تنہائی کے سات سال گزر گئے۔
اکیس فروری 2013 کل کی بات لگتی ہے کہ پولی کلنک ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیسک پر ڈاکٹر نے میری طرف دیکھا، میں نے دور ہسپتال کے بیڈ پر نعیم بھائی کو ساکت لیٹے دیکھا۔ ہمارا کزن شبیر ایک طرف کھڑا رو رہا تھا۔ چھوٹا بھائی خضر بھی وہیں تھا۔ میں نیند سے اٹھ کر آیا تھا۔ صبح چار بجے شبیرکلاسرا کا فون آیا کہ نعیم کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘ ہسپتال لے آئے ہیں۔ ابھی تین چار گھنٹے پہلے خضر کے گھر ان سے مل کر آیا تھا۔ مجھے اچانک panic attack ہوا۔ عجیب سا خوف کہ کچھ انہونی ہونے والی ہے۔
میں نے فوراً وضو کیا، نماز پڑھی، دعا مانگنے کی کوشش کی تو پہلی دفعہ محسوس ہوا مجھ سے دعا نہیں مانگی جا رہی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے پھر اللہ سے نعیم بھائی کی زندگی کیلئے دعا مانگنے کی کوشش کی۔ مجھے لگا‘ حلق میں کچھ اٹک سا گیا ہے۔ میں نے مزید زور سے دعا کی کوشش کی تو لگا لفظ ساتھ چھوڑ گئے۔ اشارہ مل چکا تھا کہ دعا کا وقت گزر چکا‘ کہانی ختم ہو چکی۔
ڈاکٹر نے میری طرف ایک سرٹیفکیٹ بڑھایا۔ میں نے اس پر چند لکیریں کھینچ دیں۔ مجھ میں اتنی سکت نہ رہی کہ اس بیڈ کی طرف جاتا جہاں اب نعیم بھائی ساکت لیٹے تھے۔ انہیں اس حالت میں دیکھنے کی میرے اندر ہمت نہ تھی۔ اپنے بچپن کے پہلے اور آخری ہیرو کو یوں اس حالت میں دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ اس شام برستی بارش میں انہیں گائوں کے قبرستان میں دفن کیا۔ رانا اعجاز محمود مجھے مسلسل بانہوں میں لیے کھڑے رہے۔ وہی رانا اعجاز جو پچھلے سال خود بھی منوں مٹی تلے جا سوئے۔ پہلے 2013 میں نعیم بھائی، پھر 2015 میں ڈاکٹر ظفر الطاف اور 2020 میں رانا اعجاز محمود‘ میری زندگی میں یہی تین لوگ تھے جنہوں نے مجھ پر گہرے اثرات چھوڑے اور ان کے چلے جانے کے بعد زندگی یکدم بور لگنے لگی۔ اکثر دوستوں کو کہتا تھا‘ انسانی زندگی کا مزہ بس چالیس برس تک ہے۔ چالیس کے بعد جہاں انسانی جسم میں توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے‘ وہیں آپ کی زندگی کے قریبی لوگ بھی ایک ایک کرکے بچھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ابھی پتا چلاکہ سرائیکی کے شاعر اور دانشور ارشاد تونسوی بھی فوت ہوگئے ہیں۔ ان سے جڑی یادوں کا ایک ریلا مجھے پھر بہا کر لے گیا۔ وہی بہاولپور کی عباس منزل کی راتیں اور وہاں جمنے والی محفلیں۔ ارشاد تونسوی سرائیکی کے ایک ملنگ ٹائپ شاعر تھے‘ دلآویز‘ کم گو۔ اکثر ویک اینڈ پر نعیم بھائی مجھے ان کے گھر لے جاتے جہاں ارشاد تونسوی اپنی فیملی ساتھ رہتے تھے۔
میں نے نعیم بھائی سے استاد محمود نظامی کا بڑا ذکر سنا ہوا تھا۔ ایک رات عباس منزل میں استاد نظامی آئے تو نعیم نے ان کا بڑا تعارف کرایا۔ میں ان دنوں زکریا یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ نظامی نے مجھے کوئی خاص لفٹ نہ کرائی۔ ویسے تو نعیم کے سب ہی لاڈلے تھے جیسے استاد فدا حسین گاڈی، عبداللہ عرفان، اشو لعل، احسن واہگہ، منصور کریم، رفعت عباس، عاشق بزدار، مظہر عارف، ڈاکٹر انوار احمد، جہانگیر مخلص، محسن شہزاد قادر، شہزاد عرفان، ارشاد تونسوی، منظور بوہڑ، فقیرا بھگت، موہن بھگت، لیکن محمود نظامی کی اپنی شان تھی۔ نعیم بھائی کہنے لگے: نظامی ذرا اس نوجوان کو یہ تو بتائو تم دال کیوں نہیں کھاتے؟ دال کا سن کر نظامی اچانک بگڑ گیا اور بولا: دال ہی کھانی تھی تو پاکستان کیوں بنایا؟ ہندو کہتا تھا دال کھائو، گائو ماتا کو نہ کھائو۔ مسلمانوں نے کہا‘ نہیں ہم نے کھانا ہے۔ اگر دال ہی کھانی تھی تو وہ ہندو مفت کھلاتا تھا۔ پھر نظامی نے کہا: ڈاکٹر پتا کرو تمہارے میس پر کیا پکا ہے؟ اسی وقت بیرا دال کی تین پلیٹیں دے گیا۔ نظامی کا موڈ بگڑ گیا۔ اس نے کہا: ڈاکٹر تم اور تمہارا بھائی دال کھائو‘ میں تو ارشاد تونسوی کے پاس جارہا ہوں‘ اس سے مرغی کھائوں گا۔ نعیم اور میں باتیں کرنے لگے۔ دال مزیدار تھی۔ ہم وہ پلیٹ بھی کھا گئے جو نظامی کیلئے منگوائی گئی تھی کہ وہ تو ارشاد تونسوی کے گھر سے مرغی کھانے گیا ہوا تھا۔ رات کے تین بجے ہوں گے کہ نظامی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ سیدھا اس میز کی طرف گیا جہاں دال کی پلیٹیں پڑی تھیں۔ خالی پلیٹیں دیکھ کر نظامی کا غصہ بڑھ گیا اور بولا: میری دال کی پلیٹ کس نے کھائی؟ میرے منہ سے نکل گیاکہ میں نے کھا لی۔ نظامی کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مجھے 'بجا‘ دے کر کہا شرم نہیں آتی‘ اپنی پلیٹ بھی کھائی اور میری بھی کھا گیا۔ نعیم بھائی نے کہا: نظامی تم تو دال کھاتے نہیں ہو‘ ویسے بھی تم ارشاد تونسوی کے گھر مرغی کھانے گئے تھے۔ نظامی بولا: ڈاکٹر دراصل میں پیدل ہی چل پڑا تھاکہ چلیں کچھ بھوک لگے گی‘ جب ارشاد تونسوی کے گھر پہنچا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ واپس آنے لگا تو دیر ہوچکی تھی اور کوئی سائیکل رکشہ بھی نہ تھا۔ یوں میں تمہارے ہوسٹل کی طرف پیدل ہی چل پڑا۔‘ اب بھوک سے برا حال ہے اور پھر تم دونوں بھائیوں نے میری دال بھی کھا لی۔ نظامی نے مجھے دیکھ کر لعن طعن جاری رکھی کہ دیکھو دال کی دو پلیٹیں کھا گیا۔ نعیم کا ہنس ہنس کر برا حال کہ بے چارے نظامی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تھا۔ انہوں نے ملازم کو بلایا کہ جائو ہسپتال کینٹین سے میرا کہہ کر دال اور روٹیاں نظامی کے لیے لائو۔ نظامی نے نعیم بھائی کو اپنے مخصوص انداز میں چند صلواتیں سنائیں اور کہا: ڈاکٹر شرم کرو‘ منگوا بھی رہے ہو تو دال‘ مرغ کڑاہی منگوائو۔
بہاولپور میں نعیم بھائی نے بڑی محبتیں بانٹیں اور سمیٹیں۔ ان کے دوستوں میں نعیم پرنس، رائو ابوبکر، حافظ مسعود، ڈاکٹر جاوید کنجال‘ ڈاکٹر ارشد شہانی اہم تھے۔ پچھلے سال نعیم پرنس کی بیٹی اور داماد ایک حادثے میں جان بحق ہوئے تو دل ٹوٹ گیا۔ نعیم پرنس کی بیٹی نعیم بھائی کے ہاتھوں میں پلی بڑھی تھی۔ میں خود بہاولپور جانا چاہتا تھاکہ نعیم پرنس سے ان کا دکھ بانٹوں۔ کچھ دن پہلے ملتان گیا تو خضر کو کہا: پتا کرو نعیم پرنس کہاں ہیں؟ بہاولپور میں ہیں تو ملتان سے جمشید رضوانی کو ساتھ لے کر ہو آتا ہوں۔ پتا چلا وہ رحیم یار خان شفٹ ہوگئے ہیں‘ اور ایک دن آنا جانا ممکن نہ تھا۔ ایک دکھ اندر ہے کہ ابھی تک نعیم پرنس سے جاکر تعزیت نہیں کر سکا۔ یقینا نعیم بھائی مجھ سے خوش نہیں ہوں گے۔
گائوں جانا تھا۔ آج اکیس فروری کو ان کی ساتویں برسی ہے۔ کچھ ایشو تھا‘ ڈاکٹر نے سفر سے منع کیا ہے۔ گائوں کا قبرستان اپنی طرف کھینچتا ہے۔ رہتا اسلام آباد ہوں لیکن دل قبرستان کی طرف رہتا ہے جہاں اب اپنے سارے دفن ہیں۔ سنا ہے بھانجے منصور نے اس دفعہ گائوں میں ماموں نعیم کی یاد میں ایک کتابوں کا میلہ سجایا ہے۔ منصور نے پی ایچ ڈی کی، اسلام آباد چھوڑا، اور گائوں جا کر سکول کھولا، غریبوں کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا، وہیں غریبوں اور کسانوں کے لیے کام شروع کیا۔ اپنی مرحومہ ماں اور ہماری بہن خورشید کے نام پر لائبریری شروع کی اور ساتھ میں نعیم بھائی کے نام پر چیریٹی شروع کر دی۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا کتاب میلہ ہے۔ دور دور سے لوگ اس میلے میں شریک ہورہے ہیں۔ کبھی ان علاقوں میں کتے سؤر اور ریچھ، بیلوں کے میلے ہوتے تھے‘ اب کتاب میلہ ہو رہا ہے۔
نعیم بھائی ہوتے تو کتنے خوش ہوتے ان کتابوں کے درمیان۔ کہانیاں سناتے، پرانے قصے دہرائے جاتے، چائے کے دور چلتے، سردیوں کی رات اماں کی چھوٹی سی کوٹھی میں چولہے کے گرد جلتی آگ کے گرد سب جمع ہوتے، آگ کا الائو جلتا، سارا دن ان کی بچوں بزرگوں سے گپیں لگتیں۔ بالزاک اور گارشیا کے ناول اور ان کے کرداروں کو اپنے گائوں میں تلاش کرتے، گارشیا کے ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ جیسا ناول اپنے گائوں کے کرداروں پر لکھتے۔
کچھ کہانیاں بس ادھوری رہ جاتی ہیں۔ کچھ قصے کبھی مکمل نہیں ہوتے۔ کچھ تشنگی‘ ایک ایسی پیاس جو کبھی نہیں بجھتی۔ ہمارے نعیم بھائی بھی کسی قدیم زمانے کا ایک پرانا قصہ تھے، ایک بھولی بسری کہانی تھے، ایک خوبصورت دیومالائی داستان تھے، جو بس ادھوری رہ گئی، نامکمل رہ گئی۔