وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان جیسی نعمت کی قدر نہیں کی۔ بہتر مستقبل یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ طرزِ فکر و عمل تبدیل کی جائے یعنی زندگی کے دھارے کا رخ موڑا جائے۔ موسمِ بہار کی شجر کاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے خطاب میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ملک کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے نئی نسل کا تعاون لازم ہے۔ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ ملک و قوم کا مستقبل نئی نسل کی طرزِ فکر و عمل سے وابستہ ہے۔ جو کچھ آج کی نئی نسل سوچ اور کر رہی ہے اُسی سے نئی راہوں کا تعین ہوگا۔ نئی نسل کی موثر تعلیم و تربیت ہی ہمیں وسیع البنیاد اور طویل المیعاد فلاح کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے اعلیٰ ترین سطح پر سنجیدگی کا اپنایا جانا لازم ہے۔ وزیر اعظم نے شجر کاری مہم کے حوالے سے نئی نسل کا تعاون لازم قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کو ہر معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اس کردار کے ادا کیے جانے سے ہی ملک اپنی سمت تبدیل کرکے شر سے دور اور خیر سے نزدیک تر ہوسکتا ہے۔ کسی بھی قوم کی طرزِ زندگی بدلنا وعدوں، دعووں اور بڑھکوں پر منحصر نہیں۔ یہ تو ایک عمر کی ریاضت کا نام ہے۔ آج ہمیں جو اقوام غیر معمولی بلکہ دل و دماغ کو مستقل حیرت سے دوچار کرنے والی ترقی سے ہم کنار نظر آتی ہیں اُنہوں نے عشروں نہیں بلکہ صدیوں تک دل و دماغ کو آزمائش میں ڈالے رکھا اور اعصاب شکن جاں فشانی کو بروئے لانے پر توجہ دی۔ اِتنا کچھ کیا ہے تو کچھ ملا ہے ع
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
کوئی بھی طرزِ زندگی راتوں رات نہیں پنپتی۔ یہ سب اِتنا آسان نہیں۔ کسی بھی قوم میں چند عادات اجتماعی زندگی کا حصہ بننے میں عشروں یا صدیوں کا وقت لیتی ہیں۔ یہ عادات فکری ساخت میں ایسی رچ بس جاتی ہیں کہ معمولی سی تحریک ملنے پر دور یا تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ آج پاکستانی قوم اچھائیوں اور بُرائیوں سے مرکّب ہے۔ دونوں دھارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کسی کی مدد کرنی ہو تب بھی دل بڑے ہیں اور کسی کا حق مارنا ہو تب بھی کمال کی بے جگری جلوہ افروز ہے۔ ہم ایک دوسرے پر جان چھڑکنے کے لیے بھی بے تاب رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ایک طرف شانِ استغنا ثابت کرنے کے دعوے ہیں اور دوسری طرف دنیا پر مر مِٹنے کی تیاری بھی ہے۔ وقت جیسی نعمت کو یوں ضائع کیا جاتا ہے گویا یہ نعمت ہمیں بے حد و حساب عطا کی گئی ہو۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام نے دنیا کی نظر میں زیادہ سے زیادہ محترم ٹھہرنے کے لیے جو کچھ اپنایا ہے ہم نے وہ سب کچھ پورے اہتمام کے ساتھ یا تو چھوڑا ہے یا پھر اپنانے سے گریز کیا ہے۔ عمران خان نے طرزِ زندگی بدلنے کی بات کی ہے۔ اُن کا اشارا غالباً ماحول دوست طریقِ زندگی اپنانے کی طرف ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ماحول پر مرتب ہونے والے دباؤ کو سمجھیں، اس حوالے سے سنجیدگی اختیار کریں۔ ناگزیر ہے کہ زندگی سے ہر وہ معاملہ خارج کردیا جائے جو خرابی کی آماجگاہ ہو یا خرابی کا دائرہ وسیع کرنے کی راہ ہموار کرتا ہو۔ اگر قومی سطح پر زندگی کا رخ تبدیل کرنا اور خرابیوں کو تج کر اچھائیوں کو اپنانا ایسا ہی آسان ہوتا تو آج دنیا کے نقشے پر ناکام ریاستیں ''جلوے‘‘ نہ بکھیر رہی ہوتیں۔ قومی سطح پر کوئی بھی مثبت تبدیلی یقینی بنانا انتہائی دشوار اور اُس تبدیلی کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنا اُس سے بھی دشوار ہوا کرتا ہے۔ ہر قوم فکر و عمل کے حوالے سے جاں فشانی کے مختلف مدارج سے گزرتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔ جس قوم نے کچھ مثبت سوچا اور خود کو بدلا اُس نے صلہ پایا یعنی ترقی سے ہم کنار ہوکر دوسروں کے لیے مثال بنی۔ اقوامِ عالم میں بلند مقام پانا بچوں کا کھیل نہیں۔ کئی نسلیں مستقل بنیاد پر ایثار کا مظاہرہ کرتی ہیں، اپنا سُکھ چین قربان کرتی ہیں تب کہیں کچھ ایسا ہو پاتا ہے جس سے دل راحت پائے ؎
کتنی ہی بار بہاروں کو کیا ہے قرباں
کب یونہی گلشنِ ہستی پہ نکھار آیا ہے؟
کتنی بے تاب اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیا
تب کہیں جاکے زمانے کو قرار آیا ہے
ہم سب، من حیث القوم، اپنے آپ کو جھوٹے دلاسے دینے کے عادی ہیں۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک آگیا ہے کہ ع
جھوٹ کیا، سچ بھی اب دلاسے ہیں!
زندگی عمومی سطح پر لایعنی باتوں، لاحاصل مباحث اور یکسر بے سُود مشاغل سے اَٹی پڑی ہے۔ اجتماعی زندگی ایسے قطعۂ اراضی کی صورت ہے جس پر نئی عمارت تعمیر کرنی ہے مگر پُرانی عمارت کا ملبہ ہٹانے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی جارہی۔ ملبہ ہٹے گا، زمین صاف ہوگی، بنیاد ڈالی جائے گی تبھی تو نئی عمارت کو معرضِ وجود میں لانا ممکن ہوسکے گا۔ اگر ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے نئی طرزِ زندگی اختیار کرنی ہے تو وہ محض ظاہری نہ ہو، باطنی بھی ہو۔ ماحول دوست طرزِ زندگی اپنانا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اندر کے موسم کی ضرورتوں کو بھی سمجھیں اور باطن کی آلودگی کے سدباب پر بھی متوجہ ہوں۔ سوال صرف گلی، محلے، علاقے یا شہر کو صاف ستھرا رکھنے کا نہیں ہے۔ اندر اور باہر سے پورے وجود کی تطہیر لازم ہے۔ عادات و اطوار کا بدلنا لازم ٹھہرا ہے۔ طرزِ زندگی بدلنے کی فرمائش اُس قوم سے کی جارہی ہے جو پیہم انتباہ کے باوجود گٹکا اور سگریٹ جیسی علّتیں بھی نہیں چھوڑ پارہی! ماہرین مشورے دیتے دیتے، ہاتھ جوڑ جوڑ کر تھک گئے کہ کھانے پینے کے انداز و آداب بدلیے تاکہ غیر صحت بخش طرزِ زندگی سے چھٹکارا پانا ممکن ہو مگر صاحب ؎
کون سُنتا ہے فغانِ درویش/ اور وہ بھی بہ زبانِ درویش
یہی حال پہننے‘ اوڑھنے کا ہے۔ جو کچھ اندرونی جسم کی ضروریات یعنی کھانے پینے کے تکلّفات سے بچ رہتا ہے وہ بیرونی جسم کو ڈھانپنے کے نام پر کی جانے والی چونچلے بازی کی نذر ہو جاتا ہے۔ بچوں کی بجا و بیجا‘ ہر طرح کی فرمائشیں پوری کرنے پر دھیان دیا جارہا ہے، یہ نہیں سوچا جارہا کہ اُنہیں کیا بننا چاہیے، اُن کی طرف سے دنیا کو کیا ملنا چاہیے۔ یہ قوم بچوں کی حقیقی تعلیم و تربیت پر برائے نام توجہ دیتی ہے اور توقع یہ رکھتی ہے کہ سمارٹ فون کی ایپس کے سمندر میں غرق ہو جانے والی نئی نسل کسی دن یوں ابھرے کہ دنیا دیکھے اور مثال دے! یہ بھی خوب ہی رہی۔ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے لیے دنیا جو کچھ کرتی ہے وہ تو کیا نہیں جارہا اور محض خوش فہمیوں کے طلسمات کھڑے کرکے اُس میں تمام ناممکنات کو ممکنات بنایا جارہا ہے۔
وقت کا ضیاع روکنے کی طرف متوجہ ہونا اس وقت کم و بیش ہر انسان کے لیے انتہائی بنیادی فریضے کا درجہ رکھتا ہے مگر یاروں نے اِس کوچے میں بھی قدم نہ رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ وقت کے ضیاع کو اب، بلا خوفِ تردید، قومی خصلت کا درجہ دیا جاسکتا ہے! اگر نئی نسل کو نئی طرزِ زندگی کی طرف لے جانا ہے تو زندگی کا نیا ورژن محدود نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے۔ نئی نسل کو مختلف حوالوں سے شر کو تج کر خیر کو اپنانے کی تحریک دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام خاصے بڑے پیمانے پر کیا جانا ہے۔ حکومت کا کردار کلیدی اور جامع ہونا چاہیے۔ والدین، خاندان کے بزرگوں اور اہلِ دانش کو اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جانا ہے تاکہ نئی نسل اپنے آپ کو بدلنے کے بارے میں سوچے اور سنجیدگی کی چادر اوڑھے۔ یہ سب کچھ وعدوں اور دعووں سے ہوگا نہ بڑھکوں سے۔ اول تا آخر سنجیدگی شرط ہے۔
پہلے مرحلے میں عہدِ حاضر کو‘ اُس کے تقاضوں کو سمجھنا ہے۔ پھر باقی دنیا کی تفہیم بھی لازم ہے۔ جو غلطیاں دوسروں نے کی ہیں اُن کے ارتکاب سے بچنا ہے اور جو خوبیاں دوسروں نے خود میں پیدا کی ہیں وہی ہمیں بھی اپنے آپ میں پیدا کرنا ہیں۔ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی ہے‘ اس نعرے کے حوالے سے کم از کم اسے سنجیدگی تو دکھانی ہی چاہیے۔ حقیقی تبدیلی کا عمل چھوٹے پیمانے ہی پر سہی‘ شروع تو کیا جائے۔