تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-02-2021

وہ کمزور لمحات

کووڈ 19کے بخار اور اکھڑی ہوئی سانسوں میں پائوں کے انگوٹھے سے دماغ کی ساخت تک‘ درد سے نڈھال شریکِ حیات کا جسم میرے سامنے تھا اور ایک فلم کی طرح وفا شعار شریک حیات کی حیثیت سے بِتائی گئی زندگی کی اکھڑی سانسوں کے ٹوٹتے تار میرے پورے وجود کو لرزا رہے تھے۔ فوری طور پر ایک ہسپتال پہنچے تو کہا گیا کہ فیس کیلئے اتنی رقم جمع کرا دیجئے تاکہ آپ کی مریضہ کو کورونا کے مریضوں کیلئے مختص کئے گئے حصے میں شفٹ کر دیا جائے۔ جب ہسپتال انتظامیہ سے رقم کا سنا‘ جو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں تھی‘ تو بے اختیار ہاتھ اپنی جیب کی جانب چلا گیا جہاں اس وقت ڈھائی لاکھ روپے تھے۔ کہا گیا یہ تو بہت کم ہیں، بہرحال ہم آپ کے مریض کو داخل کر لیتے ہیں، آپ کی مریضہ کو‘ جیسا ہمیں نظر آ رہا ہے‘ وینٹی لیٹر لگانا پڑے گا جس کے آپ کو کم ازکم 70 سے80 ہزار روپے روزانہ ادا کرنا ہوں گے اور اس کیلئے آپ کو اس وقت تک ہسپتال میں رہنا ہو گا جب تک ان کا رزلٹ نیگیٹو نہیں آ جاتا۔
میرے پورے وجود میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ ایک جانب دس سے پندرہ لاکھ روپے تھے‘ جسے آج کے دور میں ہسپتال انتظامیہ ایک معمولی رقم بتا رہی تھی تو دوسری جانب وفا کی دیوی کی صورت میں ہمہ وقت اللہ کی یاد اور عبادت میں مگن رہنے والی شریک حیات تھی۔ اپنی کل جمع پونجی کا حساب لگایا تو فقیر کی کٹیا کی طرح سوائے ویرانی کے اور کچھ بھی دکھائی نہ دیا اور سوچنے لگا کہ اگر تم نے بھی ''بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہوتے‘‘، تم نے بھی وہی کچھ کہا اور لکھا ہوتا جس کی ترغیبات دی جاتی تھیں تو تمہیں بھی کسی بہت اچھی سوسائٹی میں گھر بنا کر دیا جانا تھا۔ تمہارے لئے بھی ماہانہ وظیفہ مقرر ہو جانا تھا۔ تمہیں بھی کسی سرکاری یا کسی نیم سرکاری ادارے میں کوئی مناسب عہدہ مل جانا تھا جہاں الائونسز وغیرہ شامل کر کے چار پانچ لاکھ ماہانہ تمہاری تنخواہ مقرر ہو جانا تھی۔ سرکاری گاڑی اور بہترین مراعات تمہارے سامنے ہوتیں۔ یقین جانئے کہ یہ پیشکشیں مجھے کئی بار ہو چکی تھیں اور کسی عام شخص سے نہیں بلکہ ان کی جانب سے وہ جو آج اتالیق بنے ہوئے ہیں اور اس وقت ان کا اقتدار پوری آب و تاب سے چمکتا تھا۔ دولت کی آج بھی ان کے پاس کوئی کمی نہیں کیونکہ لندن میں جس طرح انہوں نے 'اسے‘ بہت بڑی قیمت کا سٹوڈیو اور ایک صاحب کو انتہائی قیمتی گاڑی خرید کر دی ہے اور جیسے اب تک ہر ماہ ان کے ناز و نخرے اٹھائے جا رہے ہیں‘ وہ کسی سے بھی اوجھل نہیں۔
ہسپتال انتظامیہ کی اپنی جانب اٹھی ہوئی نظریں میرے جسم میں تیروں کی طرح چبھ کر سوال کر رہی تھیں اور دوسری جانب پیار و محبت اور وفا کی سانسیں تھیں کہ اکھڑی جا رہی تھیں۔ وہ میری زندگی کے کمزور ترین لمحات تھے۔ اپنی پوری سروس اور پھر ملک کی انتہائی اہم ترین شخصیات کے بہت ہی نزدیک رہتے ہوئے‘ ان کی ذاتی سکیورٹی کیلئے اعلیٰ ترین فرائض انجام دینے کے وہ سارے لمحات مجھے یاد آئے جب مجھے ہر قسم کی مراعات اور دوسرے سٹاف کی طرح‘ جو اس وقت کی ایک اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت سے منسلک تھا‘ لاہور کی ہر سکیم میں دو دو‘ تین تین پلاٹ عطا کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ آج ان سب کی مالیت کئی کئی کروڑ روپے ہوتی۔ خدا جانے اس وقت کیسے میری زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ جناب میں یہ ڈیوٹی اپنا فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہوں۔ اگر دیال سنگھ کالج کے ہاسٹل کے باہر آپ پر ہوئے قاتلانہ حملے کے دوران میں نے گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے اپنا جسم آپ کی ڈھال بنایا تھا تو بحیثیت آپ کے سکیورٹی انچارج‘ یہ میرا فرض تھا اور اس کیلئے مجھے کسی انعام کی ضرورت نہیں۔ میرا انعام یہی ہے کہ میں نازک ترین وقت میں اپنے اوپر عائد کئے گئے فرض پر پور اترا۔ مجھے اس وقت عجیب سی نظروں سے دیکھا گیا کہ کیا یہ شخص اپنے ہوش و حواس میں رہ کر اس طرح کی باتیں کر رہا ہے کیونکہ ان کے پاس سے گزرنے والے بھی آج کروڑ پتی اور کئی تو ارب پتی بن چکے ہیں۔ وہ لمحات بھی ایک فلم کی طرح ذہن کی سکرین پر چلنے لگے جب ایک مرحوم و مغفور شخصیت نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا: سنا ہے کہ اب بھی کرائے کے گھر میں رہتے ہو؟ جس پر میں نے بڑے ادب سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا ''اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘‘۔
جب کورونا کے ہر لمحے ہونے والے حملے نے گردن ایک جانب ڈھلکا دی تو میری پریشانی حد سے بڑھ گئی اور اس وقت نہ چاہتے ہوئے بھی نجانے کون سی طاقت نے ایک وٹس ایپ میسج اور پھر ایک فون مجھ سے کرا دیا اور پھر آدھ گھنٹے میں میری جیب پہلے سے کچھ بھاری ہو گئی اور میں مطمئن ہو گیا۔ جب تمام ٹیسٹ مکمل ہو گئے تو مطالبہ ہوا کہ پانچ لاکھ روپے ابھی جمع کرا دیجئے کیونکہ مریضہ کی حالت بہت بگڑ چکی ہے۔ ایک فرشتہ صفت پاکستانی ڈاکٹر کو کچھ لمحے پہلے فون کیا تھا۔ جواب میں ان کی فون کال موصول ہوئی جن کی ایڈوائس پر اپنی اہلیہ کے ایکسرے سمیت کچھ مزید ٹیسٹ کروائے تھے‘ یہی ایکسرے اور رپورٹس جب انہیں بھیجی گئیں تو انہوں نے ہی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بتا دیا کہ یہCovid-19 ہے اور پھیپھڑے کافی زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔ میرے اس محسن نے جب ہماری پریشانی دیکھی تو فون پر کہا ''اپنے اندر برداشت پیدا کر تے ہوئے آپ کو جو نسخہ بھیج رہا ہوں‘دو دن اسے استعمال کرائیے‘‘ اگر پھر بھی آپ ہسپتال داخل کرانا ہی چاہتے ہیں تو انہوں نے ایک سرکاری ہسپتال کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اس کی ایمرجنسی میں آ جائیے، مریضہ کو داخل کر لیا جائے گا۔ لیکن ہمارے سامنے جو مریض کی حالت تھی‘ اس کو دیکھتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کے انتظامات کا سوچتے ہوئے خوف آنے لگا تھا۔
اس لمحے میں نے اپنے آپ سے کہا: اے بندے! وہ طاقت جس نے تمہیں عزت دی ہے‘ اس کے در سے مایوسی کا کبھی سوچنا بھی مت۔ یاد رکھو اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، مایوسی کو اپنے پاس بھی نہ پھٹکنے دینا اور پھر میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اب دو ہفتے گزر چکے ہیں اور آج میری شریک حیات کی سانسوں کی رفتار پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔ خدا تعالیٰ کے خصوصی فضل کے بعد‘ عاشق پاکستان اور میرے محسن ڈاکٹر کی بتائی گئی ادویات اور برمنگھم میں بیٹھی میری بھانجی کے شوہر اور ہمارے داماد ڈاکٹر عامر کی پل پل دی جانے والی ہدایات نے اس قابل بنا دیا ہے کہ اب وہ ہمیں پہچاننا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کی سانسیں پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہیں، اب ان کا معدہ کچھ غذا بھی ہضم کرنے لگا ہے لیکن کمزوری اس قدر زیادہ ہے کہ بتا نہیں سکتا۔
اپنے اس کالم کے ذریعے میں کچھ باتیں سامنے لانا چاہوں گا کہ خدا کیلئے کورونا کو معمولی نہ سمجھئے‘ یقین جانئے کہ یہ انسانی جسم کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے، آج جبکہ بارہ روز گزر چکے ہیں‘ میری اہلیہ چند قدم چلنا تو دور کی بات‘ اپنے پائوں پر بھی کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ کمزوری اس قدر زیادہ ہے کہ جسم نچڑ کر رہ گیا ہے۔ اس لئے پوری کوشش کیجئے کہ کورونا سے بچائو کیلئے ہر قسم کی احتیاط کریں۔ ہمارے پورے گھرانے کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ سب کے رزلٹ نیگیٹو آئے ہیں۔ سب سے اہم بات، اللہ کی رحمت سے کبھی بھی، کسی لمحے بھی مایوس نہیں ہونا، اس کے خزانے بہت وسیع ہیں۔ وہ اس طرح بندے کی مدد کرتا ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ بس اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور مجھے اپنے دوستوں کے سامنے کسی قسم کی شرمندگی سے بچائے کیونکہ قرض انسان پر ایک بوجھ ہوتا ہے۔ جنہوں نے میری ایک آواز پر اس تکلیف میں میرا ساتھ دیا‘ ان کو خدا تعالیٰ ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved