جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے فرمایا تھا کہ نریندر مودی اپنے ہاتھوں سے بھارت کو تباہ و بربا د کر دے گا۔ آج ان کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہو چکی ہے۔ بلاشبہ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں دنیاکی نام نہاد بڑی جمہوریت، آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بھوک، افلاس اور وسائل کی عدم دستیابی سے بے حال کروڑوں بھارتیوں کے وزیر اعظم پر خطے کی تھانیداری کا بھوت سوارہے۔ لوگ کورونا سے مر رہے ہیں، بھارت کا ہٹلر مودی کھربوں ڈالر دفاعی سودوں میں جھونک رہا ہے۔ نریندر مودی خود کو ''اشوکا ایمپائر‘‘ کی طرف لے کر جا رہا ہے جس کا مرکز ٹیکسلا تھا۔ دراصل بی جے پی ہتھیاروں کے ڈھیر جمع کر کے اکھنڈ بھارت اور ''رام راجیہ‘‘ کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے جبکہ علاقے کو برہمنوں کا گڑھ بنانے کے مودی کے مذموم منصوبے کی را ہ میں پاکستان ہی سیسہ پلائی دیوار ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے دس سالوں میں بھارت نے ہتھیاروں کی خرید اری میں 24فیصد کا اضافہ کیا ہے اس کا دفاعی بجٹ 60 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسری جانب فروری 2019ء کا بھارتی ''پلوامہ ڈرامہ ‘‘ اب بے نقاب ہو چکا ہے، صرف دو سال کے عرصے میں ثابت ہوچکا کہ مودی نے سیاسی فائدے کیلئے اپنے فوجیوں کو قتل کروایا تھا۔ پاکستان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے مودی کی سیاسی چال قرار دیا۔ پلوامہ حملے سے ستائیس فروری تک جوہوا‘ وہ مودی سرکار اور گودی میڈیا کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے۔ بھارت کے ناقص و کمزور دفاعی نظام کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے، اس کی ایئرفورس کی پتلی حالت اور ناکارہ طیارے مودی حکومت کی جگ ہنسائی کا باعث بن گئے ہیں۔ یہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دینے والے بھارتی ''سورمائوں‘‘ کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ عالمی میڈیا نے بھی بھارت کو کاغذی شیر قراردے دیا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کی فوجی طاقت زوال کا شکار ہوئی ہے۔ بھارتی فضائیہ اس وقت 42 سکواڈرن کے ساتھ کام کررہی ہے جن میں سے صرف 31 میدان میں آ سکتے ہیں۔ مگ 21 جیسے جہاز جو 1964 ء کے دوران بھارتی فضائیہ میں شامل ہوئے‘ اور جنہیں سالوں پہلے گرائونڈ ہو جانا چاہیے تھا، اب تک بھارتی فضائیہ کے زیرِ استعمال ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا جے ایف تھنڈر17 فخرِ پاکستان ہے۔ ، نیز جنگیں محض اسلحے کے زور پر نہیں‘ حوصلے سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ ابھینندن کو بھارت یاد رکھے کہ پاکستان کے شاہینوں نے بھارتی گیدڑوں کے طیارے کو کس طرح مار گرایا تھا۔ 26 فروری 2019ء کو بالاکوٹ میں جابہ کے مقام پر جو ہوا‘ اسے بھارتی وزیراعظم مودی کا انتخابات کے حوالے سے ایک کرتب کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ نام نہاد بالا کوٹ ایئر سٹرائیک کے لیے صرف آدھ گھنٹے میں 2 بلین ڈالر ضائع کردیے گئے۔ امریکا کے ایک جریدے کی ایک رپورٹ Why Indian Air Force is dying? کے مطابق‘ بھارت میں جنگی جہازوں کی خریداری غیر موثر، نا اہلی اور افسر شاہی کا شکار ہے۔ بھارتی فضائیہ کے روسی ساختہ مگ طیاروں کو Flying Coffin یعنی اڑتے تابوت اور ''ودھوا ویمان‘‘ یعنی بیوہ بنانے والے طیاروں کا نام دیا جاتا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ ''بھارت کے جنگی جہاز کیوں آئے دن گرتے اور تباہ ہوتے رہتے ہیں؟‘‘میں کہا گیا کہ بھارت کے 872 مگ طیاروں میں سے آدھے جہاز حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔ دنیا کی چوتھی بڑی فضائیہ کے پاس 2 ہزارلڑاکا طیاروں میں سے صرف 60 فیصد اڑان بھرنے کے قابل ہیں۔ اس وقت بھارتی فوج میں کرپشن عروج پرہے۔ توپوں کی خریداری میں راجیو گاندھی کے بوفورس سکینڈل اور حالیہ تیجا سکینڈل نے بھارتی فضائی برتری کا پول کھول دیا ہے۔ مودی حکومت نے اپنی ایئر فورس کو ساڑھے 400ارب کا چونا لگا تے ہوئے بھارتی نیوی کے منع کرنے کے باوجود ہندوستان ایرو ناٹکس کمپنی کے ساتھ 6.25بلین ڈالر کا معاہدہ کرتے ہوئے اسے تیجا طیارے خریدنے پر مجبور کیا۔ مگ کی جگہ بھارت نے تیجا طیارے متعارف کروائے کیونکہ مگ حادثات میں 170 پائلٹ ہلاک اور متعدد شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں؛تاہم مسئلہ یہ ہے کہ تیجا طیاروں کو بھارتی نیوی پہلے ہی تکنیکی مشکلات کی وجہ سے مسترد کر چکی ہے اور اب بھارتی فضائیہ نے بھی تیجا طیارے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ 60فیصد طیارے پہلے ہی گرائونڈ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کو بیچے جانے والے رافیل لڑاکا طیاروں کی ڈیل میں فرانس کے سابق صدر فرانسس اولاندے نے مودی کی کرپشن کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اس میں بھارتی وزیر اعظم کے دوست انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کا خاص کرداررہا۔ بھارتی جریدے ٹیلی گراف انڈیا نے انکشاف کیا کہ 2016 ء کی رافیل ڈیل کے مطابق ایک طیارے کی قیمت 670 کروڑ بھارتی روپے تھی، بعدازاں مودی کا بینک اکائونٹ کہلائے جانے والے انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کو اس ڈیل میں شامل کیا گیا تو حیران کن طور پر ایک طیارے کی قیمت 670 کروڑ سے بڑھ کر 1640کروڑ روپے ہو گئی۔ اس پر بھارتی اپوزیشن اور اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکار نے بھی آواز اٹھائی مگر انہیں وزارت دفاع سے فارغ کردیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا نے پاکستان کی دفاعی قوت کو بھارت سے برتر قرار دیا ہے۔ پاکستان کے 2400 ٹینکوں کے مقابلے میں بھارت کے پاس 3500 ٹینک ہیں جن میں سے ایک ہزار روسی ساختہ ٹی نائنٹیز بھی ہیں۔ بھارت نے دیسی ساختہ ٹینک ارجن بنانے میں تین دہائیاں ضائع کردیں مگر یہ ٹینک زیادہ لاگت، وزن اور مکینیکل ناکامی کاشکار ہو گیا۔ اب بھارت روس سے جدید 14 ارماتا ٹینک خریدنے کیلئے منت سماجت کر رہا ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ڈرونز پر کام کر رہا ہے جس کے پارٹس مقامی طور پر تیار کئے جائیں گے۔ پاکستان اسلحے کی خریداری کے بجائے اسلحہ سازی کی طرف گامزن ہے جس میں خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ جے ایف تھنڈر 17 فائٹر جہاز برآمد بھی کررہا ہے جو بھارت کے جدید رافیل طیاروں سے کارکردگی میں کہیں آگے اور قیمت میں قدرے سستے ہیں۔ پاکستان نے اسلحہ کے معیار‘ اس میں خودکفالت اور افواج کی مہارت کو اپنے دفاع کا بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ عددی اعتبار سے پاکستان کی افواج کا دسواں اور بھارت کا چوتھا نمبر ہے لیکن اگر مقابلے اور کارکردگی کی بات کی جائے تو ہر محاذ پر پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ بے شک جنگیں محض اسلحے کے زور پر نہیں لڑی جاتیں۔ ہمارے دشمن کو پاک فوج کی صلاحیتوں کا علم ہونا چاہیے پاکستان کے کروڑوں عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پاک افواج جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے بھی نبردآزما ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بحریہ کی حالیہ امن مشقوں نے دشمن کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ ادھر چین کے ہاتھوں درگت اور لداخ میں ہزیمت نے بھارتیوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے، کشمیر میں تعینات انڈین فوجی روزانہ کی بنیاد پر خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے والے درندہ صفت اس وقت خود اپنی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پن ہندو بنیے کا وتیرہ رہا ہے‘ وہ اپنی سبکی چھپانے کیلئے اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے لیکن اپنے سپاہیوں کو دو وقت کا کھانا دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان اور چین کے خوف میں مبتلا 9000سے زائد افسران اور فوجیوں کی جانب سے قبل از وقت ریٹائر منٹ انڈین آرمی کی ذہنی پستی کا واضح ثبوت ہے۔ دہلی کے حکمرانوں نے گزشتہ دس برس میں نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کی خریداری میں سو ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیے ہیں۔ اپنے قیام سے اب تک بھارت جارحیت اور غصب کی پالیسی پر گامزن رہا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اگرچہ پاکستان کے خلاف بھارتی بالادستی کے خواب کی تعبیر حسرت ِغم اور یاس کے سوا کچھ نہیں؛ تاہم عالمی طاقتوں کو برصغیر میں امن و امان کی صورتحال کو روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا چاہئے اور دفاعی سامان اور اسلحہ کی خرید و فروخت کے معاہدے کرتے وقت خطے میں امن اور انسانیت کی بقا کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔