تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     23-02-2021

صدر جو بائیڈن اور پاکستان

جو بائیڈن کی صدارت دنیا اور ہمارے اپنے ملک کیلئے کیا فرق لائے گی؟ اس سوال کے جواب کیلئے یہ سمجھنا ہو گا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صدارتی امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا وعدے کرتا رہا تھا‘ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہو جانے کے بعد فرد نہیں رہتا ایک ادارہ بن جاتا ہے اور امریکہ کی تاریخ‘ طاقت اور مفادات نے اس کی خارجہ پالیسی کی جو تشکیل کی ہے یہ ادارہ اسی کے مطابق چلتا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟ یہ جاننے کا آغاز امریکہ کے دنیا میں ایک عالمی طاقت کے طور پر مقام کو دیکھنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسے محض آدھی درجن الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے: امریکی مفادات‘ عالمی طاقت اور ذمہ داریاں۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وائٹ ہاؤس میں کون ہے‘ امریکہ دنیا بھر میں امن و سلامتی کے تقریباً تمام معاملات میں براہ راست یا بالواسطہ سٹیکس کے ساتھ ایک جیسے عالمی مفادات رکھتا ہے۔ اس طرح ہر صدر کے ماتحت خارجہ پالیسی کے اہداف یکساں رہتے ہیں‘ لیکن بائیڈن کو کچھ اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ اپنے پیشرو ٹرمپ کی میراث کا بوجھ۔ گہری داخلی تقسیم کو کم کرنے کے علاوہ انہیں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے چہرے سے ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے کچھ داغ بھی دور کرنا ہوں گے۔ تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ٹرمپ کے پاس اس خطے کیلئے مجموعی طور پر کبھی بھی کوئی سوچی سمجھی حکمتِ عملی نہیں رہی‘ یہاں تک کہ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کی تنازعات پر مبنی میراث کے اصل محرکات کو بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ٹرمپ کے نزدیک بھارت محض ایک بڑی مارکیٹ تھی۔ وہاں ٹرمپ نے اپنے ہی جیسے شخص کو موجود پایا 'گجرات کے قاتل‘ مودی کو۔ فکری اور اخلاقی لحاظ سے دونوں ہی انسانی حقوق اور انصاف کے کسی بھی احساس سے عاری تھے۔ ہمارے خطے کے تناظر میں‘ بھارت امریکہ سٹریٹیجک گٹھ جوڑ ہر امریکی صدر کے جنوبی ایشیا کے بارے میں وژن کو دھندلا چکا ہے۔ تاریخی طور پر‘ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود ایک کے بعد ایک امریکی انتظامیہ پاکستان جیسے ثابت قدم اتحادی کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہی۔ امریکہ نے ہمیشہ بھارت کی حمایت کی‘ ایک ایسا ملک جو زیادہ تر سوویت بلاک میں رہا‘ جبکہ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی اور بقا کیلئے چین کا رخ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ جو چیز پاکستان کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ اس کے جائز سکیورٹی خدشات اور حساسیت سے امریکہ کی مسلسل عدم توجہی ہے۔
اگر اس خطے کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ سے کوئی سبق حاصل ہوتا تو یہ کہ اس خطے میں واشنگٹن کے توجہ مرکوز کرنے کا مقصد یہاں کے سٹریٹیجک توازن کو خراب کرنے کے بجائے اسے فروغ دینا ہونا چاہئے تھا‘ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس‘امریکہ نے 2008ء میں بھارت کے ساتھ امتیازی جوہری معاہدہ کیا جس سے اس خطے کی پہلے سے ہی غیر مستحکم سکیورٹی صورتحال میں ایک بدنما جہت کا اضافہ ہو گیا۔ صدر بائیڈن کو پاک بھارت مضطرب جوہری مساوات سے معاملات کرنے میں برابری کے عنصر کو یقینی بنانا ہوگا۔ بائیڈن کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ افغانستان پاکستان کی وجہ سے ابتری کا شکار نہیں‘ یہ سب دوسری معلوم وجوہات کے سبب ہے۔ پاکستان کا اس معاملے میں اگر کوئی کردار ہے تو صرف یہ کہ وہ اس کے حل کا حصہ ہے‘ مسئلے کا نہیں۔ بائیڈن اس بات کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ افواجِ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ دہشتگرد گروہوں کو شکست سے دوچار کیا اور اس افغان امن معاہدے میں سہولت فراہم کی‘ طویل عرصے سے جس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ صدر ٹرمپ کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اپنے دورِ صدارت کے آخری سال میں انہوں نے یہ احساس کر لیا تھا کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔
دوحہ معاہدے میں افغان امن عمل کیلئے پاکستان کے کردار اور اس کے اس معاملے سے متعلق ہونے کی اہمیت اور تاثیر بالکل واضح تھی۔ یہ ایک تاریخی پیشرفت تھی جس کے تحت درست سمت میں پہلا قدم اٹھایا گیا۔ عمران خان ٹھیک کہتے تھے کہ افغانستان میں امن صرف مذاکرات کے ذریعے ہی آئے گا۔ افغانوں کو اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ باہمی احترام اور مفاہمت پر مبنی ایک مساوی اور وسیع البنیاد امن عمل ہے جس میں سارے سٹیک ہولڈر شامل ہوں اورافغان عوام کی آزادی اور انصاف کی امنگوں کی عکاسی ہوتی ہو۔لیکن افغان سیاق و سباق میں باتیں کرنا آسان ہے‘ عملی اقدامات مشکل۔ اس خطے میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو افغانستان میں حقیقی امن کے حوالے سے بداندیش ہیں۔ ان قوتوں کی عدم استحکام پیدا کرنے کی اہلیت ختم کرنے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ خاص طور پر بھارت کو پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ بلاشبہ افغان ٹریجڈی کے خاتمے میں نئے امریکی صدر کا ایک اہم کردار ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے پیشرو کی طرح بائیڈن بھی ایک محدود انسداد دہشتگردی فورس یہاں رکھنا چاہیں گے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان پرانہیں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی۔جنوبی ایشیا کے خطے کو مستحکم امن کی ضرورت ہے۔ اس کو بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی ضرورت ہے نہ کہ قائدانہ عزائم کے استمرار کی‘ جو تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ جب تک کشمیر بھارتی قبضے میں رہے گاجنوبی ایشیا میں امن مبہم رہے گا۔ نئے امریکی صدر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیر کیلئے ایک ہی منصفانہ‘ انصاف پسندانہ‘ قانونی اور اخلاقی حل ہے‘ وہی جو اقوام متحدہ نے فراہم کیا تھا اور جو سلامتی کونسل کی قراردادوں میں پاکستان اور بھارت‘ دونوں نے باہمی رضامندی سے قبول کیا تھا۔ بدقسمتی سے‘ اپنی تاریخ کے زیادہ تر عرصے میں اس مبہم ریلیشن شپ میں تسلسل قائم نہیں رہ سکا۔ پھر ایک بڑے نظریاتی فریم ورک اور محض ایشوز کی بنیاد پر قائم کی گئی ترجیحات سے بالاتر شیئرڈ وژن کا بھی فقدان ہے۔ تاہم اتار چڑھاؤ کے باوجود یہ تعلق بنیادی طور پر مستحکم رہا ہے اور کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کے کچھ اہم مفادات کو پورا کرتا رہا ہے۔
آج پاکستان کیلئے خصوصی تشویش کی بات واشنگٹن کی چین کے حوالے سے پالیسی ہوگی۔ چین پاکستان کا سب سے قابل اعتماد‘ ثابت قدم دوست ہے۔ درحقیقت یہ دوستی ایک مثالی رشتہ ہے جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں۔ جو بائیڈن کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہی تھی جو 1971-72ء میں امریکہ چین تعلقات کی تاریخی بحالی کا سبب بنی تھی۔جو بائیڈن پاکستان کو بخوبی جانتے ہیں‘ حقیقت میں وہی کیری لوگر بل کے اصل معمار تھے۔ اس کے علاوہ2007ء میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے جو بائیڈن نے پاک امریکہ تعلقات کی تشکیلِ نو پر زور دیا تھا۔ دوطرفہ سیاق و سباق کے تناظر میں‘ بائیڈن اور عمران خان کے افغان امن اور خطے کے دیگر اہم معاملات پر مل کر کام کرنے کے امکانات مثبت نظر آتے ہیں۔پاک امریکہ تعلقات کی ضرورت اب باہمی مفاد اور احترام پر مبنی نقطہ نظر کی ہے۔ مقصد اس اہم مساوات کو کمزور کرنا نہیں بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ سیاسی‘ معاشی اور سٹریٹیجک مشمولات کو استعمال کرکے مضبوط کرنا ہے۔ اب اسے ''لین دین‘‘ کا تعلق نہیں رہنا چاہئے اور تنازعاتی منظرنامے سے آگے جانا چاہئے۔ جاری نظاماتی اصلاحات کی کوششوں میں‘ خاص طور پر اپنے معاشرے کے تمام طبقات اور اس کے حکمران کیڈروں اور اداروں کی سطحوں سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں بائیڈن کو پاکستان کی حمایت کرنا چاہئے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved