تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     23-02-2021

برصغیر کی سیاست کے اجزائے ترکیبی

ہمارے ملک میں سیاست صرف امیروں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ صرف اس کی بات کر سکتا ہے‘ اس میں حصہ نہیں لے سکتا۔ آپ بھلے اپنے قریبی رشتہ داروں سے لڑیں‘ اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے ان کو بلاک کر دیں لیکن پارٹی ٹکٹ آپ کو نہیں ملے گا۔ الیکشن کے دنوں میں اپنے لیڈر کی وجہ سے آپ اپنے ہمسایوں سے قطع تعلق کر لیں‘ آپ کی غمی‘ خوشی پر آپ کا لیڈر نہیں‘ وہ ہمسایہ ہی آئے گا۔ آپ اپنے ساتھی ورکر یا قریبی دکاندار سے جھگڑا کر لیں لیکن عوام کی زندگی میں کیا چل رہا ہے‘ سیاست دانوں کو اس سے کچھ مطلب نہیں ہوتا۔ ان کو صرف اقتدار اور اپنی کرسی سے غرض ہوتی ہے۔ انہیں عوام کی یاد صرف تب آتی ہے جب ووٹ چاہیے ہوں یا کرسی چھن جائے۔ اس کے علاوہ راج نیتی کے برہمن کسی دلت کو راج دھانی میں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ سادہ الفاظ میں‘ سیاست صرف امیر کر سکتے ہیں‘ غریب اس سے دور رہیں۔ یہی برصغیر‘ پاک و ہند کی ریت ہے۔ ویسے تو کئی دیگر ممالک میں بھی سیاسی چلن ایسا ہی ہے لیکن آج ہم صرف اسی خطے پر فوکس کریں گے۔
برصغیر کے خطے میں سیاست دان ہونے کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کے آبائو اجداد میں کوئی سیاست دان رہا ہو‘ اس طرح سیاست آپ کو وراثت میں منتقل ہو جائے گی۔ قابلیت کو سمندر میں پھینک دیں‘ محض ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی آپ کو خود ہی لیڈر بنا دے گی۔ بچپن سے آپ کی تصاویر خاندان کے سیاسی افراد کے پوسٹرز پر شائع ہوں گی اور آپ لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن جائیں گے۔ بچپن کی دہلیز پار کر کے جب آپ نوجوانی کے دور میں داخل ہوں گے تو آپ کو پڑھنے کیلئے ''ولایت‘‘ بھیج دیا جائے گا حالانکہ آپ کے اپنے آبائو اجداد‘ جو ملک کے وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہوں گے‘ کے حلقے میں اب تک بچے ٹاٹ سکول میں بھینسوں کے ساتھ پڑھ رہے ہوں گے، یہ بھی وہاں ہو رہا ہو گا جہاں سکول موجود ہوں گے، کچھ حلقوں میں تو سکول نام کی چیز بھی نہیں موجود ہو گی، لیکن چونکہ آپ پیدائشی سیاستدان ہیں‘ لہٰذا آپ کا بدیشی ڈگری لانا ضروری ہے۔ وہاں پُرتعیش زندگی گزارنے کے بعد جب آپ وطن لوٹیں گے تو یہ لازم ہے اب آپ کو یورپی طرزِ زندگی سے نکال کر پاکستانی معاشرے اور یہاں کی طرزِ زندگی کر طرف لایا جائے۔ اب آپ کے امیج پر کام شروع ہو جائے گا۔ آپ یہاں مختلف طبقہ ہائے فکر کے مدارس اور غریبوں کی بستیوں میں جا کر بچوں کے ساتھ کھانا کھائیں گے، پھر یہ تصاویر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس طرح پھیلا دی جائیں گی کہ آپ کا ایک دردمند‘ بھلے انسان کا تصور ابھر سکے۔ آپ جوشِ جوانی میں چاہے کارکنوں کو اپنی مہنگی گاڑی تلے کچل دیں‘ آپ کو سب معاف ہے۔ آپ خطرے کی زد میں آئے اور معدوم ہوتے جانوروں کا شکار کریں‘ آپ کے ملازمین کو تو سزا ہو سکتی ہے‘ لیکن آپ کو کوئی اُف بھی نہیں کہے گا۔ آپ کے جتنے زیادہ سکینڈلز سامنے آئیں گے‘ اتنا آپ کا سیاسی پروفائل زیادہ ہو گا۔ البتہ کچھ موروثی سیاسی بچے اتنا کچھ نہیں کر سکتے‘ اس لیے ان کے ساتھ بہت سے ملازم اور ترجمان کام کرتے ہیں۔ سکول کے ہوم ورک سے لے جلسوں کی تقریروں تک‘ سب کچھ وہی لکھ کر دیتے ہیں۔ اکثر توملازمین امتحانی مراکز میں پرچہ بھی حل کر دیتے ہیں۔ ویسے یہ کام ذرا رسکی ہے‘ کیونکہ ممکن ہے کہ کسی الیکشن میں آپ جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہو جائیں، ویسے بھی سیاست میں تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بس دولت کا ہونا کافی ہے، بے تحاشا دولت۔
سیاست میں آنے کے بعد لباس پر توجہ دینا خاص ضروری ہے۔ شلوار قمیص پہننا لازم ہے‘ ساتھ واسکٹ۔ کبھی کبھی شیروانی بھی پہنی جا سکتی ہے۔ جب غیر ملکی وفود سے ملاقات ہو‘ جنہوں نے آپ کے ملک کو قرضہ وغیرہ دینا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں آپ کا لباس لاکھوں سے کم قیمت کا نہیں ہونا چاہیے، گھڑی بھی چالیس لاکھ والی ہونی چاہیے تاکہ وفود پر آپ کی امارت کی دھاک بیٹھ سکے۔ وہ الگ بات کہ وہ وفد بعد میں حیران ہوتا پھرے کہ ان کو قرضہ دینا ہے یا ان سے قرضہ لینا ہے۔ البتہ عوام میں جائیں تو سفید لٹھا پہن لیں، اس سے عوام کے دل پر زیادہ اثر ہو گا۔ اپنی کروڑوں کی گاڑی سے اتر کر عوام کو سادگی کے لیکچر دیں اور ملک میں پسماندگی، غربت اور خالی خزانے کی باتیں کریں۔ کوشش کریں کہ اردو انگریزی کے سٹائل میں بولیں، آپ کے انگریزی لہجے سے سادہ لوح عوام دل و جان سے آپ پر فدا ہو جائیں گے کہ دیکھو! مقامی زبان نہیں بول نہیں سکتا‘ پھر بھی یہاں آ کر کام کر رہا ہے۔
سیاست کا ایک بنیادی اصول چالاکی اور ہوشیاری ہے تاکہ آپ اپنی ساری غلطیاں دوسروں پر ڈال سکیں۔ بھلے آپ خود سپارکلنگ واٹر پیتے ہوں‘ آپ میں ایسی صلاحیت ہونی چاہیے کہ ایسے حلقوں میں جہاں جانور اور انسان ایک ہی ندی سے پانی پیتے ہیں‘ آپ لوگوں کو یہ یقین دلا سکیں کہ آپ ہی ان کا آخری سہارا ہیں۔ موروثی سیاست کے حوالے سے یہ اصول آپ کے پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ قریبی رشتہ داروں کے بعد کزنز‘ ان کے بعد سیکنڈ کزنز اور پھر برادری اور ذات پات کے لوگ آتے ہیں، کرسی‘ دولت‘ عہدہ‘ اختیار‘ سب کچھ گھر میں ہی رہنا چاہیے، باہر کسی صورت نہیں جانا چاہیے۔ اگر گھر کے مرد جیل چلے جائیں‘ جلاوطن ہو جائیں، نااہل قرار پائیں تو پھر سیاست کی بھاری ذمہ داری عورتوں کے سپرد بھی کی جا سکتی ہے‘ لیکن یہ ''عوامی بوجھ‘‘ خاندان سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ عام خواتین
سیاست میں حصہ نہیں لے سکتیں‘ صرف امیر کبیر سیاسی گھرانوں کو ہی یہ حق حاصل ہے۔ سیاست میں اپنے امیج کا خاص خیال رکھنا ہے‘ بھلے آپ کا سارا وقت یورپ میں چھٹیاں گزارتے گزرا ہو‘ عوام میں جاتے وقت آپ نے مخصوص لباس ہی زیبِ تن کرنا ہے اور مخصوص انداز ہی اپنانا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ گاڑیوں اور لوگوں کا قافلہ لے کر چلنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیو ہیکل قسم کے گارڈز بھی ساتھ رکھیں جو غریب عوام کو آپ کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ جب بھی کوئی آپ کے قریب آنے کی کوشش کرے تو یہ گارڈ اس غریب کی خوب دھلائی کریں۔ اگر کبھی غلطی سے کسی غریب سے ہاتھ ملا لیں تو فوری طور پر تین سے چار بار ولایتی سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف کریں۔ البتہ آپ کی پی آر ٹیم نے غریبوں سے میل ملاقات کے حوالے سے جو بھی پبلیسٹی سٹنٹ ترتیب دیے ہوں‘ ان کے کرنے میں کوئی ہرج نہیں؛ تاہم انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا نہیں بھولنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا، فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگرام کا بھرپور استعمال کرنا ہے اور اپنے مخالفین کی خوب دھجیاں اڑائیں، ان کے خلاف باتیں بنائیں، جھوٹے سچے قصے سنائیں، پروپیگنڈا کریں اور اس حوالے سے کسی ضابطے، کسی اخلاقیات کی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ جب اپنے حوالے سے بات ہو تو فوراً سے پیشتر اخلاقیات، روایات اور قاعدے قانون کی آڑ لیں۔ جب الیکشن قریب آئیں اور آپ حکومت میں ہوں تو خزانے کا منہ اپنی پارٹی کے ممبران پر کھول دیں، خوب ترقیاتی کام کروائیں‘ خواہ ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو تاکہ اگلی بار بھی اقتدار میں آنا ممکن ہو سکے۔
آئندہ دنوں میں ملک میں سینیٹ الیکشن ہونے جا رہے ہیں‘ یہ بھی بیوپار کی ایک منڈی ہے جہاں کروڑوں میں قیمت لگتی ہے۔ اس بار یہ سب کچھ عوام کے سامنے آ گیا‘ وگرنہ کب سے یہ دھندہ جاری تھا۔ تمام سیاسی ایوانوں میں صرف امیر ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی کوئی غریب ایوانِ بالا یا ایوانِ زیریں کی نشست پر دیکھا ہے؟ یہاں سیاست صرف وہ کر سکتا ہے‘ جس کی جیب میں پیسے ہیں۔ باقی سب صرف باتیں اور تبصرے ہی کر سکتے ہیں۔ ملکی سیاست کو درست ڈگر پر گامزن کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ پچھلی دو‘ تین دہائیوں سے سیاست کرنے والوں کے حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جہاں یہ سب اپنی آمدن کا ثبوت پیش کریں لیکن یہاں اگر احتساب کی بات کی جائے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved