''جتنے بھی بڑے ٹیکنیکل پہاڑ ہیں اُن پر کوہ پیمائی کے ساز وسامان کے بغیر چڑھائی ناممکن ہوتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے سیفٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے جس میں کوہ پیما کیلئے سب سے بنیادی سیفٹی یا یوں کہہ لیجیے کہ اُس کی لائف لائن رسّی لگا کر بنائی گئی ایک فکسڈ لائن ہے۔ پہاڑ کی steepness کو مدنظر رکھ کر ایک کیمپ سائٹ سے دوسری کیمپ سائٹ تک ice-screwing اور دیگر کوہ پیمائی آلات کے ذریعے ایک فکسڈ لائن لگائی جاتی ہے جس پر سیفٹی کے ساتھ کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ فکسڈ لائن ٹاپ لیول کے کوہ پیما لگاتے ہیں جنہیں Lead Climber کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اِس کام کے سپیشل کورسز کیے ہوتے ہیں۔ اگر بات کے ٹو جیسے پہاڑ کی مہم جوئی کی ہو تو اِس کیلئے مہم جوئی کرنے والے تقریباً تمام کوہ پیما اِتنے تربیت یافتہ لازمی ہوتے ہیں کہ وہ ضرورت پڑنے پر فکسڈ لائن خود لگا سکیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر کوئی نان ٹیکنیکل اور غیر تربیت یافتہ شخص بھی محض فٹنس کے بل بوتے پر کلائمبنگ کر سکتا ہے لیکن کے ٹو پر ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ صرف ٹیکنیکل کوہ پیما ہی یہاں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اِس سال کے ٹو پر آئی ہوئی ٹیموں میں سب سے پہلے جان سنوری اور علی سدپارہ ٹیم نے ABC یعنی 5300 میٹر سے کیمپ 3 یعنی 7300 میٹر تک 5 دسمبر سے 13 جنوری کے دوران رسّی لگائی اور اسی دوران اپنی Acclimatization بھی مکمل کی۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر جان سنوری نے 14جنوری کی weather window کو استعمال نہیں کیا اور مہم شروع نہیں کی جبکہ نیپالی ٹیم نے اِس قیمتی موقع کو استعمال کیا اور 16 جنوری کو سمٹ کر ڈالی۔ فکسڈ لائن کی تنصیب کا جائزہ لیں تو دستیاب معلومات کے مطابق ABC سے کیمپ 3 تک علی سدپارہ کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کو باقی تمام نے استعمال کیا جبکہ وہاں سے آگے یعنی 7300میٹر سے 8611 میٹر یعنی کے ٹو کی چوٹی تک جتنی بھی فکسڈ لائن تھی‘ اُسے نیپالی شرپائوں نے اپنے ذمے لیا تھا۔ تمام 10 شرپائوں نے اپنے اپنے حصے تقسیم کر لیے تھے اور رسّی انہیں لگانا تھی۔ اِس ضمن میں یقینا تمام سٹیک ہولڈرز کی باہمی رضامندی شامل ہو گی۔ مجھے قوی یقین ہے کہ نیپالی شرپائوں نے جان سنوری ٹیم کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن یہ کہہ کر استعمال کی ہوگی کہ کیمپ 3 سے آگے جو فکسڈ لائن ہم لگائیں گے وہ آپ بھی استعمال کر لینا۔ لہٰذا فکسڈ لائن کے معاملے میں یہ باہمی تعاون زبانی طور پر طے کیا گیا ہو گا۔ تبھی تو جان سنوری نے اپنی مہم شروع کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ ڈیتھ زون کیلئے مجھ سے Nims Dai نے 700 میٹر رسی لی تھی اور ہم وہی فکسڈ لائن استعمال کریں گے۔ اب چونکہ جان سنوری ٹیم ڈیتھ زون میں لاپتا ہوئی‘ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ وہ نیپالیوں کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کے رحم و کرم پر ہی تھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ کیمپ 3 سے ''بوٹل نیک‘‘ تک لازمی فکسڈ لائن لگی ہوئی تھی کیونکہ اگر نہ لگی ہوتی تو ساجد سدپارہ لازمی بتا دیتے کہ رسی نہیں لگی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کیمپ 3 سے 8200 میٹر تک‘ جہاں پر وہ باقی تین کوہ پیمائوں کو چھوڑ کے واپس آئے تھے‘ فکسڈ لائن موجود تھی۔ یہاں دو اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیابوٹل نیک سیکشن سے آگے traverse سیکشن پر فکسڈ لائن تھی یا نہیں؟ اور دوسرا سوال یہ کہ کیا فکسڈ لائن کو واپسی پر اتار تو نہیں لیا گیا تھا؟ اِن دونوں سوالات کے جوابات یا نیپالی ٹیم کے پاس ہیں یا پھر پہلے لاپتا اور اب موت کی تصدیق پانے والے تین کوہ پیمائوں کے پاس۔ ساجد سدپارہ کے پاس اس کا جواب ہرگز نہیں کیونکہ وہ 8250 میٹر سے آگے نہیں گئے اور Traverse وہاں سے بھی اُوپر 8410 میٹر کے آس پاس ہے۔ جہاں سے ساجد سدپارہ لوٹے وہاں سے Traverse کی فکسڈ لائن نظر نہیں آتی کہ آیا لگی ہوئی ہے یا نہیں۔ یہ جاننے کیلئے وہیں جانا پڑتا ہے۔
آئیے! اب اسی فکسڈ لائن کے معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں کہ بوٹل نیک سے آگے Traverse سیکشن پر فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں گئی تھی اور نیپالی ٹیم نے وہاں سے چوٹی تک free climb یعنی فکسڈ لائن کے بغیر چڑھائی کی، تو کیا یہ ممکن ہے؟ اِس کا جواب ہے کہ جی ہاں! یہ ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض اوقات بوٹل نیک سے نکلتے ہی Traverse پر تازہ برف یا ''پائوڈر سنو‘‘ ہوتی ہے جس پر فری کلائمب آسان ہوتی ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما وہاں سے بغیر فکسڈ لائن کے نکل جاتے ہیں لیکن اکثر اِس جگہ پر blue ice یعنی پکی برف ہوتی ہے جس پر پاؤں مشکل سے ٹکتے ہیں لہٰذا پھسلنے سے بچنے کیلئے فکسڈ لائن ہی لگائی جاتی ہے۔ اِس اِمکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ 16جنوری کو جب نیپالی ٹیم نے سمٹ کی تو اُنہیں وہاں پائوڈر سنو ملی؛ چنانچہ اُنہوں نے فکسڈ لائن نہیں لگائی۔ ویسے بھی وہ اتنے سٹرانگ کلائمبرز ہیں کہ وہاں سے فری کلائمب کر کے سمٹ کر سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں نیپالیوں کی سمٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے موسمِ سرما کی ہمالین کوہ پیمائی کے ماہر سمجھے جانے والے عالمی شہرت یافتہ روسی کوہ پیما Denis Urubko نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نیپالی اِس وقت خوش قسمت ترین ہیں کہ اُنہیں بوٹل نیک سے آگے پائوڈر سنو ملی، مجھے تو ہمیشہ بلیو آئس ہی ملتی رہی ہے۔
ہو سکتا ہے میں غلط ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ نیپالیوں نے بوٹل نیک سے آگے فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں یا پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما نذیر صابر صاحب کی یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے کہ نیپالیوں نے عارضی طور پر رسّی لگائی ہو اور واپسی پر اتار لی ہو۔ اِس صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ جب جان سنوری ٹیم وہاں پہنچی تو اُنہیں مجبوراً فری کلائمب کرنا پڑی اور اُنہوں نے یہ رسک بھی لے لیا اور نتیجتاً وہ پھسل کر گر گئے۔یہ بھی قیاس ہے کہ جب بوٹل نیک سیکشن پر ٹیم پہنچی ہو گی تو علی سدپارہ ٹیم کی قیادت کر رہے ہوں گے لہٰذا جب اُنہوں نے Traverse کا جائزہ لیا ہو گا تو اُنہوں نے اِس انتہائی خطرناک صورت حال کے پیشِ نظر بھانپ لیا ہو گا کہ چونکہ میرا بیٹا ساجد سدپارہ hallucination میں ہے لہٰذا اُسے اِس خطرے میں نہ ڈالوں اور کم از کم اُسے واپس بھیج دوں۔ لہٰذا باپ کے حکم پر ساجد سدپارہ نے واپسی کا سفر شروع کر دیا اور کیمپ 3 پر پہنچ کر جب ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انہوں نے نیچے بیس کیمپ پر رابطہ کیا۔
روسی کلائمب والوں کے‘ نیپالیوں کی مہم سے چند گھنٹے قبل‘ 15 جنوری کے ٹویٹس دیکھیے جس میں لکھا گیا ہے کہ بوٹل نیک سے اُوپر ''سنو‘‘ ہے اور Denis Urubko کہہ رہا ہے کہ اُسے تین سال پہلے ''آئس‘‘ ملی تھی۔ یہ ٹویٹ اس مفروضے کو تقویت دیتا ہے کہ نیپالی ٹیم کو بوٹل نیک پر پائوڈر سنو ملی تھی، اِس لیے عین ممکن ہے کہ اُنہوں نے رسّی لگائی ہی نہیں اور فری کلائمب کرکے چوٹی تک پہنچے اور واپس آئے۔ اگرچہ نیپالی کوہ پیمائوں کے رسی نہ لگانے سے متعلق فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں‘ لیکن رسی لگانے سے متعلق بھی کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ساجد سدپارہ کے پاس صرف 8200 میٹر تک کی معلومات ہیں‘ اُس سے آگے کا انہیں بھی نہیں علم کہ کیا ہوا ہو گا۔ کیا نیپالی ٹیم کے محض اس دعوے کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اُنہوں نے رسّی لگائی تھی جبکہ تین کوہ پیما اپنی جان سے چلے گئے ہیں؟ کیا نیپالیوں کی summit glory تین کوہ پیماؤں کی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ اُن سے سوال نہ کیا جائے؟ حکومتِ گلگت بلتستان کو چاہیے کہ وہ جامع تحقیقات کا آغاز کرے۔ اگر نیپالی شرپا کسی ایسی بے احتیاطی میں ملوث ہیں جس سے تین کوہ پیما حادثے کا شکار ہوئے تو پاکستان نیپال کی حکومت کے سامنے حقائق رکھ کر اُنہیں سزا دلوائے اور پاکستان کے پہاڑوں پر ایسے افراد کا داخلہ بند کر کے پابندی عائد کرے اور کوہ پیمائی کی عالمی برادری کو بھی اِس مسئلے پر اپنا ہم خیال بنائے۔ ہم اُن کی summit glory کو پہلے ہی قومی سطح پر celebrate کر چکے ہیں‘‘۔ (استفادہ از عمران حیدر)
اس ساری تفصیل کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ علی سدپارہ اورباقی دو کوہ پیما اگر کسی انسانی کوتاہی کا شکار ہوئے ہیں تو انہیں انصاف ملے۔ آئندہ کے لیے ایسے حادثات کی ممکنہ روک تھام ہو۔ کیا یہ آپ کے دل کی بھی آواز نہیں ہے؟