تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-02-2021

اِندور دکھائے راستہ

اِندور کے کچھ نامور تاجروں نے ایک کام کیا ہے ‘ جس پر ملک کے تمام تاجروں کو عمل کرنا چاہئے۔ اِندور کے نمکین اشیااور مٹھائی کے دکانداروں نے حلف لیا ہے کہ وہ کسی بھی نمکین شے اور مٹھائی میں ملاوٹ نہیں کریں گے۔ وہ ان میں ایساکوئی گھی ‘ تیل اور مسالہ استعمال نہیں کریں گے جو صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔یہ حلف زبانی نہیں ہے ۔400 تاجروں نے یہ عہد 50 روپے کے نوٹری سٹامپ پیپر پر لیاہے۔ ان تاجروں کی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ جو تاجر ملاوٹ کرتا ہوا پایا گیا اس کی نہ صرف رکنیت ختم ہوجائے گی بلکہ اس کے خلاف فوری قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔ ان تنظیموں نے تاجروں پر نگاہ رکھنے کیلئے ایک تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی ہے ‘ لیکن مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ تھانے میں ایک کاروباری شخص کے خلاف رپورٹ لکھنے سے قبل اس کے مال کی تفتیشی رپورٹ پہلے آنے دے۔ یادرہے کہ ایک دو تاجروں کو عجلت میں پکڑکر جیل میں ڈال دیا گیاتھا۔اندور میں ناشتے اور مٹھائی کا کاروبار کم از کم 800 کروڑ روپے سالانہ کاہے۔ اِندور کی یہ دونوں چیزیں نہ صرف بھارت بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ہیں۔ ان میں ملاوٹ کے کیسز موجود ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ایک مہینے میں مشکل سے 8‘10 لیکن ان تنظیموں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جیسے اندور ملک میں صفائی ستھرائی کا مترادف ہو گیا ہے ‘ اسی طرح اسے کھانے کی پاکیزگی کا مترادف ہونا چاہئے۔ اندور میں تاجر روزانہ تقریباً 50 ٹن تیل خرچ کرتے ہیں‘ ان میں سے 40فیصد تاجر صرف ایک بار اپنا تیل استعمال کرتے ہیں۔ وہ استعمال شدہ تیل کو بائیو ڈیزل بنانے کیلئے فروخت کردیتے ہیں۔اگر پورے ملک کے تاجر اِندوریوں سے سبق سیکھیں تو پھر ملک کا نقشہ بدل جائے۔ اندور کے تاجروں نے ابھی صرف اناج کی شدھتا کا راستہ کھولا ہے ‘ اس طریقہ سے ملک سے ملاوٹ ‘ بدعنوانی اور تمام جرائم کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ اگر قانون سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہے تو وہ خود ارادیت ہے۔ لاکھوں لوگ شراب نہیں پیتے ‘ کوئی دوسری برائی نہیں کرتے ‘ کیا وہ قانون کے خوف سے ایسا نہیں کرتے ہیں؟ نہیں۔ وہ یہ اپنی اقدار ‘ اپنے عزم ‘ اپنی خاندانی روایات کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اگر ملک کے قائدین اور بیوروکریٹس بھی صفائی کا ایسا حلف اٹھائیں تو جلد ہی اس ملک کی غربت دور ہوجائے گی ‘ بدعنوانی کی جڑیں ختم ہوجائیں گی۔
لیڈروں کو چوہان کاسبق
اِندور کو پہلے ہی لگاتار کئی بار ملک کا صاف ستھرا شہر قرار دیا جا چکا ہے۔ ملاوٹ کے خلاف یہاں کے تاجروں کی حلف برداری نے بھی پورے ملک کو ایک نئی سمت دکھائی ہے اور اب سیاست کی نظر سے بھی یہاں ایک اور قابلِ ذکر کام ہوا ہے۔ یہ سبق جو گاندھی جی ‘ نہرو جی ‘ لوہیا جی ‘ شریپد ڈانگے جی ‘ دین دیال اپادھیائے جی وغیرہ اپنے سیاسی کارکنوں کو دیتے تھے ‘ وہی سبق ہے جو مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نے اپنے بی جے پی کارکنوں کو دیا ہے۔ وہ آج کل اپنے کارکن کیمپ کی خاطر اجین اور اندور میں قیام کر رہے ہیں۔چوہان نے نہ صرف اپنے وزرا اور اراکین اسمبلی کے ساتھ اس مسئلے پر کھلے عام بحث کی کہ وہ الیکشن کیوں ہار گئے بلکہ انہوں نے کامیابی ‘ مقبولیت اور عوامی خدمت کے بارے میں اپنے کارکنوں کو جو کہا ہے وہ نہ صرف بی جے پی ‘ بلکہ بھارت کی تمام جماعتوں کیلئے مثالی ہے۔ انہوں نے بی جے پی کارکنوں کو عوام سے براہ راست رابطے بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے وزرا اور ارکان ِاسمبلی سے کہا ہے کہ وہ اپنے ذاتی معاونین (پی اے) وغیرہ سے محتاط رہیں کیونکہ ان کی اَناکے غبارے ان کے آقاؤں سے زیادہ پھولے ہوتے ہیں۔ کیتلی چائے سے زیادہ گرم ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاونین لوگوں کو عاجزی اور ایمانداری کا درس دیں۔بہت سے ملکی اور غیر ملکی وزرائے اعظم کو اپنے معاونین کے بدعنوان اور احمقانہ طرز عمل کی وجہ سے بہت برے دن دیکھنا پڑے ہیں۔ چوہان نے بچولیوں اور دلالوں سے بھی احتیاط برتنے کیلئے کہا ہے۔ آج کل یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن گیا ہے جسے ''لائزان‘‘ کہتے ہیں۔ جیوتیرادتیہ سندھیا نے وزراسے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کارکنوں سے براہ راست بات چیت کرنے کیلئے ہر ہفتے چند گھنٹے مختص کریں۔ میں کہتا ہوں کہ وہ عام لوگوں سے براہ راست ان کے دکھ اور درد کو سننے میں کیوں وقت نہیں لگاتے ہیں؟ اگر وزیر اعظم نریندر مودی بھی یہی کام کریں ‘ بھلے ہی وہ یہ ایک ہفتے میں ایک دن ہی کریں ‘اس سے ملک کے عوام کو بڑی راحت محسوس ہوگی۔ اگر حکومتیں اپنے عوامی کاموں کے بارے میں عوام کے رد عمل کوبراہ راست سنیں تو کیا وزرائے اعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور ارکانِ اسمبلی کے سینے خوشی سے نہیں پھولیں گے؟ کیا ان میں خصوصی جوش وجذبہ نہیں بیدار ہوگا؟
قانون کے گلے میں انگریزی کاپھندا
دنیا کے بہت سے ممالک میں پولیٹیکل سائنس پڑھنے اور پڑھانے کے دوران ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ جمہوریت کے تین ستون ہیں مقننہ ‘ ایگزیکٹو اور عدلیہ ‘ یعنی پارلیمنٹ ‘ حکومت اور عدالت۔ میں نے اس میں چوتھا ستون بھی شامل کیا ہے یعنی نیوز پیپر ‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ۔ ان تمام ستونوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ بہتری یا اصلاح ہوتی رہتی ہے ‘ لیکن عدلیہ ہماری جمہوریت کا ایک ایساستون ہے جو ابتدا ہی سے کھوکھلا ہے۔ انگریزوں نے ان عدالتوں کو بھارتیوں کو انصاف دلانے کیلئے کم اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کیلئے زیادہ تعمیر کیاتھا۔ متعدد لاء کمیشنوں اور قانونی ماہرین نے وقتاً فوقتاً بہتری کی بہت سی تجاویز پیش کی ہیں۔ وہ اچھی ہیں۔ میں انہیں رد نہیں کررہا ہوں‘ لیکن بھارت کے عدالتی نظام کی جڑوں میں جومسئلہ 200 سالوں سے پڑا ہوا ہے اسے حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ قانون نظامِ عدل کی اساس ہے۔ بھارت کا قانون انگریزی میں ‘ انگریزوں کا ‘ انگریزوں نے برطانوی راج کیلئے بنایا تھا۔ یہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ ہماری پارلیمنٹ اور مقننہ اس میں تھوڑا بہت اثر کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر ‘ عدالتوں میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہ مدعی اور مدعاعلیہ کے سر سے گزرجاتے ہیں ‘ کیونکہ وہ انگریزی میں ہوتے ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ لاکھوں معاملات 50‘50 سالوں تک عدالت کے دالان میں گھومتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھارتی عدالتوں میں چار ملین سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ کیا ہمیں برطانوی مفکر جان سٹورٹ مل کا مشہور بیان یاد آیا کہ دیر سے انصاف کرنا بھی ناانصافی ہے۔ اس ناانصافی کو ختم کرنے کا پہلا قدم ہندی میں قانون کی تعلیم دینا ہے۔ انگریزی میڈیم پر پابندی لگانا ہے۔ دوسرا ‘ پارلیمنٹ اور مقننہ اپنے قوانین کو اپنی زبان میں بنائیں۔ تیسرا ‘ عدالتی مباحثے اور فیصلے اپنی زبان میں ہونے چاہئیں۔ چوتھا ‘ اپنی زبان میں قانون کے مطالعے سے لاکھوں وکلااور ہزاروں ججوں کی قلت جلد ہی دورہوجائے گی۔ پانچویں ‘ عام آدمی کے ساتھ دھوکہ دہی بھی کم ہوگی۔ اپنی زبانوں میں عدالت کاکام ہوتے ہوئے میں نے یورپ ‘ مغربی ایشیا‘ چین اور جاپان جیسے ممالک میں دیکھا ہے ‘ میں نے پڑوسی ملک بھوٹان اورنیپال کے علاوہ افغانستان میں بھی یہی دیکھا ہے۔ یہ ممالک کبھی بھارت کی طرح انگریز کے غلام نہیں تھے۔ ہماری ذہنی غلامی اب بھی جاری ہے۔ انگریزی کے پھندے کو ہماری عدالتوں کے گلے سے کب نکالا جائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved