تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     21-02-2021

آدھے راستے پر

ستر کی دہائی میں جب آپ سڑکوں پر آتے تھے تو ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی تصویر کے نیچے گانے کے یہ بول لکھے نظر آتے تھے:
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
اور یہ بول اور یہ تصویر ستر کی دہائی ہی نہیں بعد کے عشروں تک ٹرکوں اور سڑکوں پر نظر آتے رہے۔ یہ اس حکمران کے بارے میں تھا جسے ایک تندوتیز عوامی لہر نے دس سالہ حکومت اور بہت سے اچھے کاموں کے باوجود اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس کے جانے کے بعد صرف یاد ہی نہیں آئی حادثات کا ایک سونامی بھی آیا‘ جو ملک اور قوم کا بہت کچھ بہا کر لے گیا۔
دنیا کے مشکل ترین موضوعات میں سے ایک حکومت وقت کی تعریف ہے۔ ایک کالم نگار کیلئے تو پُر اذیت صلیب‘ جسے وہ خود اٹھا کر جائے وقوعہ تک لاتا ہے اور جس پر اسے کالم کی اشاعت کے بعد تادیر لٹکا رہنا پڑ سکتا ہے۔ کسی کے دل میں اگر طعن و تشنیع بلکہ گالیوں‘ دھمکیوں کی خواہش لہرائے تو آسان راستہ حکومت وقت کی تعریف میں لکھنا ہے۔ یہ کوئی مقبول تحریر ہرگز نہیں ہو سکتی اور بات موجودہ حکومت کی نہیں ہے بلکہ کسی بھی دور حکومت کی۔ آپ پرانے اخبارات اور تحریریں نکال کر دیکھ لیجئے۔ ہر دور میں ان کی دو اقسام نظر آئیں گی‘ ایک وہ جو سرکاری سرپرستی میں سرکار کی تعریف بلکہ خوشامد کیلئے لکھی جاتی ہیں۔ دوسری وہ جو حکومت پر تنقید، الزامات، پھبتیوں اور جگتوں کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ جائز یا ناجائز، غلط یا صحیح سے دونوں کو غرض نہیں ہوتی۔ یہ دونوں متضاد تحریریں ہر دور میں موجود نظر آئیں گی۔ ذرا دور جائیں تو قائد ملت لیاقت علی خان کے نام کے ساتھ 'قائد قلت‘ کی پھبتی سجی دیکھ لیں جو اس دور میں اشیائے ضرورت کی نایابی پر کسی گئی تھی۔ دور نہ جانا چاہیں تو نواز شریف کا آخری دور حکومت یاد کر لیں جس میں سری پائے اور وہ لازم و ملزوم قرار دئیے جاتے تھے یا شہباز شریف کے برساتی پانی میں کھڑے تصویر کھنچوانے کے شوق کا ذکر ہو۔ لیاقت علی خان سے شریف برادران تک کے سارے حاکمانِ وقت یاد کرلیں، کون سا بچ کے جا سکا۔ پانچ چھ بنیادی الزامات حسب خواہش و منشا اور حسب موقع محل سب پر لگتے رہے۔ کرپشن، جمہوریت کشی، اسلام دشمنی، غداری، نااہلی اور مہنگائی کے پیچھے سرکاری مافیا کا ہاتھ وغیرہ وغیرہ۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب سے شعور کی آنکھ کھلی، ہر قسم کے میڈیا کو نرم اور سخت الفاظ میں حکومت کی برائیاں کرتے ہی پایا۔ مجھے یاد نہیں کہ ہر دور کی کسی بھی‘ اور میں یہ الفاظ پھر دہراتا ہوں کہ ہر دور کی کسی بھی، حکومت کی تعریف اخبارات اور عوام کی زبانی سنی ہو۔ ان میں وہ ادوار بھی شامل ہیں جنہیں اب بہت سے حلقے ترقی اور خوشحالی کے سنہری دور کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ مختلف حلقے ایسے ہوتے ہیں جو نظریاتی یا سیاسی پسندیدگی کی بنیاد پر اپنی اپنی حکومت یا سربراہ کی حمایت کرتے ہیں لیکن عمومی لہر کا رخ ان کے مخالف ہوتا ہے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ایسا ہوتا ہے جو ساری اچھائیوں کو پیچھے دھکیل کر سامنے آجاتا اور مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو مہنگائی کی بات ہی ایسی ہے جو ہر دور میں حکومت وقت کے خلاف بہت کامیابی سے کی جا سکتی ہے۔ جب حبیب جالب جلسوں اور محفلوں میں پڑھتے تھے:
ہر شے پر چھایا سناٹا/ بیس روپے اب من ہے آٹا
تو اس وقت بھی اس بات پر تالیاں پٹتی تھیں اور آج جب آٹا 50 روپے فی کلو، جی فی من نہیں فی کلوگرام ہے اور اس کی دہائی دی جاتی ہے تو ایسی ہر آواز بھی توجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اس میں کسی دور کا استثنا نہیں ہے۔
ہم کوئی بزرجمہر نہ سہی، آنکھیں اور کان تو رکھتے ہیں۔ یہ کالم نگار حکومتِ وقت پر تنقید خود بھی کرتا ہے، دوسروں کی مناسب اور جائز تنقید کو بھی اہمیت دیتا ہے اور ایسی ہر رائے کی پذیرائی کرتا ہے جس کا مقصد کسی بھی عوامی مسئلے کو اجاگر کرنا اور حل کرنا ہو‘ لیکن مخالفت برائے مخالفت، ہر اچھے کام کو نظرانداز کرکے اس پر سکوت، حکومت وقت کی ہر غلطی کو رائی سے بڑھا کر پہاڑ بنانے کی کوشش کو کبھی درست نہیں سمجھتا۔ ان میں بیشتر تحریریں اپنی تحریر کو مقبول بنانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ ویسی ہی کوشش جیسی حزب اختلاف عوامی جلسوں میں تالیاں بجوانے کے لیے اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کیا کرتی ہے۔ مجھے الیکشن کے زمانے میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش والی تقریروں اور ایسی ناروا تحریروں میں کوئی بنیادی فرق نظر نہیں آتا ہے کہ یہ دونوں دنیاداری سے منسلک ہیں۔ اس میں اگر لکھنے والے کے مزاج کی گرمی اور تلخی بھی شامل ہوجائے تو جارحانہ پن اور تیز دھار ہوجاتا ہے اور فی زمانہ ٹی وی سکرین ہو یا اخباری صفحہ، جارحانہ پن ہی سکہ رائج الوقت ہے۔
دراصل ملک اور قوم کے اتنے گوناگوں مسائل ہیں اور بہت سے اتنے پیچیدہ کہ کوئی ایک حکومت تمام حل کر ہی نہیں سکتی۔ وہ ان میں سے آدھے بھی حل کرلے تو بڑی توفیق ہے اور یہ توفیق اب تک کسی کو ملی نہیں؛ چنانچہ مخالفت کے لیے زیادہ دور جانا نہیں پڑتا۔ مسائل سامنے پڑے ہوتے ہیں۔ ایک دو بھی اٹھا لیں تو عوامی پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے‘ اور ہر دور میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ وہی حکمران، جو ان مسائل کے ذمے دار تھے، حزب اختلاف میں پہنچنے پر ان کو حکومت وقت کے سر منڈھ دیتے ہیں‘ اور لوگ ان کے پیچھے بھی چل پڑتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بہت سی صورتوں میں یہ ان حکومتوں اور سربراہوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
حکومت نصف مدت گزار چکی۔ اس عرصے میں بہت سے پرجوش حامی بڑے نقاد بن چکے۔ جو پہلے صرف نقاد تھے وہ اب کف در دہاں، خنجر بدست مخالفوں میں تبدیل ہوچکے۔ سابقہ ادوار کی نسبت اس دور کی خصوصیت سوشل میڈیا بھی ہے اور تیز ترین ترسیلی ذرائع بھی۔ سو اس تمام ترروایت میں ایک نئے محاذ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ روز نئی ویڈیوزاور خبریں تخلیق ہوتی اور پھیلتی ہیں۔ یہ خبریں اور الزامات بیشتر سرسری نگاہ سے دیکھنے پر بھی فیک نظر آجاتے ہیں۔ چند ایک تحقیق کے بعد بے بنیاد نکلتے ہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سچ ثابت ہونے والی چیزیں محض چند ایک ہوتی ہیں اور جو غلط ہے وہ بہرحال غلط ہے؛ چنانچہ اس کی تاویل اور دفاع کرنا بھی غلط ہے۔
یہ بات دہرانے کی ہر کچھ دن بعد ضرورت پیش آ جاتی ہے کہ میں ایک عام آدمی ہوں۔ میرا بھی آمد اور خرچ کا توازن مشکل سے بنتا ہے۔ ضرورت کی چیزیں گزشتہ دور سے کئی گنا مہنگی دیکھ کر خون میرا بھی جلتا ہے۔ حکومتی ٹیم میں کئی لوگوں کی نااہلی اور کارکردگی دیکھ کر شدید تکلیف مجھے بھی ہوتی ہے۔ یہ کالم نگار نہ ان لوگوں میں ہے‘ جنہوں نے عمران خان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کی تھیں اور نہ اس گروہ میں جسے خان صاحب اور پی ٹی آئی سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ میں اس قبیلے میں بھی شامل نہیں ہوں جو کرکری دال کو جارحانہ پن کا مصالحے دار تڑکا لگا کر پیش کرنا سودا بیچنے کا اچھاطریقہ جانتا ہے اور اس ابوالوقت ٹولے میں بھی نہیں جنہیں ہر دور میں حکومت کی حمایت سے کسی اعزاز و منصب کی امید ہوتی ہے۔ وہ طمانیت جو ملک اور قوم کو آسودہ دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے، ہر اس ترغیب سے بالاتر ہے۔ اس لیے دل کی بات یہ ہے، خواہ اس پر کتنا ہی مطعون کیا جائے کہ حکومت وقت کے بہت سے دور رس اقدامات قابل تعریف ہیں اور یہ بات الگ قابل داد ہے کہ بعض ان مسائل پر ہاتھ ڈالا گیا ہے جنہیں بہت مضبوط حکومتیں بھی چھیڑتے ہوئے ڈرتی تھیں۔ حکومت کے ہر قدم کی تعریف نہیں ہوسکتی لیکن ہر قدم کی مخالفت بھی مجرمانہ فعل ہوگا۔ اس کی تفصیل کسی اور کالم میں سہی۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ایک بار پھر سوچ سمجھ لیجیے۔ ایسا نہ ہوکہ یہ دور گزرنے کے بعد ایک بار پھر جب آپ سڑکوں پر آئیں تو ایک پرانا گانے کے بول ایک نئی تصویر کے نیچے لکھے ہوں۔ ابھی فیصلہ نہ کیجیے کہ ابھی راستے کے درمیان میں ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved