سینیٹر مشاہداللہ خان ایک عرصہ سے علیل تھے۔ کینسر جیسا موذی مرض ان کے درپے تھا، لیکن وہ اس کے سامنے سرنڈر کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لڑتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے معالجین تو انہیں اسلام آباد سے راولپنڈی تک کے سفر سے بھی گریز کی تلقین کرتے تھے۔ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت تھی، لیکن تقریر کرنے سے مسلسل روکا جاتا تھا۔ وہ محتاط تو تھے لیکن زندگی کا ثبوت دیتے چلے جاتے تھے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں میرے ہمعصر سعید شیخ ان کے مداح تھے اور واٹس ایپ پر اپنے صوتی پیغامات کے ذریعے انہیں ہلاشیری دیتے رہتے تھے۔ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں بھرپور یعنی تقریری شرکت پر بھی اکسایا گیا توانہوں نے یہ راز کھول دیاکہ وہ اس مشقت کے قابل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر تو انہیں سینیٹ میں تقریر کرنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ ان کی باتوں پر سر دھننے والوں اور ان کے برجستہ اشعار کی داد دینے والوں کیلئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے ممدوح کیلئے دعائوں میں اضافہ کر دیا۔ ان کی صحت یابی اور درازیٔ عمر کی دعا مانگنے والے کوئی ایک، دو تو تھے نہیں، ہزاروں، لاکھوں تھے۔ جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں، وہاں وہاں ان کیلئے دعائیں ہوتی تھیں اور پروردگار عالم سے ان کی زندگی کی بھیک مانگی جاتی تھی، یہ دعائیں شاید اس طرح قبول ہوئیں کہ انہیں بقائے دوام عطا کردی گئی ہے۔ ان کا جسدِ خاکی تو قبر میں اتارا گیا لیکن ان کے نام پر مٹی نہیں ڈالی جا سکی: بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور... برادرِ عزیز عطاالحق قاسمی نے درست لکھا ہے کہ آج تک کھربوں انسان زیر زمین جا چکے ہیں لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں جو آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہم ان کی باتیں سن سکتے، ان سے سرگوشیاں کرسکتے اور انہیں اپنے اردگرد محسوس کرسکتے ہیں‘ یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں، وہ جا رہے ہیں۔ مشاہداللہ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔
وہ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے‘ متوسط گھرانے میں پرورش پائی اورمتوسط گھرانے ہی میں آخری سانس لی۔ راولپنڈی کی طلبہ سیاست میں نمایاں ہوئے، کراچی پہنچ کر قانون کی ڈگری حاصل کی، لیکن پریکٹس نہیں کی۔ پی آئی اے میں بھرتی ہوکر یونین کی جان بن گئے۔ کارکنوں کے حقوق کیلئے سینہ سپررہے اور ممتازتر ہوتے چلے گئے۔ ان کی بے لوثی انہیں آگے بڑھاتی رہی۔ یہاں تک کہ باقاعدہ قومی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ مسلم لیگ (ن) میں اس طرح شامل ہوئے کہ پھر اِدھراُدھر نہیں دیکھا۔ میاں نوازشریف کوان کی بے غرضی میں گندھی بیباکی بہت پسند تھی اور وہ ان کی رائے توجہ سے سنتے تھے۔ برادرم فاروق عادل کوانہوں نے خود بتایا تھاکہ نوازشریف کے آخری اقتدارکے دوران جب صدارتی امیدوارکی تلاش شروع ہوئی توانہوں نے ممنون حسین کے حق میں اس طرح دلائل دیئے کہ قرعہ ان کے نام نکل آیا۔ عین ممکن ہے کہ نوازشریف اپنے دل میں خود بھی یہ فیصلہ کئے بیٹھے ہوں اور مشاہداللہ خان نے ان کے دل کوزبان دے دی ہوکہ نوازشریف کو جاننے والے اس نکتے میں چھپی لطافت کواچھی طرح جانتے ہیں۔ حقیقت جوبھی ہو مشاہداللہ اپنے موقف کا برملا اظہار کرنے میں لگی لپٹی سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ سینیٹر بنے، وزیر بنے، وزارت سے ''نکالے‘‘ گئے لیکن اپنے لیڈر سے دلی تعلق برقرار رہا۔
جنرل پرویز مشرف نے جب اپنی نوکری بچانے کیلئے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے اس اقدام کے خلاف ملک بھرمیں واحد احتجاجی آواز جو سڑکوں پر سنائی دی تھی، وہ مشاہداللہ خان کی تھی۔ وہ اپنے گریبان کا پرچم بناکر کراچی کے ریگل چوک میں پہنچے تھے اور اس شب خون کے خلاف نعرہ زن ہوئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس پر انہیں مارمار کرلال کردیا تھا، وہ ایک عرصہ اپنی چوٹیں سہلاتے رہے، لیکن آئین شکنوں کو چوٹ لگانے سے باز نہیں آئے۔ اسلام آباد میں 2014ء کے (کپتانی+ قادری) دھرنے کے بارے میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ڈنکے کی چوٹ کہہ دیا تھاکہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اس میں ملوث تھے اور ان کی گفتگو کی ایک ٹیپ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں چلا کر سنوائی تھی۔ مشاہداللہ کی یہ ''منہ پھٹی‘‘ انہیں راس نہ آئی، وزارت کا قلمدان انہیں واپس کرنا پڑا۔ وہ وزارت سے نکل گئے لیکن نوازشریف نے انہیں اپنے دل سے نکلنے نہیں دیا، مشاہداللہ کا دل بھی اپنے وزیراعظم کی محبت سے بدستور بھرا رہا۔
مشاہداللہ خان کو سینکڑوں کیا ہزاروں اشعار یاد تھے۔ وہ ان کے برجستہ استعمال پر قادر تھے۔ شعری ذوق کے حوالے سے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے بعد ان کا نام لیا جا سکتا تھا۔ نوابزادہ تو خود بھی شاعر تھے، لیکن مشاہداللہ کے بارے میں اس کی تصدیق نہیں ہوسکی، اردو ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور ادب عالیہ انہوں نے گھوٹ کر پی رکھا تھاکہ لفظوں کی نشست و برخواست، اس کے بغیر آہی نہیں سکتی۔ ان کی تقریریں شوق سے سنی جاتیں، بعض اوقات جملہ زیادہ ہی کرارا ہو جاتا، لیکن لطف سے خالی نہ ہوتا۔ بھرپور پھبتی کستے، مخاطب بھنّا کر یا تلملا کررہ جاتے۔ ان کے لہجے میں ان سے نمٹنا آسان توکیا ممکن نہیں تھا۔ عام آدمی کی طرح جئے اور عام آدمی کیلئے جئے۔ ان کی سیاست عام آدمی کی سیاست تھی، سینیٹ سے ملنے والی تنخواہ میں گزر اوقات کرتے اور شکر بجا لاتے۔ خواص میں اپنا شمار کرایا، نہ اشرافیہ کا حصہ بننے کی خواہش دل میں پالی۔ سیاست کو گالی دینے والوں اور گالی بنانے والوں کے ہجوم میں وہ سیاست کا اعتبار تھے، اپنی جگہ ڈٹ جانے والے پہاڑ جیسے آدمی کوکوہ باوقار نہ کہیں تو کیا کہیں؎
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کی پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاک جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
ضمنی انتخاب میں واردات
قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر75 کی نشست جو سید افتخارالحسن عرف زارے شاہ کے انتقال پُرملال سے خالی ہوئی تھی، اس کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے مرحوم کی بیٹی امیدوار تھیں۔ یہاں پولنگ کے روز جس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اور فائرنگ کے تبادلے پر پولیس جس طرح خاموش تماشائی بنی رہی، اس سے ناصرف دوقیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اسی پربس نہیں کیاگیا، 20پولنگ سٹیشنوں کے پریزیڈائنگ افسر اغوا کرلئے گئے۔ انتہائی تاخیر سے جب برآمد ہوئے تونتیجہ مشکوک تھا۔ اس حلقے کے تمام پولنگ سٹیشنوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح اوسطاً 30فیصد کے لگ بھگ رہی، جبکہ ''مغوی‘‘ پولنگ سٹیشنوں میں اسے 80تا 90فیصد بنادیاگیا۔ چیف الیکشن کمشنر چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور ضلعی حکام سے رابطے کی کوشش کرتے رہے، کئی گھنٹوں بعد چیف سیکرٹری دستیاب ہو سکے۔ الیکشن کمیشن نے اب اس حلقے کا نتیجہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نتائج میں ردوبدل کا شبہ ہے، اس لئے چھان بین کے بغیر نتیجے کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تفصیل افسوسناک سے زیادہ شرمناک ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی حماقتوں سے بھری پڑی ہے، جن کا نتیجہ احمق حضرات کیلئے بھی بہت تباہ کن نکلا ہے۔ عمرانی اقتدار میں ایسا بھی ہوسکتا ہے، اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن جوکچھ ہوا، سب کے سامنے ہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار تاحال جاندار اور اعتبار افزا ہے، ذمہ داران کے خلاف شدید ترین کارروائی بھی شاید کم ہی قرار پائے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)