تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     23-02-2021

پاک مصر تعلقات

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں مصر کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اُنہیں دورے کی دعوت اُن کے مصری ہم منصب سامح حسن شکری نے دی تھی۔ قاہرہ روانگی سے قبل قریشی صاحب نے کہا کہ مصر کے ساتھ تعلقات بڑھا کر ہم اپنی اکنامک ڈپلومیسی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک سال پہلے پاکستان نے نیروبی میں افریقی ممالک کیلئے ایک ٹریڈ کانفرنس منعقد کی تھی۔ پاکستان افریقہ کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانا چاہتا ہے۔ دوسری بات قریشی صاحب نے یہ کہی کہ مصر ملتِ اسلامیہ کا اہم رکن ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی وزرائے خارجہ کا سالانہ اجلاس اس سال اسلام آباد میں ہوگا۔
پاک مصر تعلقات میں کئی موڑ آئے ہیں۔ معرض ِوجود میں آنے کے وقت پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک تھا اور یہ امر دنیا کے دیگر مسلمان ممالک اور مسلم اقلیتوں کیلئے حوصلہ افزا تھا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر عبدالوہاب عزام مصر کے سفیر بن کر پاکستان آئے تو علامہ اقبال کے کئی اشعار کا منظوم عربی ترجمہ کیا‘ بعد میں ایک اور مصری ادیب صاوی علی شعلان نے شکوہ‘ جواب شکوہ کا منظوم ترجمہ ''حدیث الروح‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اس خوبصورت عربی کلام کو کوکبِ شرق اُمِ کلثوم نے گایا تو عرب عوام علامہ اقبال سے روشناس ہوئے۔مصر میں اُن دنوں بادشاہت تھی‘ ملک فاروق مصر کے بادشاہ تھے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ عربی زبان میں '' ملک‘‘ کے معنی بادشاہ کے ہیں‘ اسی طرح لفظ ''سید‘‘ عربی میں مسٹر کا مترادف ہے۔ مگر جب عرب میڈیا سیدہ اندرا گاندھی یا سید نہرو لکھتا تھا تو پاکستان میں یار لوگ بڑے خفا ہوتے تھے‘ اور ہاں پاکستان سے اُن دنوں جو بھی لیڈر یا عالم عرب دنیا جاتے تھے وہ قیامِ پاکستان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ ملک فاروق اس بات سے بڑے الرجک تھے‘ ایک روز انہوں نے طنزیہ انداز میں کہہ ہی دیا کہ ان کی باتوں سے لگتاہے اسلام کا دنیا میں نزول اگست 1947ء میں ہوا ہے۔
1952ء میں چند مصری فوجی افسروں نے بادشاہت کے خلاف بغاوت کی اور جنرل نجیب کی قیادت میں اقتدار پر قابض ہو گئے۔ دو سال بعد کرنل جمال عبدالناصر نے جنرل نجیب کو چلتا کیا۔ جمال عبدالناصر عرب نیشنلزم کے پرجوش حامی تھے۔ پابندِ صوم و صلاۃ تھے لیکن دین اور ریاست کو الگ الگ رکھنے کے حق میں تھے یعنی ذہنی طور پر سیکولر تھے۔ 1956ء میں نہر سویز کو جمال عبدالناصر نے مصر کی قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس نے مل کر مصر پر فضائی حملے کر دیئے۔ پاکستان مغربی دفاعی معاہدوں میں شامل ہو چکا تھا‘ پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے مصرپر حملے کے حق میں بیان دے دیا جو کہ فاش قسم کی غلطی تھی‘اس بیان سے پاک مصر تعلقات کو بہت نقصان پہنچا۔
1955ء میںبنڈونگ (انڈونیشیا) میں غیر جانبداری کے اصول طے کئے گئے۔ 1961ء میں بلغراد میں غیر جانبدار ممالک کی باقاعدہ تنظیم بنائی گئی‘ اصول یہ تھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کی دھڑے بندی سے دور رہ کر دنیا میں امن کا پرچار کیا جائے۔ جمال عبدالناصر‘ پنڈت جواہر لعل نہرو اور یوگو سلاویہ کے صدر ٹیٹو غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے سرکردہ لیڈر تھے‘ اب پاکستان اور مصر کی بین الاقوامی سیاست میں راہیں جدا تھیں۔ مصر اور انڈیا میں گہری دوستی ہو گئی۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قدیم مصر میں فراعین کی حکومت طویل عرصہ چلی۔ درجنوں فرعون بادشاہ گزرے ہیں۔ انہی کے عہد میں اہرام ِمصر کی تعمیر ہوئی۔ مصری لوگ فرعونوں کے عہد کو اپنی تاریخ کا سنہری دور سمجھتے ہیں جبکہ ہم فرعون کو صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے جانتے ہیں اور ہمیں علم نہیں کہ اس ایک بُرے فرعون کے علاوہ کئی اچھے بھی تھے جنہوں نے مصر پر حکومت کی۔ جمال عبدالناصر نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں فرعونوں کی اولاد ہونے پر فخر ہے اور پھر پاکستان کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے صدر ناصر کے خلاف خوب پراپیگنڈہ کیا اور سیاق و سباق کو سمجھے بغیر یہ پراپیگنڈہ ایک عرصے تک جاری رہا۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو عرب دنیا میں خاصے مقبول تھے‘ وجہ یہ تھی کہ فلسطین کے حوالے سے بھٹو صاحب کا مؤقف بہت واضح تھا۔ 1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی اور اسے عرب دنیا میں عمومی طور پر ایک غیر پسندیدہ اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔ 1979ء میں سوویت افواج افغانستان میں آئیں تو عرب دنیا سے کئی لوگ جہاد کا نام لے کر براستہ پاکستان افغانستان جانے لگے۔ 1980ء میں صدر انورالسادات قتل کر دیئے گئے۔ ان کا قاتل مصری فوج کا ایک نوجوان افسر تھا‘ تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ افسر پاکستان کی ایک دائیں بازو کی پارٹی کے افکار سے متاثر تھا۔ اب مصر میں یہ تاثر ابھرا کہ پاکستان دہشت گردی کی آماجگاہ ہے۔
1982ء کی بات ہے میں پی آئی اے کی پرواز سے لندن جا رہا تھا اور یہ پرواز براستہ قاہرہ تھی جہاں جہاز نے تیل لینا تھا۔ یہاں پرواز ایک گھنٹہ رکی‘ عمومی طور پر ایسی حالت میں مسافروں کو ٹرانزٹ لاؤنج میں بٹھایا جاتا ہے لیکن ہمیں جہاز سے اُترنے کی اجازت نہ ملی اور چند بندوق بردار مصری سکیورٹی والے لوگ ہمارے طیارے کے قریب کھڑے رہے۔ پاکستان اور پاکستانی انتہا پسندی کی علامت بن چکے تھے۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی نے اس تاثر کو مزید تقویت دی۔
دنیا کے حالات تیزی سے بدلے ہیں سرد جنگ قصۂ پارینہ ہو چکی۔ اب اقتصادی تعلقات اور تجارت کی بین الاقوامی تعلقات میں اہمیت بڑھ گئی ہے۔ آہستہ آہستہ دنیا یہ بھی باور کر رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گھر نہیں بلکہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہے اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔عرب سپرنگ کی وجہ سے مصر بھی گزشتہ دس سال مسائل میں گھرا رہا۔ اب اُسے نئے دوستوں کی تلاش ہے۔ دنیا سرد جنگ کے ماحول سے نکل کر نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں صرف دو ملک سپر پاور نہیں ہیں بلکہ متعدد ملک عالمی اہمیت اختیار کر رہے ہیں‘ جنگ کا روایتی طریقہ متروک ہوتا جا رہا ہے‘ مستقبل کی جنگیں ہائبرڈ قسم کی ہوں گی۔ نان سٹیٹ ایکڑز اور دہشت گردی بھی اس جدید جنگی حکمت عملی کے شاخسانے ہیں اور اب تازہ ترین اضافہ سائبروار کا ہے۔
تجارت اور اقتصادی تعاون کی ہمارے عہد میں اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مصر اور پاکستان دونوں غیر ملکی سرمایہ کاری کی تلاش میں ہیں۔ دونوں ممالک کو آبی جارحیت کا خطرہ ہے‘ دونوں آبادی کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنا چاہتے ہیں۔ مصر دنیا کی بہترین کپاس پیدا کرتا ہے پاکستان بھی اہم کاٹن پروڈیوسر ہے لیکن ہماری فی ایکڑ پیداوار گر رہی ہے۔ ہمارے علما بہت سے مسائل میں قاہرہ کی الازھر یونیورسٹی کی آرا سے مستفیدہو سکتے ہیں۔
عسکری فیلڈ میں اورڈیفنس پروڈکشن کے شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مصر کے معروف سرجن ڈاکٹر مجدی یعقوب اوپن ہارٹ سرجری کے بانیوں میں سے تھے‘ طب اور سرجری کے شعبوں میں ہم کاری ہو سکتی ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ فوڈ سکیورٹی کیلئے نئے اور زیادہ پیداوار دینے والے گندم اور چاول کے بیجوں کیلئے ایک دوسرے کی ریسرچ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے جدید طریقوں میں ہم کاری ہو سکتی ہے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رحجان کو روکنے کیلئے بھی مل کر غور کیا جا سکتا ہے۔ہمارے وزیر خارجہ نے مصر کے صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے جو قبول کرلی گئی ہے۔ پاکستان اور مصر کے دوطرفہ تعلقات کا نیا باب شروع ہوا چاہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved