تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     20-02-2021

شہاب الدین غوری اور پوٹھوہار کی ایک رات… (2)

شہاب الدین غوری کا لشکر تھر کے لق و دق صحرا کو عبور کر کے گجرات پہنچ گیا۔ گجرات اس زمانے میں ہندوستان کی ایک خوشحال ریاست تھی۔ کبھی غزنی کے محمود غزنوی نے تسخیر کیا تھا اور اب شہاب الدین غوری اپنے خواب کی تعبیر کے لیے یہاں پہنچا تھا۔ ان دنوں گجرات کا حکمران ایک کم سن ہندو راجہ مُل راج دوم تھا لیکن ریاست پر اصل حکمرانی اس کی ماں نیکی دیوی کی تھی جو اپنی دلیری اور شجاعت کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ شہاب الدین غوری اور نیکی دیوی کی فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا جس کے نتیجے میں شہاب الدین کی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ اس کے لیے ایک غیر متوقع شکست تھی‘ لیکن شہاب الدین غوری نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا۔ تھک کر بیٹھ جانے کے بجائے اس نے اپنا رخ پنجاب کے اہم شہر لاہور کی طرف کر دیا۔ ان دنوں لاہور پر غزنوی کے گورنر خسرو ملک کی حکومت تھی۔ یہ 1187 کا سال تھا جب شہاب الدین غوری نے پنجاب کے اہم ترین شہر لاہور پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن شہاب الدین غوری کے ایک خواب کی سرحد جہاں ختم ہوتی تھی وہیں سے ایک نئے خواب کی منزل شروع ہو جاتی تھی۔ لاہور کی فتح کے بعد خسرو ملک کو دوبارہ وہاں گورنر بنا کر شہاب الدین غوری نے سندھ کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دیبل کے شہر کو فتح کر لیا ۔ یوں ایک مختصر عرصے میں لاہور ‘ پشاور اور سیالکوٹ کے علاقے شہاب الدین غوری کے زیر نگیں آچکے تھے۔ 1190 تک شہاب الدین غوری کی سلطنت کی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں لیکن اس کے خوابوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کی اگلی منزل بٹھنڈہ کا قلعہ تھا جس پر اس نے آسانی سے قبضہ کر لیا۔ ان دنوں دہلی پر پرتھوی چوہان خاندان کی حکومت تھی۔ بٹھنڈہ پر شہاب الدین کا قبضہ ان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ پرتھوی راج نے شہاب الدین غوری کے لشکر کو روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ 1191 کا سال تھا جب دونوں فوجیں ترائن کے مقام پر ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوئیں۔ تیر اندازوں نے حملے کا آغاز کیا اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔ اس دوران پرتھوی کے لشکر نے شہاب الدین غوری کی فوج کو تین اطراف سے گھیر لیا۔ میدانِ جنگ سے اٹھتے مٹی کے غبار میں سب کچھ چھُپ گیا تھا۔ شہاب الدین غوری ہمیشہ کی طرح گھوڑے پر بیٹھا اپنی فوج کی قیادت کر رہا تھا اور اپنی تلوار زنی کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اچانک ایک تلوار کا کاری وار اس پر پڑا اور وہ شدید زخمی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ سے گِر گیا۔ میدانِ جنگ کے شور میں کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ کسی کو پتہ نہ تھا کہ میدانِ جنگ کی بکھری ہوئی لاشوں کے درمیان شہاب الدین غوری شدید زخمی حالت میں پڑا ہے۔ پرتھوی کے لشکر نے شہاب الدین کی فوج کو پسپا کر دیا تھا۔ شہاب الدین کی فوج اسے اپنے درمیان نہ پا کر یقین کر چکی تھی کہ ان کا سلطان جنگ میں کام آ گیا ہے۔ تب اچانک کسی کی نظر زخمی شہاب الدین پر پڑی اور پھر وہ لوگ اسے اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔ یہاں سے اس کے وفادار بحفاظت اسے واپس غزنی لے آئے۔ شہاب الدین کو صحت مند ہونے میں کچھ دن لگے لیکن ترائن کی یہ شکست اس کے لیے ایک بڑا دھچکا تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ۔اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ جب تک اس شکست کا بدلہ نہیں لے گا‘ چین سے بستر پر نہیں سوئے گا۔ اس نے جنگ کی بھر پور تیاری شروع کر دی جس میں سپاہیوں کی تربیت‘ اسلحہ و وسائل کی فراہمی اور جنگ کی منصوبہ سازی شامل تھی۔ ایک بات طے تھی کہ وہ عددی اعتبار سے پرتھوی کے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ کامیابی کی واحد صورت بہتر حکمتِ عملی اور بھرپور حملہ تھا۔
یہ 1192ء کا سال تھا جب شہاب الدین غوری اپنی ایک لاکھ فوج کے ہمراہ ترائن کے میدان میں پہنچا۔ پرتھوی اس سے بے خبر نہ تھا۔ اس نے تمام راجپوت قبائل سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں تقریباً تین لاکھ کا لشکر تیار کر لیا۔ ترائن کے مقام پر دونوں لشکر صف آراء ہوئے۔ پرتھوی کی افواج کو نہ صرف عددی برتری حاصل تھی بلکہ نفسیاتی طور پر وہ زیادہ پُر اعتماد تھے کہ اسی میدان میں وہ پچھلے سال غوری کی فوج کو پسپا کر چکے تھے۔ ادھر دن طلوع ہونے سے پہلے ہی شہاب الدین غوری نے بھرپور حملہ کا آغاز کر دیا۔ پرتھوی کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پرتھوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب شہاب الدین غوری کا ہندوستان بھر پر قبضہ ہو گیا تھا۔ غور سے اُٹھنے والی لہر نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اب یوں لگتا تھا کہ پُر شور زندگی کا سفینہ کنارے پر آلگا ہے‘ لیکن یہ سکون عارضی تھا۔ شاید شہاب الدین غوری کی پارہ صفت شخصیت کی قسمت میں آرام نہیں تھا۔ 1204ء میں شہاب الدین غوری کو محمد خوارزم کے حملوں کا سامناکرنا پڑا اور پھر یہ 1206ء کا سال تھا جب شہاب الدین غوری کو اطلاع ملی کہ پنجاب میں کھوکھروں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔ شہاب الدین غوری نے کسی نائب کو بھیجنے کے بجائے خود اس مہم کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ پنجاب پہنچ کر اس نے کھوکھروں کی بغاوت کا خاتمہ کیا اور پھر افغانستان واپس جاتے ہوئے پوٹھوہار کے علاقے میں سوہاوہ سے کچھ فاصلے پر کوٹ دھمیک میں پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پوٹھوہار کی ایک گہری تاریک رات تھی۔ ایسے میں جانوروں کی کھالیں پہنے سلطان کے دشمن اُس کے خیمے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ خیمے کے پاس پہنچ کر انھوں نے بے خبر خدام کو قابو کیا اور خیمے میں گھُس گئے۔ خیمے میں داخل ہو کر انھوں نے خنجر کے متعدد وار کر کے سلطان کو موت کی نیند سُلا دیا۔ شور سے سپاہی جاگ اُٹھے اور حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کھوکھر قبیلے کے افراد تھے جنہوں نے شہاب الدین غوری سے اپنے قبیلے کی شکست کا انتقام لیا تھا۔ سلطان کی اچانک موت کے بعد اس کے وفاداروں نے فیصلہ کیا کہ سلطان کے جسدِ خاکی کو اس کے آبائی شہر غور لے جا کر دفن کیا جائے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس سارے سفر میں خطرہ تھا کہ لاش محفوظ حالت میں غور تک نہ پہنچ سکے گی۔ ایک روایت کے مطابق شہاب الدین غوری کے جسم سے آنتیں نکال کر کوٹ دھمیک میں دفن کر دی گئیں تا کہ سفر میں تعفن کا امکان نہ رہے اور لاش کو عزت و احترام کے ساتھ غور میں دفن کیا گیا۔ کوٹ دھمیک میں شہاب الدین کے مقبرے کے قریب ہی ان تین وفاداروں کی قبریں بھی ہیں جو اپنے سلطان شہاب الدین کو بچاتے ہوئے مارے گئے تھے۔ یہ 1206ء کا قصہ ہے۔ اس پر تقریباً آٹھ سو سال کا عرصہ گزر گیا۔ بہت بعد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس پر ایک خوبصورت مقبرہ بنوایا۔ میں آج ہی کوٹ دھمیک پہنچا ہوں مقبرے کے باہر شہاب الدین غوری کی زندگی کا تعارف اردو اور انگریزی میں لکھا ہے۔ قریب ہی جنرل (ر) نواب زادہ شیر علی خان کی قبر ہے جنہیں شہاب الدین غوری سے قلبی لگاؤ تھا۔ چاروں طرف خاموشی کا راج ہے۔
میں سر اٹھا کر دور دور تک پھیلے سرسوں کے زرد کھیتوں‘ اونچے نیچے ٹیلوںاور سر بلند درختوں کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں تاریخ کے واقعات کے کیسے کیسے نیلم و یاقوت یہاں کی مٹی میں مٹی ہو رہے ہیں۔ کیسی کیسی دل ربا کہانیاں ہیں جو ان سنی رہ گئی ہیں۔ انہی لعل و جواہر کی تلاش مجھے ان قدیم بستیوں میں لے جاتی ہے جہاں کے در و دیوار میں تاریخ کی سربستہ داستانیں سانس لے رہی ہیں۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved