اب عالمی سفارتکاری میں ایک اور طرز کی سفارتکاری بھی شامل ہوگئی ہے جس کو عسکری یا ملٹری سفارتکاری کہتے ہیں۔ اس میں دوسرے ممالک کے فوجی سربراہان سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں اور کامیاب دوروں کے بعد یہ ممالک مل کر جنگی مشقیں کرتے ہیں، آپس میں دفاعی معاہدے ہوتے ہیں اور اسلحے سمیت جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا تبادلہ ہوتا ہے۔ عسکری سفارتکاری دورِ جدید کی ضرورتوں میں سے ایک ہے اور پاکستان اس وقت بخوبی یہ کام انجام دے رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف‘ جو پاکستان آرمی کے سابق چیف ہیں‘ اس وقت باجوہ ڈاکٹرائن اور نیول ایئرفورس کی سفارتکاری بھی پاکستان کو دفاعی طور پر کافی مضبوط کر رہی ہے۔
پاک فضائیہ چین کے ساتھ مشترکہ طور پر جے ایف 17 تھنڈر کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جبکہ اب دونوں ممالک مشترکہ طور پر اس کے بلاک تھری کی تیاری میں مشغول ہیں ایک بڑی دفاعی کامیابی ہے۔ چین اور پاکستان نے دسمبر 2020ء میں شاہین نائن فضائی مشقوں میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ یہ دفاعی مشقیں 2011ء سے جاری ہیں۔ ہر سال ان کا انعقاد باری باری چین اور پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ اور چائینز ایئر فورس پی ایل اے کے دستے ان مشقوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس بار ان مشقوں میں فخرِ پاکستان جے ایف 17 تھنڈر کے ساتھ چین کے جے 10 طیاروں نے بھی شرکت کی۔ امید ہے کہ جلد پاکستان اور چین کے مابین جے ٹین طیاروں کے حوالے سے بھی معاہدہ ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اس وقت ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر تربیلا میں اتاترک الیون مشقیں بھی جاری ہیں جن میں پاکستان اور ترکی کی سپیشل فورسز کے دستے حصہ لے رہے ہیں۔ یہ بھی عسکری سفارتکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ برادر اسلامی ممالک مل کر انسدادِ دہشت گردی اور مغویوں کی بازیابی کی تکنیک کے آپریشن اور جنگی مشقیں کر رہے ہیں۔
پاک بحریہ بھی نیول ڈپلومیسی کے تحت تمام ممالک کو ساتھ ملا کر سمندری پانیوں کی حفاظت کرنے کی خواہاں ہے۔ پاک بحریہ ہمارے پانیوں کی نگہبان ہے اور سمندر‘ خشکی اور فضا میں یہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی بھرپور حفاظت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی پانیوں میں امن کی صورت کو برقرار رکھنے کیلئے مشترکہ مشقوں کا بھی انعقاد کرتی رہتی ہے۔ پاک بحریہ نے آبی چیلنجز کے پیش نظر 2007ء میں امن مشقوں کا آغاز کیا تھا جن کا مقصد تمام ممالک کے ساتھ سمندری حدود کو محفوظ بنانے کے لیے اشتراکِ عمل تھا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ سمندروں میں بہت سے جرائم ہوتے ہیں جن میں اکثر معصوم عوام کی قیمتی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ اکثر ٹریول ایجنٹ لوگوں کو یورپی ممالک میں بھجوانے کا جھانسہ دے کر ان سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں اور انہیں کھلے سمندروں میں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں جہاں اکثر افراد آبی لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ کیسز میں غیر قانونی تارکین وطن کو دوسرے ممالک میں سزا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بحری قزاق بھی عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ یہ مسافر جہازوں اور تجارتی قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں جبکہ منی لانڈرنگ اور سمگلنگ بھی زیادہ تر سمندری راستوں سے ہی ہوتی ہے۔ اس لئے پانیوں کی مشترکہ حفاظت از حد ضروری ہے۔
اب تک پاک بحریہ بحیرۂ ہند میں کامیاب چھ امن مشقیں منعقد کر چکی ہے اور ساتویں کا انعقاد رواں ماہ کراچی میں ہوا جس میں 45 ممالک نے شرکت کی۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک تنِ تنہا سمندروں کی حفاظت نہیں کر سکتا، اس لئے امن مشقوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک مل کر سمندروں کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائیں اور مشترکہ سکیورٹی کا ایک نظام نافذ العمل کیا جائے۔ پاکستان بحیرۂ عرب کی ساحلی پٹی پر واقع ہے جو بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایشیائی ممالک کی بیشتر تجارت اسی روٹ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بحیرۂ ہند بھی بہت اہم تجارتی روٹ ہے۔ یہ دنیا بھر کی تیل کی ترسیل کا روٹ ہے۔ سی پیک اور گودار کی وجہ سے بھی اس خطے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی حفاظت تمام ممالک کا مشترکہ مفاد ہے۔ اگر ہم اس کی دفاعی اہمیت دیکھیں تو یہاں چین، بھارت اور پاکستان جیسی بڑی نیوی پاورز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں امریکا اور روس کی بیس بھی موجود ہیں۔ اس بار کی مشقوں کی اہم بات یہ ہے کہ مشرقی ایشیا، مغربی ایشیا، وسطی ایشیا، یورپ، افریقہ اور براعظم امریکا کے ممالک کے علاوہ پہلی بار روس نے بھی ان مشقوں میں شرکت کی ہے۔ امریکا، چین، روس، ترکی اور ایران جیسے ایک دوسرے کے مخالف ممالک پاک نیوی کی منعقدہ مشقوں میں مشترکہ طور پر شریک تھے۔ نیٹو اتحاد کے ممالک کے ساتھ روس کی مشقیں بہت سے ممالک کے لیے حیران کن تھیں۔ یہ بات بھارت کو اتنی ناگوار گزری کہ اس نے روس کے ساتھ اپنا سالانہ سمٹ منسوخ کر دیا۔ البتہ عالمی طور پر ان مشقوں کو بہت پذیرائی ملی ہے۔ کورونا کے دوران منعقد کی گئیں ان مشقوں میں کورونا ایس او پیز کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا۔
یہ امن مشقیں بحری جہازوں، آبدوزوں، خشکی، ہاربر، سی فیز اور ہوائی جہازوں پر بیک وقت کی گئیں، ان میں خصوصی طور پر سپیشل فورسز کے دستے بھی شامل تھے تاکہ دہشت گردوں اور بحری قزاقوں کی بیخ کنی کی مشق کی جائے۔ مشقوں کے ساتھ سیمینارز اور مباحثوں کا بھی انعقاد ہوا۔ اس حوالے سے پاکستان بحریہ نے خصوصی نغمہ بھی جاری کیا جسے ملکی اور غیر ملکی شائقین نے بہت پسند کیا۔ 12 فروری کو ان مشقوں کی فلیگ ہوسٹنگ تقریب کا انعقاد ہوا۔ 13 فروری کو چیف آف نیول سٹاف نے غیر ملکی جہازوں کا دورہ کیا۔ 13 فروری کو ہی انٹرنیشل فوڈ گالا کا انعقاد ہوا۔ 14 فروری کو حربی صلاحیتوں اور دہشت گردی سے نمٹنے کی مشقیں ہوئیں۔ 13 سے 15 فروری انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔15اور 16 فروری کو زیادہ تر سمندری سرگرمیاں ہوئیں۔ امیر البحر محمد امجد خان نیازی نے کہا کہ یہ مشقیں نظریاتی ہم آہنگی کا وسیلہ ہیں، تمام افواج متحد ہوکر بحر ہند میں ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ ان تقریبات میں صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، دفاعی اتاشی اور سفیران کے علاوہ غیر ملکی مبصرین نے بھی بطورِ خاص شرکت کی۔ پاکستان نیوی کے ایس ایس جی سیل گروپ نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا جسے کیپٹن ذوہیب نجم بیگ لیڈ کر رہے تھے۔ اس ایس ایس جی سیل نے پیرا جمپس اور فری فال جمپس کا مظاہرہ کیا اور دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اب ان مشقوں کا انعقاد دو سال بعد ہو گا اور اس دوران حالیہ مشقوں کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
لاکھوں سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان مشقوں کے حوالے سے ٹویٹس کیے۔ اس کے علاوہ یوٹیوب، فیس بک اور انسٹا گرام پر بھی صحافیوں اور معروف شخصیات نے اس حوالے سے وڈیوز پوسٹ کیں جن کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ غیر ملکی میڈیا کی ایک کثیر تعداد نے بھی اس ایونٹ کو کور کیا اور عالمی میڈیا، اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا سمیت ہر جگہ ان مشقوں کی دھوم سنائی دی۔ ''امن کیلئے متحد‘‘ مشقیں پاکستان کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یہ امن مشقیں پاکستان کا مثبت چہرہ ہیں۔ جہاں بھارت کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کر دے‘ وہیں اب اس کو خود یورپی یونین کی ڈس انفو لیب کی فیک میڈیا آئوٹ لیٹس پر تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے پر خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ نے بھارت کی کورونا ویکسین ناقص ہونے پر واپس کر دی ہے جس سے اس کی پوری دنیا میں تضحیک ہو رہی ہے۔ دوسری طرف 45 ممالک کا پاکستان کی دعوت قبول کرنا بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے اور اس کامیابی کا سہرا ہماری نیول ڈپلومیسی کے سر جاتا ہے۔