پاکستان میں اور کچھ بکے یا نہ بکے‘ سازشی تھیوری ضروری بکتی ہے۔ ملک میں کوئی اچھا یا برا کام ہو جائے‘ اس میں سے ایک سازش ضرور کشید کر لی جاتی ہے۔ پھر اس پر تبصرے ہوتے ہیں‘ سچ اور جھوٹ کو ملا کر ایک ایسی شکل سامنے آتی ہے جو آدھا تیتر ہوتا ہے اور آدھا بٹیر۔ یعنی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کس طرف جایا جائے۔ جب پرانی سازشی تھیوری میں رس ختم ہو جاتا ہے تو اسے نئے انداز سے بنا کر دوبارہ دل بہلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی اکثریت آبادی یا تو اَن پڑھ ہے یا صرف اپنا نام لکھنا پڑھنا جانتی ہے، اور جو پڑھے لکھے بھی ہیں‘ ان میں مطالعے یا کتاب پڑھنے کی عادت شاید ایک فیصد لوگوں کو بھی نہیں۔ اس لیے فارغ اوقات یا گپ شپ کے وقت کوئی علمی، ادبی، اہل عقل و دانش والی گفتگو نہیں ہو پاتی۔ اس ماحول میں دل بہلانے کے لیے سازشی تھیوری ہی بہترین موضوع ہوتا ہے۔
آپ محمد علی سدپارہ اور ان کی ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے حادثے کی مثال ہی لے لیجیے۔ ''پانچ فروری کو ان کی گمشدگی کے بعد سے روز ایک نئی کہانی جنم لے رہی ہے۔ (اب محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی موت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے، موت کا اعلان علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے گلگت بلتستان حکام کے ساتھ جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کیا) آج کی کہانی یا تھیوری یہ ہے کہ سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کی موت ایک سازش کے تحت ہوئی ہے۔ ان سے قبل کوہ پیمائوں کی ٹیم نے جو رسیاں ڈیتھ زون اور چوٹی کے درمیان لگانا تھیں‘ وہ انہوں نے نہیں لگائیں‘‘۔ یہ تبصرے ڈرائنگ رومز سے نکل کر اب ٹی وی چینلز پر آ گئے ہیں اور سوشل میڈیا کی تو آپ بات ہی نہ کریں‘ وہاں تو ہر ایک سیکنڈ بعد نئی سازشی تھیوری جنم لیتی ہے۔ ملک کے ایک مایہ ناز سابق کوہ پیما نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ اس حادثے میں نیپالی ملوث ہیں۔ جب ثبوت مانگے گئے تو کسی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اگر نیپالیوں نے ایسا کیا ہے تو کیا حکومت یا کسی نجی ادارے نے کے ٹوکے ڈیتھ زون میں جا کر معائنہ کیا یا کوئی وڈیو بنائی کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں۔ نہ ابھی تک وہاں کوئی جا سکا ہے اور نہ ہی کسی نے دیکھا ہے لیکن سننے والوں کی اکثریت اس بات پر ایمان لے آئی ہے کہ ان سے پہلے چوٹی سر کرنے والے کوہ پیما ہی اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ محمد علی سدپارہ پاکستان کا فخر تھے اور کوہ پیمائی کی تاریخ میں وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ سب سے پہلے سردیوں میں نانگا پربت کو سر کرنا تھا، وہ یہ کارنامہ سر انجام دینے والے نہ صرف پہلے پاکستانی تھے بلکہ دنیا کے پہلے شخص تھے۔ انہیں پہاڑوں سے عشق تھا۔ ساجد سدپارہ کے بقول‘ انہیں اب کے ٹو نے ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے، خدا ان کی مغفرت کرے۔
ملکی معیشت کے حوالے سے بات کریں تو فی الحال ایک خبر سامنے آئی ہے‘ آپ اسے بری خبر بھی کہہ سکتے ہیں اور اچھی خبر بھی کیونکہ یہ حکومت کے لیے تو اچھی خبر ہے مگر عوام کے لیے بری خبر ہے۔ پاکستان نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض کا جو معاہدہ کیا تھا‘ اس میں سے ایک اعشاریہ پینتالیس بلین ڈالرز موصول ہو چکے ہیں لیکن جنوری 2020ء سے یہ پروگرام ملتوی ہو چکا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے شرط رکھی تھی کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں، ٹیکس کی شرح اور ریٹس بڑھائے جائیں اور نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو فروخت کر دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس وقت مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا آئی ایم ایف نے قرض کی قسطیں روک لیں۔ چونکہ اس وقت تک پاکستان دوست ممالک سے آئی ایم ایف ریلیف پیکیج سے دو گنا زیادہ کی سپورٹ حاصل کر چکا تھا اس لیے سرنڈر نہیں کیا۔ تقریباً ایک سال تک مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا؛ تاہم اب معاملات طے پا گئے ہیں۔ حکومت فروری سے مئی کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرے گی جس کا بوجھ ظاہر ہے کہ عوام کے کندھوں پر ہی آئے گا لہٰذا اب تیار رہیں‘ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے۔ حکومت اس لیے خوشیاں منا رہی ہے کہ تقریباً دو اعشاریہ دو بلین ڈالر ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے جس میں سے پانچ سو ملین ڈالرز تو فوری مل جائیں گے۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف کے ریویوز نمبر دو‘ تین‘ چار اور پانچ التوا کا شکار ہیں۔ دونوں اطراف سے اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ یہ ریویوز بھی جلد کر لیے جائیں گے۔ ابھی تک جو معاملات طے پائے ہیں‘ وہ سٹاف لیول ایگریمنٹ کے تحت ہوئے ہیں۔ ایک ماہ میں انہیں حتمی شکل دی جائے گی۔
پاکستان پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ہر پاکستانی ایک لاکھ 75 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ موٹرویز، ریڈیو سٹیشنز، کراچی ایئر پورٹ اور پبلک پارکس گروی رکھوائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کا قرض مزید بوجھ کا باعث بنے گا۔ اگر معیشت کی مجموعی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے تو پاکستانی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی قرض واپسی کو ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا ہے، چین بھی اپنے قرض واپس نہیں مانگ رہا بلکہ مزید دے رہا ہے، جی سیون ممالک نے بھی تقریباً ایک بلین ڈالر قرضوں میں وقتی ریلیف دیا ہوا ہے، برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے لاکھوں ڈالرز پاکستانی بینکوں میں منتقل ہو رہے ہیں، ٹیکس ٹارگٹ بھی کافی حد تک حاصل کیا جا چکا ہے، کنسٹرکشن سیکٹر کے باعث معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض کی قسط حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ ملکی سطح پر قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے‘ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور سمجھے جانے والے امریکا کی آدھی سے زیادہ اکانومی قرضوں پر چلتی ہے لیکن یہ کسی مجبوری میں حاصل کیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی خاص مقصد کے لیے قرض لیا جائے تب بات سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن اگر صرف اس وجہ سے کہ قرض آسانی سے مل رہا ہے‘ لے لیا جائے‘ تو یہ ایک نقصان دہ اپروچ ہے۔ قرض لینے کے بعد اس کا پیداواری استعمال کیا ہو گا، اس سے آمدن کیسے حاصل کی جا سکے گی، کیا ہم حاصل شدہ آمدن سے آئی ایم ایف کے قرض کی قسطیں ادا کرنے سے زیادہ منافع کما پائیں گے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بالآخر بوجھ تو عوام نے ہی برداشت کرنا ہے۔ حکمرانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب نے ٹویٹ کیا ہے کہ آئی ایم ایف قرض کی سہولت کا بحال ہونا اچھی خبر ہے، میں ساتھیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے سپورٹ کیا۔ شیخ صاحب کے لیے تو یقینا یہ ایک اچھی خبر ہے کیونکہ اس خبر کے ساتھ ہی انہیں سینیٹر بنانے کی خوشخبری دے دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے پسندیدہ لوگوں کا پاکستان پر حکمرانی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اب تو عادت سی ہو چلی ہے۔ اگر زیادہ نہ سوچیں تو یہ بات اب بری بھی نہیں لگتی۔ شاید پاکستانی قوم کی قسمت میں یہی لکھا ہے۔