تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-02-2021

تم چلے آئو، پہاڑوں کی قسم

مجھے وقت کا صحیح اندازہ نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ اس وقت رات کے تین‘ ساڑھے تین بجے ہوں گے جب میری آنکھ کھلی۔ میری نیند بڑی ہلکی ہے اور ذرا سی آواز سے آنکھ کھل جاتی ہے‘ لیکن یہاں رات کو ہرطرف شور سا برپا رہتا ہے۔ میں ایسی صورتحال سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، لیکن میرے مالک کے رنگ نیارے ہیں۔ اس نے انسان کو حالات میں ڈھل جانے کی اور نئی صورتحال کو قبول کر لینے کی ایسی صلاحیت سے نوازا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو انسان اپنے آپ کو نئی جگہ پر یا نئے حالات میں ایڈجسٹ ہی نہ کر پاتا۔ ہر طرف بلند آواز میں لائوڈ سپیکر پر بجتے ہوئے گانوں کی آوازوں نے پہلے تھوڑی دیر مجھے خاصا تنگ کیا‘ لیکن پھر شاید لوری کا کام دیا، اور میں سو گیا۔ یہ ہر سال کا معمول ہے۔ ہر سال تین چار راتیں اسی طرح گزرتی ہیں۔
جیساکہ میں نے بتایا‘ رات کے غالباً تین‘ ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا جب میری آنکھ کھل گئی۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ ایسا ہر رات ہوتا ہے اور پھر میں فوراً ہی دوبارہ سو جاتا ہوں۔ میں شاید فوراً ہی دوبارہ سو جاتا لیکن تھوڑی دور لگے ہوئے کیمپ سے گانے کی آواز آرہی تھی۔ صحرا میں لگے ہوئے ان کیمپوں سے آنے والی آوازوں کا سلسلہ بھی بڑا عجیب ہے۔ ہوا کا رخ دوسرے کیمپ سے آپ کی طرف ہو تو گانے کی آواز صاف اور بلند ہوتی ہے۔ جونہی ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہے یہ والاگانا بیگ گرائونڈ چلا جاتا ہے اور بدلتی ہوا کا رخ کسی اور گانے کو اپنے دوش پر لیے آن پہنچتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دو بول ایک گانے کے سنے اور اگلے دو بول دوسرے گانے کے سنے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ رات کے تیسرے پہر آنکھ کھلی‘ تب ہوا رکی ہوئی تھی اور گانے کی آواز ایک ہی آہنگ میں آ رہی تھی۔ گانے کے بول کان میں پڑے تو نیند اڑ سی گئی۔ بھلا ایسے میں نیند نہ اڑتی تو اور کیا ہوتا؟ گانے کے بول تھے: تم چلے آئو، پہاڑوں کی قسم۔ یہ گانا سنتے ہی مجھے محمد علی سدپارہ کی یاد نے آن گھیرا۔ دل میں شدید درد کی لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی اور بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
چند روز گزرے میرے ایک دوست نے مجھے چند سیکنڈ کا کلپ بھیجا تھا۔ یہ کسی ٹینٹ کے اندر بیٹھے ہوئے کوہ پیمائوں کا گروپ تھا اور اس کلپ میں یہی گانا لگا ہوا تھا۔ اس گانے کے بول سب لوگ دُہرا رہے تھے۔ اچانک ایک شخص اٹھ کر اس گانے پر رقص کرنے لگ گیا۔ زندگی سے بھرپور اور جذبوں سے معمور یہ رقص کرنے والا محمد علی سدپارہ تھا۔ اسے پہاڑ بلا رہے تھے۔ پرانی کہانیوں میں جس طرح غیبی آوازیں پلٹ کر دیکھنے والوں کو پتھر کا بنا دیتی تھیں اسی طرح پہاڑوں کی طرف بلانے والی آواز نے پہاڑوں کے بیٹے کو بالآخر اپنی طرف بلا لیا۔ اب پہاڑوں کا یہ بیٹا، کہیں پہاڑوں کی ہی آغوش میں سو چکا ہے۔ اللہ جانے کب تک۔
میں گزشتہ ہفتے چولستان جیپ ریلی کے سلسلے میں دراوڑ سے تھوڑا ہٹ کر صحرا کے اندر اپنے دوستوں کے کیمپ میں تھا۔ یہ گزشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے سے معمول ہے۔ اب اس ایونٹ کی تاریخ تو دو چار دن آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے، لیکن یوں سمجھیں یہ فروری کے دوسرے ہفتے کے آخری تین دن ہوتا تھا، جو اب چار دن پر چلا گیا ہے۔ دو چار بار کسی مجبوری کے باعث نہ آ سکا ورنہ ہر سال فروری میں یہاں آنا ایک معمول ہے۔ کئی دوست پوچھتے ہیں: آخر یہاں کیا رکھا ہے، جسے دیکھنے کیلئے تم ہر سال دوڑے چلے جاتے ہو؟ میں ہنس کر کہتا ہوں: وہاں کیا رکھا ہونا ہے؟ دھول ہے، ریت ہے اور مٹی ہے‘ جسے پھانکنے چلے جاتے ہیں۔ میرے جواب پر وہ حیران ہونے کے بجائے پریشان ہوکر پوچھتے ہیں: بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ میں کہتا ہوں: آپ نہیں سمجھیں گے۔ اب میں انہیں کیا سمجھائوں اور کیا بتائوں کہ صحرا مجھے آوازیں دے کر بلاتا ہے۔ پہاڑ بھی اسی طرح آوازیں دیتے ہیں اور دیوانے کھچے چلے آتے ہیں۔ بلندوبالا خونیں چوٹیاں اسی طرح اپنے عاشقوں کو گھیر لیتی ہیں۔ آئس لینڈ کا جان سنوری، چلی کا جوان پیبلو اور سکردو کے پاس سدپارہ گائوں کا محمد علی سدپارہ‘ ان تینوں کو کے ٹو نے اسی طرح بلایا ہوگا۔
نیند اڑ سی گئی تھی۔ میں نے ٹینٹ کی زپ کھولی اور باہر آگیا۔ ٹینٹ کے اندر سردی تھی مگر باہر سردی کی شدت اندر کی نسبت کافی زیادہ تھی۔ صحرا کا مزاج بھی بڑا عجیب ہے‘ دن کو دھوپ کی شدت اور گرمی، رات کو ٹھنڈک۔ میں نے ٹینٹ کے خارجی راستے کے ساتھ اندر ہک پر لٹکی جیکٹ اتار کر پہنی اور کیمپ میں لگے ٹینٹوں کے درمیان دائرے میں پڑی خالی کرسیوں میں ایک پر بیٹھ گیا۔ تین گھنٹے پہلے یہاں آگ کا الائو روشن تھا اور سب دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ چائے‘ کافی چل رہی تھی۔ پرانی ریلیوں کی یادیں تازہ ہورہی تھیں۔ دو دن بعد ہونے والے فائنل رائونڈ کے ٹریک پر تبصرہ ہورہا تھا۔ دوپہر کو اویس خان خاکوانی کی گاڑی کے ساتھ ہونے والے ایکسیڈنٹ کی تفصیل سن رہے تھے۔ فروری میں صحرا کی رات سرد ہوتی ہے۔ اس سردی میں چند گھنٹے پہلے ہی ساری کرسیاں دوستوں سے بھری ہوئی تھیں اور آگ کی تپش بہت لطف دے رہی تھی۔ جہاں آگ کا الائو روشن تھا، وہاں اب بجھے ہوئے کوئلے اور راکھ پڑی تھی۔ قلعہ دراوڑ دور اندھیرے میں گم تھا۔ چاند کی آخری رات تھی اس لیے آسمان پر صرف ستارے چمک رہے تھے۔ دراوڑ قلعہ کی طرف سے آنے والی سرد ہوا کے جھونکے نے صحرا کی رات کی ٹھنڈک کا احساس دلایا۔ ایسے میں آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر سردی کا خیال آیا تو بدن میں سردی کی اور دل میں ملال کی اک لہر سی دوڑ گئی۔ سدپارہ گائوں کا محمد علی سدپارہ۔
پورٹر سے کوہ پیما کا سفر طے کرنے والا باہمت اور جفاکش محمد علی سدپارہ۔ سدپارہ بھی کیا مردم خیز گاؤں ہے۔ پہلے حسن سدپارہ، پھر محمدعلی سدپارہ اور اب ساجد سدپارہ۔ مجھے سردی میں تریشنگ کا ہوٹل یاد آگیا۔ میں اور بچے استور سے تریشنگ پہنچے تووہاں سے آگے گلیشئر پر ہائیکنگ کرنے چلے گئے۔ واپسی پر تھکے ٹوٹے دوبارہ تریشنگ پہنچے تو دوپہر کے کھانے کیلئے نانگا پربت ٹورسٹ ان میں رک گئے۔ وہاں پر ڈائننگ ہال میں ایک نوجوان کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ میں نے ہوٹل کے مالک اشرف سے پوچھا: یہ کس کی تصویر ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ جوئل کی تصویر ہے۔ جوئل کا پورا نام Joel Wischnewski تھا اور وہ فرانسیسی کوہ پیما تھا‘ جو سردیوں میں نانگا پربت کو اکیلے سر کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ یکم فروری 2013ء کو وہ ہوٹل سے نکلا۔ پانچ فروری کو اس کا رابطہ دنیا سے کٹ گیا‘ ابھی تک اس کی نہ کوئی خبر ملی ہے اور نہ ہی لاش، یہ کہہ کر اشرف افسردہ ہو گیا۔ ہماری تریشنگ سے واپسی کے تین ماہ بعد نومبر کے آغاز میں جوئل کی منجمد لاش مل گئی‘ جسے نانگا پربت کے قدموں میں Herrlingkoffer's Alpinists قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ نانگا پربت یعنی Killer mountain کو تن تنہا سردیوں میں سر کرنے کیلئے جوئل نے روپل فیس کی طرف سے کوشش کی۔ جوئل کی عمر غالباً چھبیس سال تھی۔
یہ کون سا جادو ہے جو ان کو خطروں کی طرف بلاتا نہیں بلکہ کھینچتا ہے؟ میرا ذہن پھر محمدعلی سدپارہ کی طرف چلا گیا۔ اس کے حوصلہ مند اور بہادر بیٹے نے تو کئی دن ہوئے کہہ دیا تھاکہ اب اس کے والد کی زندگی کی تو کوئی امید نہیں، اب ان کی لاش تلاش کی جائے۔ ایسے میں بھی ہم لوگ کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔ معجزہ، جو امید کی شمع روشن رکھتا ہے۔ میں نے لکڑی سے راکھ کریدی کہ شاید کہیں کوئی انگارہ جل رہا ہو، مگر سب کچھ بجھ چکا تھا۔ ساتھ والے کیمپ میں کسی نے پھر وہی گانا لگا دیا۔ تم چلے آئو، پہاڑوں کی قسم۔ اس نے پہاڑوں کی قسم پوری کر دی‘ اور پہاڑوں نے بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved