تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-02-2021

نئی زندگی کی طرف؟

کورونا کی وبا سے لڑتے اور اُس کے ساتھ جیتے ایک سال گزر چکا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتوں نے کورونا ایس او پی کے نام پر جو کچھ بھی (پسندیدہ و ناپسندیدہ) متعارف کرایا‘ نافذ کیا اُس کا بڑا حصہ اب معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے شعور کی سطح بلند ہوئی ہے۔ لوگ متعدّی امراض سے بچنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر صحتِ عامہ کا معیار بلند نہ ہوا تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ کوئی بھی بڑی وبا پھیل کر بڑے پیمانے پر آبادیوں کا صفایا کرسکتی ہے۔ کورونا وائرس اور اُس کی وبا کے حوالے سے بعض معاملات اب تک پُراسرار ہی ہیں مگر اس کے باوجود یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ دنیا کو بدلنے کے عمل میں تیزی لائی جارہی ہے اور کورونا کا معاملہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہی ہے۔ دنیا کو ایک نئی طرزِ حیات‘ بلکہ ایک نئی زندگی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ جو کچھ محض مشوروں اور تجاویز سے نہیں ہو پاتا وہ بالآخر جبر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران جو کچھ ہمیں دکھائی دیا ہے‘ جاننے کو ملا ہے اُس سے بہت حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں پوری دنیا کے معاملات ہیں وہ اس دنیا کو اب ویسی نہیں رہنے دیں گے جیسی وہ کئی صدیوں سے رہتی آئی ہے۔ بہت کچھ بدلنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ ''نظریۂ سازش‘‘ کے کاندھے پر سوار ہوکر یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ جو نئی دنیا معرضِ وجود میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ لازمی طور پر بُری ہی ہوگی اور ہمارے خوابوں کو چکناچور ہی کرے گی۔
دنیا کو بدلنا لازم بھی تو ہو ہی چکا ہے۔ وسائل پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی رفتار دیکھتے ہوئے کیا ترقی یافتہ اور کیا پس ماندہ سبھی ریاستیں پریشان ہیں کہ اپنے باشندوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ پورے سکون اور وقار کے ساتھ برقرار رکھنے کی کیا سبیل کریں۔ آبادی میں اضافے نے معاشروں میں فکر و نظر کی پیچیدگیاں بھی بڑھادی ہیں۔ ریاستی وسائل پر تصرف کی جنگ نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ریاستوں میں اقتدار کی رسّا کشی نے سیاسی جماعتوں کو سارے نظریات اور آدرش بالائے طاق رکھ کر پریشر گروپس میں تبدیل ہونے کی راہ سُجھائی ہے۔ اقتدار کے ماخذ تک رسائی کی جدوجہد نے اب چھینا جھپٹی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اصولوں کی بات کرنے والوں کو عقل سے عاری سمجھا جانے لگا ہے۔
سوال صرف سیاسی پیچیدگیوں کا نہیں‘ معاشرتی الجھنوں کا بھی ہے۔ لوگوں کے آپس کے تعلقات خطرناک حد تک الجھ گئے ہیں۔ رشتوں اور تعلقات سے اقدار تک سبھی کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تمام معاملات گھوم پھر کر خالص مفاد پرستی کے چوراہے تک پہنچ جاتے ہیں۔ انفرادی سطح پر عدم تحفظ کا احساس مایوس کن حد تک شدت اختیار کرچکا ہے۔ بے یقینی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں انفرادی سطح پر ترقی و خوش حالی بہت دور کی منزل ہے۔ معاملات اب تک دو وقت کی روٹی کا حصول یقینی بنانے کے مرحلے میں اٹکے ہوئے ہیں۔
آنے والی نسلوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ حرکت پذیری کا ہے۔ دنیا بھر میں حرکت پذیری غیر معمولی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کے نتیجے میں ایندھن کے ذخائر پر دباؤ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی بھی تیزی سے جاری ہے جس کے نتیجے میں چھوٹے شہر بڑے ہوتے جارہے ہیں اور نئے شہر بسانے کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بڑے شہروں میں لوگوں کو کام پر جانے کے لیے روزانہ تیس چالیس کلو میٹر تک سفر کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف تو قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے یعنی ایندھن وغیرہ ضائع ہوتا ہے اور دوسری طرف روزانہ کم و بیش ڈیڑھ ارب افراد کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور سفر کی صورت میں بے جا تھکن کے ہاتھوں توانائی بھی برباد ہوتی ہے۔
آنے والی نسلوں پر (متوقع طور پر) مرتب ہونے والے دباؤ کا گراف نیچے لانے کے لیے لازم ہوچکا ہے کہ بڑے شہروں کو مزید پھیلنے سے روکا جائے اور دیہی علاقوں میں بھی معاش کے بہتر ذرائع کا اہتمام کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی حرکت پذیری بھی کم کی جانی ہے یعنی یہ کہ وہ یومیہ بنیاد پر غیر ضروری سفر نہ کریں۔ اگر کوئی کام گھر سے کیا جاسکتا ہے تو گھر پر رہتے ہوئے ہی کیا جائے۔ صنعت کاروں کو اس حوالے سے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں فقید المثال ترقی نے لکھت پڑھت سے متعلق بہت سے‘ بلکہ بیشتر کام گھر بیٹھے کرنے کی سہولت پیدا کردی ہے۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں افراد غیر ضروری یومیہ سفر ترک کرکے گھر سے کام کر رہے ہیں۔ ''ہوم بیسڈ ورک‘‘ کا تصور تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے تاکہ لوگوں کی حرکت پذیری کم ہو اور وہ بے جا طور پر روزانہ اِدھر سے اُدھر نہ جائیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ لوگ گھروں تک محدود رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی عادت پروان چڑھائیں۔ معمولات میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی انقلابی نوعیت کی ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی ایک ارب سے زائد افراد یومیہ بنیاد پر اچھا خاصا غیر ضروری سفر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی اپنا کام مکمل کرکے تیارہ شدہ آئٹم کو کسی بھی ذریعے سے منزل تک بھجواسکتا ہے مگر یہ سب معمول کا حصہ نہ ہونے کے باعث یومیہ بنیاد پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر دنیا میں آجروں کو یہ بات سکھانے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز کام ہے‘ کسی کی شکل دیکھنا نہیں۔ لازم نہیں کہ کوئی سامنے بیٹھ کر کام کرے۔ غرض کام سے ہونی چاہیے‘ حاضری سے نہیں۔ اگر کوئی روزانہ پندرہ بیس کلو میٹر کا سفر کرکے کام پر آئے گا تو اُس کی نصف توانائی سفری صعوبت کی نذر ہوچکی ہوگا۔ کیا بُرا ہے اگر انسان گھر بیٹھے زیادہ اور بہتر کام کرے؟ اس حوالے سے حکومتیں ذہن سازی کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔
کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں گھر بیٹھے کام کرنے کے تصور کو پروان چڑھانے اور مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں خاصا حوصلہ افزا کردار ادا کیا ہے۔ علم سے مزیّن کوئی بھی کام گھر بیٹھے زیادہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ تدریس کا عمل بھی بہت حد تک گھر پر رہتے ہوئے کیا جاسکتا ہے اور کیا جارہا ہے۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں اربوں افراد کو باور کرایا ہے کہ اُن کے معمولات میں اچھی خاصی حرکت پذیری بلا جواز اور لاحاصل ہے۔ بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے معمولی سی حرکت پذیری سے بھی اچھی طرح کام کیا اور کرایا جاسکتا ہے۔ صنعتی عمل میں بھی یہ تصور بہت حد تک اپنانا زیادہ دشوار نہیں۔ گھریلو صنعتیں اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سوال صرف آجروں کی سوچ کو بدلنے اور محنت کشوں کو نئی زندگی کے لیے اچھی طرح تیار کرنے کا ہے۔
کورونا کی وبا نے ''بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ والا کام کر دکھایا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کا ڈھانچا بدلنے کی ضرورت خاصی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس حوالے سے ریاستی سطح پر جو کچھ کیا جارہا ہے اُس سے معاشی سرگرمیوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور بہت سوں کے لیے صورتحال خاصی ناموافق ہے تاہم اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ نئے انداز کی معاشی سرگرمیاں ایسی آسانیاں بھی پیدا کر رہی ہیں جن کا کل تک صرف خواب دیکھا جاسکتا تھا۔ روزانہ کام پر جانے اور واپس آنے ہی میں انسان کھپ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ قابو میں آنا چاہیے۔ کورونا کی وبا نے انسان کو بجٹنگ کی طرف بھی مائل کیا ہے۔ لاک ڈاؤن نے آمدن گھٹائی ہے تو اخراجات بھی گھٹائے ہیں۔ اچھا ہے کہ جن لوگوں نے اب تک بجٹنگ کو درخورِ اعتنا نہیں گردانا وہ بھی اب سنجیدہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ اکیسویں صدی ہم سے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی سطح پر بہت کچھ چاہتی ہے۔ آج کئی شعبوں میں مہارت رکھنے والوں کا بول بالا ہے۔ کورونا کی مہربانی سے اگر معیشت و معاشرت کی تطہیر ہو جائے تو کیا بُرا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved