'سیالکوٹ کی ضلعی انتظامیہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل گئی ہے اور ضمنی الیکشن میں پولنگ سے پہلے ہی دھاندلی کی جا رہی ہے‘ ایک نجی ٹی وی چینل‘ جو حکمران جماعت کی طرف داری کے لیے مشہور ہے، کی بریکنگ نیوز دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا، اور پھر اس وقت تو حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس بریکنگ نیوز پر رائے دینے کے لیے فردوس عاشق اعوان صاحبہ فون بیپر پر آئیں اور اس خبر کی تصدیق کر دی۔
صوبائی حکومت کی ترجمان صاحبہ کا ایک ضلع کی انتظامیہ پر کنٹرول نہ ہونے کا اعتراف یا پھر ضلعی انتظامیہ پر صوبائی کنٹرول سے باہر ہو جانے کا الزام، میرے طویل صحافتی کیریئر میں ایسا کوئی واقعہ، ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہ آ سکا۔ صوبائی حکومت کی ترجمان کا الزام کس پر تھا؟ اپنے وزیر اعلیٰ پر؟ اپنے لگائے ہوئے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ سمیت صوبے کی تمام سیاسی و سرکاری قیادت پر؟ پولنگ سے پہلے صوبائی حکومت کی طرف سے چلوائی گئی خبر نے صورتحال واضح کر دی تھی۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ پولنگ کے دن امن و امان کی صورت حال بگڑ سکتی ہے‘ لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ دو قیمتی جانیں اس انتخابی جھگڑے میں ضائع ہو جائیں گی۔ اقتدار کا بے رحم کھیل دو گھروں میں ماتم کا سبب بن گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ فیصلہ کرنا تو عدالتوں کا کام ہے، ہم صحافی غیر جانبدار تجزیہ کرتے ہیں تو لفافے کا الزام لگ جاتا ہے، اس کے باوجود جو دیکھا اور سنا اسے رپورٹ کرنا، ریکارڈ پر لانا، ہماری پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔
پولنگ کے دن ڈسکہ اور وزیر آباد سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز گردش کرتی رہیں‘ جن میں موٹر سائیکل سوار کھلے عام فائرنگ کرتے دندناتے رہے اور اپوزیشن رہنما ان غنڈہ عناصر کا تعلق حکمران جماعت سے بتاتے سنائی دیئے، ایس ایچ او کی سطح کے کئی پولیس افسروں کے نام بھی سوشل میڈیا پر آئے جو ان غنڈہ عناصر کے سرپرست بتائے گئے، حکمران جماعت کے ایک ایم پی اے کی موجودگی میں فائرنگ اور مخالفین کو للکارنے کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔
ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو مریم نواز نے بم شیل ویڈیوز کی ٹویٹ کی اور پھر یکے بعد دیگرے بیلٹ پیپرز کے تھیلوں کی ویڈیوز نمودار ہونے لگیں، اس سارے عمل میں اپوزیشن اور حکمران جماعت ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے رہے‘ لیکن مجھ جیسے صحافی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا بیلٹ کا تقدس یہی ہے؟ حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو طاقت کے زور پر بیلٹ پیپرز چھیننے، پھاڑنے، بیلٹ باکسز غائب کئے جانے پر شور مچاتے رہے، آج جب وہ خود طاقت و اقتدار کے مالک ہیں تو کیا تبدیلی آئی؟
صرف اتنی کہ پہلے وہ 35 پنکچرز کا الزام تو لگاتے رہے لیکن دستاویزی ثبوت کسی کے پاس نہ تھا‘ لیکن اب تو ووٹوں کے تھیلے غائب کرنے کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں، یہ واقعی تبدیلی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سب سے حیران کن تو مجھے الیکشن کمیشن کا وہ اعلامیہ لگا جو ڈسکہ انتخابات کے تناظر میں سامنے آیا ہے‘ جس کے مطابق این اے 75 سیالکوٹ کے نتائج غیر ضروری تاخیر سے موصول ہوئے اور اس دوران متعدد مرتبہ پریزائڈنگ افسران سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔
اعلامیہ کے مطابق ان افسروں کا پتا لگانے کے لیے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی اطلاع پر چیف الیکشن کمشنر نے آئی جی پنجاب پولیس، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے رابطے کی کوشش کی لیکن اس پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔ چیف سیکرٹری سے رات 3 بجے ایک مرتبہ رابطہ ہوا، جس پر انہوں نے گمشدہ افسروں اور پولنگ بیگز کو تلاش کر کے نتائج کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی مگر پھر وہ بھی اس معاملے پر دستیاب نہیں رہے، بعد ازاں کافی کوششوں کے بعد صبح 6 بجے پریزائڈنگ افسر مع پولنگ بیگز واپس آ گئے۔
اعلامیہ کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر حلقہ این اے 75 نے آگاہ کیا ہے کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے، لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقہ کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھیج رہے ہیں۔ اس اعلامیہ کو پڑھ کر میں تو ششدر رہ گیا اور مجبور ہوں کہ یہ سوال کروں کہ کیا ہم بنانا ری پبلک بن گئے ہیں؟
حکمران جماعتیں یا اپوزیشن اگر ضمنی الیکشن میں ایک آدھ نشست کے لیے اس قدر جذباتی ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ انہیں کوئی خوف ستا رہا ہے۔ اپوزیشن ایک آدھ نشست جیت کر پنجاب اسمبلی یا قومی اسمبلی میں کوئی بڑا فرق نہیں ڈال سکتی لیکن حکومتی گھبراہٹ کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔
اس گھبراہٹ کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ایک چیز واضح ہو رہی ہے کہ حکمران جماعت ٹی وی چینلز اور پریس کانفرنسوں میں جو مرضی میں آئے کہتی پھریں، اب ان کے لئے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات میں شکست، سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد کی نشست کے لئے بھاگ دوڑ اور خیبر پختونخوا میں تقریباً 8 سال کی مسلسل حکمرانی کے بعد پرویز خٹک کے حلقے کی نشست ہار جانا معمولی باتیں نہیں ہیں۔
اگر پی کے 63 پر نظر ڈالیں تو پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مابین پہلے سے کانٹے کا مقابلہ متوقع تھا۔ اس حلقے سے 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے جب کہ مسلم لیگ کے موجودہ امیدوار اختیار ولی 2018ء کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر تھے ۔
جبکہ حلقہ این اے 75 ڈسکہ کا تھا جہاں کی نشست مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ سید افتخارالحسن شاہ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی‘ اور مسلم لیگ ن اس نشست پر کامیابی کے لئے پُر امید تھی۔ دوسری طرف گزشتہ دنوں بلوچستان میں پشین کے ضمنی الیکشن کے نتائج کو غیر متوقع تو نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن جس بڑے تناسب سے پی ڈی ایم کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے، وہ اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کے لیے حوصلہ افزا ضرور ہے۔
شاید حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کی حمایت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر حکمران جماعت کے پیروں تلے سے زمین صحیح کھسک رہی ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک نے اپنا ایک مقصد تو حاصل کر ہی لیا ہے۔
سیاست سے قطع نظر ملک میں اس سیاسی صورت حال کو دیکھ کر بھی مجھے آنے والے وقت سے ڈر لگتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہماری سیاسی تاریخ میں کسی بھی انتخاب کے موقع پر فائرنگ، جھگڑا وغیرہ نئی باتیں ہوں لیکن اس بار اس میں جس شدت کا میں نے مشاہدہ کیا ہے‘ اس کے انجام کا سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہمارا سیاسی طبقہ اس طرح کی حرکات کا ادراک کرے اور ملک میں ایک مناسب سیاسی ماحول کی جانب بڑھیں جس میں مکالمہ اور دوسرے فریق کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے کیونکہ اختلافات تقسیم کا باعث بنتے ہیں اور ڈائیلاگ سیاسی استحکام کا جبکہ ایک مناسب سیاسی استحکام ہی ترقی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔