الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز
کھلی ایف آئی آر ہے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز حکومت کے خلاف کھلی ایف آئی آر ہے‘‘ جس پر صرف مقدمہ قائم ہوا اور سزا یابی کا مرحلہ باقی ہے، جس کے بعد فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا میں بھی واپس آ جاؤں گا جس کے بعد حکمرانوں کے بھاگنے کی باری ہے، میرے حوالے سے اس کی زندہ اور روشن مثال پہلے سے موجود ہے اور ہماری جماعت کے دیگر لوگ بھی جس کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کا علاج بھی لندن میں اور میری موجودگی ہی میں ہو سکتا ہے اور اب تک وہ اس کے لئے کسی نسخۂ کیمیا کی تلاش میں ہیں۔ آپ اگلے روز لندن سے فون پر بات کر رہے تھے۔
مریم نواز مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مریم نواز مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں‘‘ حالانکہ مگرمچھ اپنے آنسو خود اچھی طرح سے بہا سکتے ہیں جبکہ آدمی کو صرف اپنے آنسو ہی بہانے چاہئیں جبکہ اتنے بڑے جانور کے آنسو بہانا ویسے بھی نہایت مشکل کام اور محض ایک تکلف ہے کیونکہ اتنا فاصلہ طے کر کے مگرمچھ کے پاس جا کر اس کے آنسو بہانا محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، اپنا بھی اور مگرمچھ کا بھی، اور جس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے آدمی کو صرف اپنے فائدے والا کام کرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
گیلانی کی کامیابی کے بعد عمران خان
وزیراعظم نہیں رہیں گے:آصف زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے‘‘ اور وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا یہ آخری حربہ ہے کیونکہ باقی تو سارے نسخے ناکام ہو چکے ہیں اور گیلانی جیسے صاف ستھرے سیاستدان کی کامیابی کے بعد وزیراعظم کو خود ہی گھر چلے جانا چاہئے اور میرے جیسے آدمی کا یہ کہہ دینا ہی سونے پر سہاگہ ہے کہ میری سیاست کی تو ایک دنیا گواہ ہے ویسے بھی اکاؤنٹس میں پیسہ ادھر ادھرگھما کر باہر بھیجنے جیسا پیچیدہ کارنامہ سرانجام دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے گفتگو کر رہے تھے۔
حفیظ شیخ سمیت پہلے سے زیادہ
سیٹیں لیں گے: پیر صدر الدین راشدی
حکومتی اتحادی جماعت جی ڈی اے کے سربراہ پیر صدر الدین راشدی نے کہا ہے کہ ''حفیظ شیخ سمیت پہلے سے زیادہ سیٹیں حاصل کریں گے‘‘ کیونکہ حفیظ شیخ کی کامیابی کے لئے جن افراد کو مامور کر دیا گیا ہے ان کے ناکام ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، نیز ہماری دُعا ہے کہ ناراض ارکان دغا نہ دے جائیں جنہیں منانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی ہے اور اس سرتوڑ کوشش میں انہیں منانے والوں کے سر ٹوٹ چکے ہیں جن کی اب الیکشن کے بعد ہی مرمت کروائی جا سکے گی۔ آپ اگلے روز کراچی میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی پہلے بِل جلاتی تھی، اب
عوام کے دل جلاتی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی پہلے بل جلاتی تھی، اب عوام کے دل جلا رہی ہے‘‘ اور یہ جو میں نے بِل اور دل کا قافیہ ملایا ہے تو مجھے ہر طرف سے اس کی داد مل رہی ہے اور بہت سے دوستوں کا کہنا ہے کہ میں اگر دوسرے کام چھوڑ کر شعر گوئی اختیار کر لوں تو یہ میرے لئے بھی بہت اچھا رہے گا اور عوام کے لئے بھی کیونکہ ایک ہی طرح کے بیانات سن سن کر وہ بھی تنگ آ چکے ہیں بلکہ میں بھی اس کام سے کافی تھک چکا ہوں اور مجھے بھی آرام کی ضرورت ہے جبکہ شاعری سے شہرتِ دوام حاصل ہونے کے بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔ آپ اگلے روز تیرگرہ میں خطاب کر رہے تھے۔
خود ہی
اسمبلی میں ایک رُکن خاتون وزیراعظم ونسٹن چرچل کو بہت زچ کیا کرتی تھیں، ایک بار اس نے کہا: مسٹر چرچل! اگر میں آپ کی اہلیہ ہوتی تو آپ کو زہر دے دیتی!
اس پر چرچل نے جواب دیا ''محترمہ اگر میں آپ کا شوہر ہوتا تو خود ہی زہر کھا لیتا!‘‘۔
سخن نشانی عشق کی
یہ ہمارے دوست اور ممتاز نظم گو اقتدار جاوید کا پہلا مجموعۂ غزل ہے جسے دار النوادر نے چھاپا ہے۔ فاضلانہ دیباچہ شاعر اور نقاد الیاس بابر ا عوان نے تحریر کیا ہے جبکہ ''تعارف اور چند ضروری باتیں‘‘ کے عنوان سے شروع میں مہر افروز (کرناٹک، انڈیا) کا قلمی ہے جس میں دیگر تصانیف کی بھی تفصیل موجود ہے۔ انتساب یارِ مہربان افسر ساجد کے نام ہے، پس سرورق ممتاز پروفیسر جی سی یونیورسٹی سعادت سعید کی تحریر ہے جبکہ اندرونِ سرورق دونوں طرف مشرف عالم ذوقی کا توصیفی تجزیہ ہے۔ گیٹ اپ عمدہ اور ٹائٹل دلکش ہے۔ اقتدار جاوید ان معدودے چند شعراء میں شامل ہیں جنہیں معلوم ہے کہ جدید اردو غزل کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اسے انہوں نے کہاں سے شروع کرنا ہے!
اور اب آخر میں اسی مجموعے میں سے یہ غزل:
ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے
کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے
کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی
خدا نے بولنا تھا تیس پارے بن رہے تھے
بچھایا جا چکا تھا ایک بچھونا آسماں پر
ابھی مہتاب بننا تھا، ستارے بن رہے تھے
کہیں پر پنجۂ مریم میں آتش پھیلتی تھی
کہیں پر زکریاؑ تھا اور آرے بن رہے تھے
چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے
ہوا معلوم یہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے
مری نگران تھیں آنکھیں جہاں پر تُو کھڑی تھی
جہاں پر تیری نظریں تھیں نظارے بن رہے تھے
رُکی تھی خلق میں آواز سے ملتی کوئی چیز
تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے
جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈِبیہ
وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے
گلی میں شور سا برپا تھا اور بچے گھروں میں
نکلنے والے تھے، رنگیں غبارے بن رہے تھے
آج کا مقطع
اگرچہ دیر سے پت جھڑ لگی ہوئی ہے‘ ظفرؔ
خزاں کی شام پر رنگِ بہار پھر بھی ہے