تلے الفاظ میں صدر جو بائیڈن کی بے بسی عیاں تھی۔ انہیں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنے کیلئے جمہوریت کی نزاکتوں کے نقاب ِابہام کو استعمال کرنا پڑا؛ تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ''امریکا کو عظیم بنانے کی تحریک تو ابھی شروع ہو ئی ہے‘‘۔ اس سے واضح ہو گیا کہ خود امریکا کے اندر تیزی سے بڑھتا ہوا نسلی تفاوت اور گروہی کشمکش جمہوری توازن کیلئے سنجیدہ خطرہ بن چکے ہیں، اسی لئے صدر جوبائیڈن کی زیادہ توجہ اگرچہ امریکا کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی اور نسلی تفریق کو روکنے پہ مرتکز رہے گی؛ تاہم وہ اپنی عالمی بالادستی کو بحال رکھنے کی خاطر مڈل ایسٹ کے تنازعات کو سنبھالنے کی کوشش ضرورکریں گے جو اپنی شدت کے لحاظ سے تیسری عالمی جنگ کا محرک بن سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے عہدِ حکمرانی کے دوران خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کی خاطر مڈل ایسٹ میں جس نوع کے تنازعات کو بڑھاوا دیا گیا‘ ان میں ایران سے جوہری معاہدے کا استرداد اور یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے قیام کے علاوہ یمن میں ابھرنے والا انسانی المیہ سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے اگر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید اور یمن کی خانہ جنگی کی تحدید کے ذریعے تنازعات میں توازن لانے کی خاطر اسرائیل کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلی مقتدرہ ایرانی جوہری تنصیبات پہ حملہ کر کے جنگ کے دائروں کو یورپ تک پھیلا سکتی ہے۔ اسرائیلی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ہم ایران کو زیادہ وقت نہیں دینا چاہتے کہ وہ جوہری تجربہ کر کے خطے میں نئی ایٹمی قوت کے طور پہ ابھرے۔ ادھر بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کے مڈل ایسٹ میں بڑھتے ہوئے تسلط کو ایسی غیر محدود جنگ کے خطرے کے طور پہ دیکھ رہی ہے جو بالآخر یورپ کے دروازے پہ دستک دینے والی ہے۔ گویا مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اب اسرائیل کے مڈل ایسٹ پہ تسلط کو بڑھانے یا محدود کرنے میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہا، یعنی دونوں صورتوں میں جنگ کے امکان کو روکنا مشکل ہو گیا ہے؛ تاہم امریکی اپنی قومی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر مڈل ایسٹ بحران کو بتدریج ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں، جوبائیڈن اسی مقصد کے حصول کیلئے اپنی ٹیم کی اجتماعی دانش کو آزمانے میں سرگرداں ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے پیشرو بارک اوباما نے عہدہ سنبھالتے ہی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے ان کی پذیرائی کی لیکن نو منتخب صدر جوبائیڈن‘ جنہوں نے عنانِ اقتدارسنبھالتے ہی چین، میکسیکو، برطانیہ، بھارت، فرانس، جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا اور روس سمیت متعدد غیر ملکی سربراہوں سے ٹیلیفونک بات چیت کے ذریعے سفارتی رابطوں کی تجدید کی‘ نے ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو نظر انداز رکھا ہے؛ تاہم وائٹ ہاؤس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی رہنماؤں کو فون کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو شامل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی صدر اور اسرائیلی رہنمائوں کے مابین براہِ راست رابطے کی کمی نے اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کے مابین یہ قیاس آرائیاں تیز کردی ہیں کہ نیتن یاہو کے بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے بارے میں نئی انتظامیہ اپنی ناراضی کا اشارہ دے رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے معمول کی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا ''صدر جو بائیڈن وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے منتظر ہیں، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ جلد رابطہ ہوگا؛ تاہم میرے پاس کوئی خاص وقت یا متعین تاریخ موجود نہیں‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا دعوت میں تاخیر کا مقصد اسرائیلی رہنما کی توہین کرنا تھا؟ جین ساکی نے جواب دیا ''جان بوجھ کے تفریق کرنا مقصود نہیں تھا، صدر ٹرمپ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں اگرچہ نیتن یاہو اہم ترین رفیق کار رہے ہیں لیکن خواہش کے باوجود وہ جو بائیڈن کے پالیسی فریم ورک میں اپنے لئے مناسب جگہ نہیں پا سکے‘‘۔
عام خیال یہی ہے کہ نیتن یاہو حالیہ انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کونبھانے کی کوشش میں اپنی قومی پالیسیوںکو ریاستہائے متحدہ سے ہم آہنگ رکھنے کے امکان کو نقصان پہنچا بیٹھے ہیں۔ ہر چند کہ جو بائیڈن بھی طویل عرصے تک واشنگٹن میں اسرائیل کے سچے دوست شمار کئے جاتے تھے لیکن نیتن یاہو سے ان کی براہِ راست کبھی ملاقات نہیں ہوئی؛ چنانچہ ان حالات میں ایران کے ساتھ اُس جوہری معاہدہ کی تجدید نیتن یاہو کے ضبط کو آزمانے کی جسارت ہو گی جس سے ٹرمپ نے دستبرداری اختیار کی تھی۔ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے قیام اور دو ریاستی فارمولے سے انحراف نے فلسطینیوں کو واشنگٹن سے مایوس کر دیا تھا۔ اب جیسا کہ جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کے علاوہ مقبوضہ زمین پر اسرائیلی آباد کاری کی مخالفت کریں گے، اس سے مظلوم فلسطینیوں کوامید کی ایک کرن نظر آئی ہے جبکہ اسرائیل کیلئے اس میں ایک منفی پیغام پنہاں ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید کا عندیہ دینے کے بعد جمعہ کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے سولہ فروری تک یمن کی حوثی تحریک کے بعض اراکین کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا عندیہ بھی دیا، حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ حوثیوں پہ مزید پابندیوں لگانے کیلئے پُرجوش تھی اور اقوام متحدہ کی طرف سے انتباہ کے باوجود سابق صدر ٹرمپ نے آخری ایام میں کئی حوثی اراکین کو عالمی دہشت گرد تنظیم (ایس ڈی جی ٹی) اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (ایف ٹی او) سے منسلک کرکے یمن پہ بڑے پیمانے پہ پابندیاں لگانے کی راہ ہموار کی تھی؛ تاہم صدر جوبائیڈن نہایت سرعت کے ساتھ مڈل ایسٹ بارے امریکی پالیسی کو متوازن بنانے میں سرگرداں ہیں، جس کا محور بظاہر ایک انسانیت سوز بحران کی شدت کو کم کر کے یمن کو خوفناک خانہ جنگی کے آشوب سے نکالنے کیلئے سفارتی ذرائع کو بروئے کار لانا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ یمن کے امن وسلامتی اور استحکام کو خطرات سے بچانے کی خاطر تین حوثی رہنما اب بھی امریکی پابندیوں کے زیر اثر رہیں گے اور متنبہ کیا کہ واشنگٹن حوثی تحریک کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا، خاص طور پر بحر احمر میں تجارتی جہازوں پر حملوں اور سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل اٹیک کے ذمہ داران کو دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف غیر جانبدار ذرائع، اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کی آڑ میں حوثیوں پر عائد کردہ پابندیاں خوراک کی فراہمی کا ایسا گلا گھونٹ سکتی ہیں جس سے بڑے پیمانے کا قحط ابھر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن کی خانہ جنگی کو ایسا انسانیت سوز بحران قرار دیا ہے جہاں 80 فیصد لوگوں کو ناقابل بیان اذیتیں برداشت کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یمن سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کے ایک حصے کے طور پر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے عرب اتحاد کی طرف سے جارحانہ کارروائیوں کو محدود کرنے کیلئے امریکی مدد ختم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ انہوں نے جنگ کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کی زیر قیادت سفارتی کوششوں کی حوصلہ افزائی کیلئے تجربہ کار امریکی سفارت کار ٹموتھی لینڈرنگ کو یمن کیلئے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ لینڈرنگ نے ریاض میں یمن کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved