وقت گزرتا جارہا ہے اور امیدوں پر برف پڑتی جارہی ہے۔ تلاش جاری ہے اور اب ہیلی کاپٹرز کے ساتھ طیارہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ پاکستان، آئس لینڈ اور اٹلی کی مشترکہ کوششیں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کسی کھوجی کی طرح سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔ کے ٹو پر اس مقام کا تعین کیا گیا ہے جہاں ممکنہ حادثے کا زیادہ امکان ہے۔ پوری قوم کی دعائیں ہیں کہ مہم جو کسی جگہ بخیریت ہوں۔ چھوغو ری کی کوئی گپھا انہیں اپنی حفاظت میں سمیٹے بیٹھی ہو‘ لیکن ہر گزرتا لمحہ ناامیدی میں اضافہ کر رہا ہے۔ علی سدپارہ کے جواں سال بیٹے ساجد سدپارہ نے شروع میں ہی کہہ دیا تھاکہ جسم تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ کہنا ایک بیٹے کیلئے پہاڑ جیسا کٹھن رہا ہوگا‘ لیکن وہ ان پہاڑوں کی سفاکی کو جانتا ہے اس لیے اس کی بات رد نہیں کی جاسکتی۔
لیکن حکومت کی ذمے داری یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ حادثہ پیش آیا ہے اور ایسی مہم جوئی میں ایسا حادثہ ہمیشہ متوقع ہوتا ہے، اور اس میں کوئی انسانی کوتاہی، غیر ذمہ داری کا دخل ہے تو اس کا تعین ہونا ضروری ہے۔ دنیا بھر کی نظریں صرف کوہ پیماؤں کی تلاش پر نہیں لگی ہوئیں بلکہ اس پر بھی مرکوز ہیں کہ حکومت کیا قدم اٹھاتی ہے۔
28251 فٹ بلند چوٹی‘ دنیا میں صرف ایک پہاڑ جس کی ہمسری کرسکتا ہے اور جسے مقامی لوگ چھو غو ری اور بین الاقوامی کوہ پیما کے ٹو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کے ٹو ہر ایک کو تو کیا، خواص میں بھی ہر ایک کو رسائی نہیں دیتا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوہ پیمائی کا سازوسامان لیا اور پہاڑ پر چڑھ گئے، تو درستی کر لیجیے۔ آپ اس عظیم پہاڑ کے پیروں تک پہنچتے پہنچتے بے دم ہوجائیں گے۔ سکردو سے اگر لائسنس اور اجازت نامہ حاصل کرلیا جائے تو کسی لائسنس یافتہ گائیڈ کے ساتھ سکردو سے جیپ کی چھ گھنٹے مسافت طے کرکے اسکولے پہنچا جاتا ہے‘ لیکن اس سے آگے جیپ کے پر جلتے ہیں۔ یہاں سے ٹریکنگ کا خوبصورت ترین سفر شروع ہوتا ہے جس میں پہلے دن کا پڑاؤ بخور داس یا مینگو پیک کے دامن میں ڈالا جاتا ہے۔ پھر ٹینگو ٹاورز اورکیتھیڈرل ٹاور کے بیچ مزید تین دن کا سفر جو پیچ و خم کھاتا گرینڈ برالدو کی وادی سے گزر کر بالتورو گلیشئرتک پہنچاتا ہے۔ بالتورو سے گزر کر گیشر برم رینج جہاں پانچ سات ہزار فٹ اور دو آٹھ ہزار فٹ سے بلند چوٹیاں خوش آمدید کہتی ہیں۔ بالتورو کے اختتام پر مشہور زمانہ کنکورڈیا کا آغاز ہے جو کے ٹو سے بارہ کلومیٹر دور ہے اور جہاں سے 26 ہزار فٹ سے بلند چار چوٹیاں یعنی کے ٹو، براڈ پیک،گیشربرم 1 اور گیشربرم 2 ایک جادوئی فضا میں آپ کا انتظار کرتی ہیں۔ یہاں سے آگے بڑھ کر کے ٹو کے دامن یعنی کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچا جاتا ہے۔ اور جان لیجیے کہ اسکولے کے سرسبز گاؤں سے کے ٹو بیس کیمپ تک ٹریک پر 14 دن لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوہ پیماؤں کے لیے دنیا میں ایسا مبہوت کن منظر اور کہیں نہیں ہے۔ بیس کیمپ بذات خود بہت اونچائی پر یعنی 16400 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
لیکن یہاں سے تو اصل مہم جوئی شروع ہوتی ہے۔ پہاڑ کے دامن سے چوٹی تک کی چڑھائی۔ اگلا کیمپ ایڈوانس بیس کیمپ (17400 فٹ)، پھر اس سے اگلا کیمپ 1 (19900 فٹ) پھر کیمپ 2 (21980 فٹ) کیمپ 3 (23800 فٹ) کیمپ 4 (25300 فٹ)‘ اس کے بعد چوٹی ہی آخری منزل ہوتی ہے جسے سر کرکے بتدریج واپسی کی جاتی ہے۔
کوہ پیماؤں اور مہم جوؤں کیلئے بہترین موسم جولائی، اگست سمجھا جاتا ہے لیکن موسم سرما کی مہم جوئی خاص ہے۔ اس سال بھی کچھ کوہ پیما تمام تیاریوں اور مختلف ٹیموں کے ساتھ اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے تھے۔ یہ ٹیمیں کون سی تھیں اور ان کی تفصیل کیا ہے۔ یہ ہمیں علم نہ ہوتا اگر ہمارے دوست عمران حیدر نہ بتاتے۔ وہ پولیس کے نیک نام اور بہت اچھی شہرت والے افسر ہیں۔ مزید یہ کہ ایک طرف وہ بہت عمدہ صاحبِ کتاب شاعر ہیں، دوسری طرف وہ خود کوہ پیمائی اور مہم جوئی کا شوق اور مہارت رکھنے والوں میں ہیں‘ اورکوہ فلک سیر سمیت خود کئی مہمات سر کرچکے ہیں۔ کے ٹو پر امسال موسم سرما کی مہمات کے بارے میں انہی کی زبان سے سنتے ہیں۔
''کوہ پیمائی ایک ایسا کھیل ہے جس میں باقاعدہ تحریری قواعد و ضوابط نہیں ہوتے بلکہ ہر پہاڑ کے مطابق اُس کے بیس کیمپ کے زمینی حقائق، موسمی حالات اور اُس خاص وقت میں وہاں پر موجود کوہ پیماؤں کی ٹیمز کے مابین باہمی تعاون اور تال میل کے ذریعے روایات اور اخلاقیات کے مُسلّمہ اُصولوں کے مطابقsummit push کو improvise کیا جاتا ہے۔ مُہم جُوئی پر آئی کوہ پیماؤں کی ٹیمز مختلف قومیتوں پر مشتمل اور مختلف ٹُور آپریٹرز کے زیرِ اہتمام ہوتی ہیں‘ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اُن کا آپس میں کوئی باقاعدہ مقابلہ تو نہیں ہوتا‘ لیکن پیشہ ورانہ رقابت ضرور ہوتی ہے جو زیادہ تر مثبت‘ لیکن کبھی کبھار منفی درجے کی بھی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے آج دو مختلف ٹیمز کے ممبر ماضی میں کسی دیگر مُہم جُوئی میں ایک ہی ٹیم کے ساتھی رہے ہوں اور آج کے ساتھی کل الگ ہو کر کسی اور کے ساتھ teamed-up ہو جائیں۔ کوہ پیمائی میں یہ معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں اس سال K2 کی سرمائی مُہم جُوئی پر مختلف قومیتوں کے کل 60 کے قریب کوہ پیماؤں نے قسمت آزمائی کی۔ آئس لینڈ کے جان سنوری، علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ پر مشتمل 3 رُکنی ٹیم 5 دسمبر جبکہ نیپالی شرپاؤں سمیت باقی تمام کوہ پیماؤں کی مختلف ٹیمز کرسمس یعنی 25 دسمبر کے بعد K2 کے بیس کیمپ پر پہنچیں۔
جیسا کہ مَیں نے عرض کیا کہ کوہ پیمائی کے کھیل میں حتمی کچھ نہیں ہوتا بلکہ مختلف possibilities ہوتی ہیں جو حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں اور کوہ پیما اُس کے مطابق پہاڑ پر اپنی حکمتِ عملی میں improvisation کرتے رہتے ہیں، بعض اوقات تو ٹیمز میں بھی ردّوبدل ہو جاتا ہے حتّیٰ کہ کلائمبنگ رُوٹس بھی تبدیل ہو جاتے ہیں جیسا کہ 2019 کی پولش ٹیم کی سرمائی کوشش ابتدا میں چیزن رُوٹ Cesan Route کے ذریعے تھی جو بعد ازاں Abruzzi Route پر شفٹ ہوگئی تھی؛ تاہم ناکام رہی۔ ہمیشہ کی طرح اس سال کی K2 مُہم جُوئی میں بھی آخر تک کوہ پیماؤں کی improvisation جاری رہی۔ ابتدا میں نیپالی شرپاؤں کی تین الگ الگ ٹیمز تھیں جن میں سیون سمٹ ٹریکس SST، امیجن نیپال Imagine Nepal اور Nims Dai کی اپنی الگ ٹیم تھی۔ لیکن 14 جنوری کی summit push سے پہلے یہ تینوں ٹیمز merge ہو گئیں اور 10 شرپاؤں پر مشتمل ایک All Nepalese SherpaTeam نے 16 جنوری کو سمٹ کی۔ اِسی طرح اٹلی کی خاتون کوہ پیما Tamara Lunger اور رومانیہ کے Alex Gavan ایک ٹیم تھے جبکہ چلّی کے Juan Pablo اور سپینش کوہ پیما Surgie Mangote ایک الگ ٹیم تھے۔ نیپالیوں کی سمٹ والے دن Surgie Mingote کیمپ 1 سے گِرے اور Advance Base Camp یعنی ABC تک لُڑھکتے ہوئے آئے‘ جس سے سر میں چوٹ لگنے کے باعث اُن کی موت واقع ہو گئی۔ Sergie Mingote کی Alex Gavan کے ساتھ بہت زیادہ دوستی تھی؛ چنانچہ Alex دوست کی موت کے دُکھ کو جھیل نہ پایا اور Tamara اور K2 کی مُہم جُوئی‘ دونوں کو چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ نتیجتاً Tamara Lunger نے Sugie Mingote کے بچ جانے والے ساتھی Juan Pablo کے ساتھ نئی ٹیم بنائی اور 3 فروری والی summit push میں کیمپ 3 تک پہنچی۔ وہاں دونوں نے جان سنوری کی ٹیم کے ساتھ اُن کے ٹینٹ میں پناہ لی لیکن Tamara نے exaustion کے باعث اپنی summit push ختم کر دی اور SST کی کلائنٹ کلائمبرز ٹیم کے ہمراہ نیچے اُتر آئی جبکہ اُس کے نئے ساتھی Juan Pablo نے جان سنوری اور علی سدپارہ کے ساتھ مزید بُلندی کا سفر جاری رکھا اور بالآخر یہ تینوں ہی ڈیتھ زون میں لاپتہ ہو گئے‘‘۔ (جاری)