سابق صدر پرویز مشرف اپنے دور میں ملکی صورتحال کو آئیڈیل قراردیتے تھے۔ ان کے خیال میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔اس کی کئی وجوہات تھیں۔ سائیکل والے کے پاس موٹر سائیکل اور موٹرسائیکل والے کے پاس گاڑی آ گئی۔ آٹھ سو سی سی والا اٹھارہ سو سی سی کے مزے لینے لگا ۔ جس کی تنخواہ دس ہزار تھی اس کے پاس بیس ہزار کا موبائل آ گیا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست تھیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ ملک میں مڈل کلاس بھی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ جرائم میں بھی اضافہ ہورہا تھا ۔دہشت گردی نے بھی سوگوار کر رکھا تھا اور ہر آدمی کو یہی نظر آ رہا تھا کہ اس کے لئے دو وقت کا چولہا جلانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ چنانچہ ہر شخص یہی کہنے پر مجبور تھا کہ یہ کتنا خراب دور ہے۔ ایسے میں صدر مشرف نے یہ فرمان جاری کیا کہ جو لوگ ان کے دور کا مذاق اُڑا رہے ہیں انہیں میرا دور اور اس کی ترقی بہت یاد آئے گی۔ ان کا یہ فرمان کسی لطیفے سے کم نہ تھا لیکن ہوا کیا؟ پیپلز پارٹی کا دور آیا۔ دن ہفتے ‘ہفتے مہینے اور مہینے سالوں میں بدل گئے۔ جب مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی‘جب ڈاکٹرسڑکوں پر آ گئے اور جب آٹے کی قطاروں میں لگی اٹھارہ اٹھارہ معمر غریب عورتیں دم گھٹنے سے مرنے لگیں تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگا اُٹھے۔ اتنا بُرا دور؟ اس سے تو پچھلا دور ہی بہتر تھا۔ جی ہاں۔ یہی لوگ جو سابق دور کو بُرا کہتے تھے اب موجودہ دور سے تنگ آ چکے تھے۔ سی این جی کی لمبی لائنیں‘ بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ‘ دہشت گردی‘ کرپشن اورتباہ حال معیشت وہ بڑے بڑے تحفے تھے جو عوام کو ووٹوں کے بدلے ملے۔ سب کو یہی دکھائی دینے لگا کہ یہ دور بُرا ترین ہے اور اگر نواز شریف کی ’’کاروبار دوست‘‘ حکومت آ گئی تو حالات بدل جائیں گے ‘ دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی اور پیپلزپارٹی سے جان چھوٹتے ہی ان کے گھروں میں امن و سکون ہو جائے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ نئی حکومت آگئی اور اس کو بنے ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں کہ میں نے اپنے ایک دوست جو ن لیگ کا پکا ووٹر ہے ‘ سے یہ جملہ سنا ’’ یار ! اس سے تو پچھلی حکومت ہی اچھی تھی‘‘ ۔ خرابی ہے کہاں؟ عوام میں یا حکمرانوں میں؟ ہم لوگ صحیح حکمران نہیں چنتے یا حکمران صحیح حکمرانی نہیں کر رہے ؟ اگر ن لیگ کے ووٹر صرف ایک مہینے کے اندر ہی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس سے تو پچھلی حکومت اچھی تھی تو پھر باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا۔ ایک ملین ڈالر سوال کہ اس سارے منظر نامے میں تحریک انصاف کہاں ہے؟ اگر بجٹ میں جی ایس ٹی بڑھانے سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں تو پھر یہ چیخیں عمران خان صاحب کو کیوں سنائی نہیں دے رہیں؟ اگر وہ میاں نوا زشریف کو فرینڈلی اپوزیشن کا الزام دیتے رہے ہیں تو ان کی اس اپوزیشن کو کیا کہا جائے جو عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے ڈرون حملوں پر خاموش دکھائی دیتی ہے؟ میں صرف دو مسئلوں کی طرف اپوزیشن اور عدلیہ کی توجہ دلائوں گا کہ حکومت کو متوجہ کرنے کا فائدہ اس لئے نہیں کہ اس نے جو کرنا ہے وہ کر کے رہنا ہے۔ سابق دور میں حکومت پنجاب نے ہزار سی سی سے کم گاڑیوں پر 10ہزار روپے لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ چند دنوں میں ادائیگی کر دیں ورنہ گاڑیاں تھانوں میں بند ۔ شاید حکومت کو معلوم ہے کہ ہزار سی سی سے کم کی گاڑیوں والے طبقہ پر زور زبردستی کرنا آسان ہے چنانچہ ایکسائز افسران سڑکوں پر ناکے لگا کر کھڑے ہو گئے اور فیملیوں سمیت گاڑیوں کو تھانوں میں لے گئے۔ مزید بے عزتی سے بچنے کے لیے چاروناچار لوگوں نے ادائیگی کی۔ آج جب وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت بن چکی تو ایک خبر یہ سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی ایک ہزار سی سی سے کم گاڑیوں پر 7500روپے لائف ٹائم انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ یعنی مرے ہوئے کے سر پر ایک اور ہتھوڑا مارنے کی کوشش۔ جو لوگ بجلی کے بل نہیں دے پا رہے‘ جو بچوں کی فیسیں اور اشیائے خوردنی افورڈ نہیں کر سکتے ،وہ دس ہزار صوبائی حکومت اور آٹھ ہزار وفاقی حکومت کے لیے یکدم کہاں سے لائیں؟ مجھے ن لیگ کے اس پکے ووٹر کی بات اب سمجھ میں آ چکی ہے کہ وہ کیوں اتنی جلدی باغی ہو گیا ہے۔ دوسرا ظلم عوام کے ساتھ بجلی کے محکموں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ لوڈشیڈنگ کب ختم ہو گی؟ سوال یہ ہے کہ جو بجلی مل رہی ہے وہ تو عزت کے ساتھ دی جائے۔ جو محکمہ بجلی دے رہا ہے وہ عوام کے ساتھ اچھا سلوک تو کر لے۔ لائن مین اور میٹر ریڈر سے لیکر ایکسیئن تک سب نے عوام کو عذاب میں مبتلا رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کئی ایکسیئن دہری شہریت رکھتے ہیں۔ ان کی پانچوں گھی میں ہیں۔ حکومت تین سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرے یا پانچ سال میں ‘ عوام کو اس سے اتنا سروکار نہیں جتنا اس بات سے ہے کہ میٹر ریڈر دو چار سو یونٹ فالتو ڈالنے سے باز آ جائے۔ وہ چاہتے ہیں محکمہ ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئے۔ وہ جب لیسکو کے دفتر جائیں انہیں جانوروں کی طرح ٹریٹ نہ کیا جائے۔ ان کی بات عزت سے سنی جائے۔میں یہ کیس اپوزیشن اور سپریم کورٹ کے لیے چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر نوٹس لیں اورعوام کو ریلیف پہنچائیں۔ لیسکو کی ویب سائیٹ پر صارفین کے لیے ایک مینوئل موجود ہے جس کے چھٹے باب میں چند ایسی باتیں موجود ہیں جن پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ میٹر ریڈر پر لازم ہے کہ وہ جب میٹر ریڈنگ لینے جائے تو گھر کے مالک کی موجودگی میں ریڈنگ نوٹ کرے ۔ اپنے پاس رجسٹر میں ان کے دستخط کروائے اور ایک کارڈ صارف کو دے جس میں ریڈنگ لکھی جائے اور ساتھ ہی میٹر ریڈر وہاں بھی دستخط کرے۔ اگر اس طرح ہو تو میٹر ریڈر کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ جا کر فالتو ریڈنگ ڈال دے کیونکہ وہ صارفین کے ریکارڈ میں خود ہی لکھ کر آیاہوگا۔ یہ کروڑوں لوگوں کا مسئلہ ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ یہ سب کچھ اس مینوئل میں درج ہے جو 1997ء کے پاور ایکٹ اور 1999ء کے نیپرا لائسنسنگ رولز کے تحت تحریر کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس اصول پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا اور ہماری اپوزیشن اور سپریم کورٹ اس کا نوٹس کب لے گی؟ میں قارئین کی سہولت کیلئے یہ شق درج کر رہا ہوں۔ CHAPTER 6 METER READING AND BILLING 6.1 METER READING (c) Meter readings are taken preferably in the presence of customers or their authorized representatives. Following are noted: i) Date of reading ii) Meter Reading/MDI iii) Units consumed during the month iv) Append their initials. v) Their remarks in case of any discrepancy observed Meter reading officers/meter readers shall return the Consumer Meter Reading Cards to the consumers before leaving their premises. اگر یہ ایک کام ہی کر لیا جائے تو عوام کو بہت زیادہ ریلیف مل جائے گا۔ لیکن کرے گا کون؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved