تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     23-02-2021

بحران اور اس کا علاج

ہمیں73 سالوں کے بعد پتہ چلا کہ موجودہ سیاسی‘ انتظامی اور معاشی نظام اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ اسے گلا سڑا کہا جائے تو بجا ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی نیم دلانہ اصلاحات سے اس نظام کو بہتر اور فعال بنانا ہر گز ممکن نہیں‘ صرف انقلابی اور ہمہ گیر اصلاحات کے ذریعے موجودہ نظام کی خستہ حال عمارت کی تعمیر نو کر کے ایک نئے عوام دوست‘زندہ و تابندہ اور روشن نظام کو معرضِ وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں عوام کے نمائندے وہاں کے نظام میں ضروری اصلاحات کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد ہی عوامی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں آمریت اور نام نہاد‘ کھوکھلی جمہوریت (اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ کے مفادات کی نگہبان) عوامی مفاد کی ترجمانی اور حفاظت میں برُی طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں ہمارے مسائل کا حل ثابت ہونے کی بجائے خود ایک مسئلہ بن گئی ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے حل کی بجائے صرف اقتدار پر قابض رہنے یا اقتدار حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اقتدار ہی اُن کی ساری جدوجہد اور تگ و دو کا محور‘ منزل اور واحد مقصد ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پھر تبدیلی لانے کیلئے ہمارے معاشرے کا کون سا طبقہ ہر اول دستہ بنے گا؟ ہمارے ملک میں کون لوگ وہ کردار ادا کریں گے جو ایران میں انقلاب لانے کیلئے مساجد کے امام صاحبان اور سیاہ پوش علما نے ادا کیا تھا اور ایران کی تاریخ بدل دی۔ اس سوال کا جواب ہے ریٹائرڈ ججز اور جرنیل صاحبان‘ صحافی‘ وکلا‘ اساتذہ‘ کسان‘ مزدور‘ طلبا و طالبات اور تمام سیاسی جماعتوں کے عوام دوست کارکن جو سیاسی وابستگی کی نچلی سطح سے اوپر اُٹھ کر قومی مفاد کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں۔ان سب کا اتحاد ایک نئی قوسِ قزح بنے گا۔
پاکستان بنا تو قائداعظم محمد علی جناح نے ایک غیر مسلم کو وزیرِ خارجہ بنایا جو دس برس اس عہدہ پر فائض رہا۔ فوج‘ فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان اور تمام صوبوں کے گورنر انگریز تھے۔ ایوب خان‘اسکندر مرزا‘ یحییٰ خان پرویز مشرف ان سربراہانِ مملکت کا بھی مذہب سے برائے نام تعلق تھا۔ بھٹو مرحوم ہمارے سب سے روشن دماغ اور لبرل حکمران تھے۔ المیہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب جیسے رہنما کی سیاسی ناکامی اور مقبولیت میں کمی سے جو خلا پیدا ہوا وہ مذہبی جماعتوں نے پرُ کیا۔ ضیا الحق کے دور میں مذہبی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا‘ وہ دن اور آج کا دن بڑی اور مروجہ اور مسلمہ اور لبرل سیاسی جماعتوں کا سیاسی حجم اور وزن اور اثر و رسوخ کم ہوتا گیا اور دائیں بازو کی رجعت پسند مذہبی جماعتوں کا سیاسی قد کاٹھ بڑھتا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مذہبی جماعتوں کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ عوامی اُمنگوں کی ترجمان بنیں۔ عوامی مفادات کے تحفظ کا جو پرچم لبرل جماعتوں کے پرلے درجے کے نالائق اور بددیانت‘ وطن فروش ہاتھوں سے گر گیا تھا وہ مذہبی جماعتوں نے اُٹھا لیا۔ پرویز مشرف کا دور جتنا سیکولر اور لبرل تھا اُتنا ہی بدترین ثابت ہوا۔ ناکام او رآنے والے دور کی ناکامیوں کا ذمہ دار۔ صرف ناکام نہیں بلکہ خون ریز اور خون آشام بھی۔
علی گڑھ اور دیو بند میں‘ مسٹر اور مُلا میں‘ دورِ جدید کے تقاضوں اور قدیم تہذیبی روایات میں جو تصادم سرسید احمد خان کے وقت سے شروع ہوا تھا اور وہ اب تک جاری ہے‘ہم بھول گئے کہ ہم نے ایک پکے مسلمان مگر لبرل ذہن کے مالک اور انگریزی بولنے والے شخض کو اپنا قائداعظم بنایا اور اب ہماری کیا حالت ہے؟ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ہم کہاں سے شروع ہوئے تھے اور کہاں پہنچے؟ کیسی بلندی کیسی پستی۔ قائداعظم اور اقبال کے مخالف‘امریکہ کے وفادار اور اسلامی اقدار سے بیزار لبرل افراد ہمارے لئے اتنی ہی بڑی مصیبت ہیں جتنے جدید علوم‘ اقلیتوں اور خواتین کے مساویانہ حقوق اور عصری تقاضوں کے مخالف جنہوں نے بدقسمتی سے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔پاکستان کے وکلا‘ اساتذہ اور صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ اس تفریق کو ختم کریں۔ اس خلیج پر پُل بنا دیں۔ قانون کی حکمرانی‘ فلاحی مملکت‘اقبال اور صوفیا کرام‘ سلطانیٔ جمہور‘ آزادی‘ انصاف اور مساوات‘ یہ ہیں وہ ستون جن پر ہماری قومی شناخت کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے اور قائم رہ سکتی ہے۔ یہی ہمارا سنگِ میل ہیں او ریہی ہماری منزل۔
پاکستان کو صرف وہی لوگ بحران سے نکال سکتے ہیں جن کا اپنا کوئی بھی ذاتی سیاسی مفاد نہ ہو۔ بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اقتدار کی جنگ اور اختیار کی کشمکش میں اس طرح گرفتار ہیں کہ اُنہیں عوامی مفاد نظر نہیں آتا۔وہ بہری ہیں اس لئے آوازِ خلق نہیں سن سکتیں۔ وہ گونگی ہیں اس لئے عوام کے حق میں۔ کسانوں اور مزدوروں کے حق میں اور نچلے متوسط طبقے کے حق میں آواز بلند نہیں کرتیں۔ وہ اندھی ہیں اس لئے اُنہیں نہ عوام نظر آتے ہیں اور نہ اُن کے مسائل اور بڑھتی ہوئی مشکلات۔آوازِ خلق صرف اُس وقت سنی جائے گی جب اسے رائے عامہ کی تائید حاصل ہوگی۔ اس وقت ہماری آواز خلق بے حد مدھم اور کمزور ہے‘ ہمارے ملک میں محب وطن اور عوام دوست لوگوں کی کمی نہیں مگر وہ منظم نہیں اور بکھرے ہوئے ہیں۔ جو مل کر عوامی مفاد کیلئے ایک پرچم تلے کام نہیں کرتے۔ ہمیں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی نہیں ایک جامع مسجد کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو موجودہ نظام سے اتنا خوش اور مطمئن ہو کہ اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہ چاہتا ہو۔ آپ جس سے بھی بات کریں وہ اپنا دکھڑا سنائے گا اور موجودہ نظام کی اس خرابی کا ذکر کرے گا جو اس کیلئے باعثِ مصیبت ہے۔ موجودہ نظام کے ہر پہلو کی خرابی کوئی ایٹمی راز نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی اور معاشی نظام بالکل ناکارہ‘ عوام دشمن اور مصیبتوں کا ذمہ دار ہے۔ ہمیں علم ہے کہ اس نظام میں ایک بھی خوبی نہیں‘ نہ انصاف نہ مساوات‘ نہ انسانی حقوق نہ آزادی‘ نہ قانون کی حکمرانی نہ آئین کی بالادستی۔ ہر طرف پریشانی اور اضطراب‘ افراتفری اور بحران۔ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی تو دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ آوے کا آوا بگڑ جائے تو اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک بھی سرکاری محکمہ ایسا نہیں جو نااہلی‘ کام چوری اوربدعنوانی میں کسی اور محکمہ سے پیچھے ہو۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا سارا وقت اقتدار کی جنگ لڑنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ اُنہیں عوامی فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں۔ دوسری طرف چھوٹی جماعتیں نہ متفق ہیں اور نہ متحد۔ آج تک وہ کوئی ایسا منشور مرتب نہیں کر سکیں جس پر اُن سب کا اتفاق ہو۔ وہ خود نہیں جانتیں کہ عوامی مسائل کاحل کیا ہے۔ چھوٹی جماعتوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اگر وہ سب مل بھی جائیں توکسانوں‘اساتذہ اور وکلا کی حمایت کے بغیر وہ کسی بڑی سیاسی جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ وہ منتشر ہیں‘ اس لئے بے اثر ہیں اور 73 سالوں سے اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہیں۔ وہ خود ہماری نجات کا راستہ نہیں جانتیں تو قوم کو کیا بتائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اس اندھیرے میں ہمارے اُفق پر روشنی کی کرن اُبھرے گی تو کہاں سے؟
جواب سیدھا سادا ہے... کسان‘اساتذہ اور وکلا کے اتحاد سے۔ ضرور ت اس بات کی ہے کہ یہ آپس میں مل جائیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کے اچھے اور عوام دوست کارکنوں کو ساتھ ملائیں۔ ایک انقلابی منشور کو اپنا کر اور انقلابی اصلاحات کو مرتب کرکے رائے عامہ کے سامنے رکھیں۔ اسے اپنا ہم خیال بنائیں۔ یقین رکھیں کہ بڑی تبدیلی آجائے گی جب یہ طبقے زبانِ خلق بن جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved