تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-02-2021

معاشی سوچ کا المیہ

ملکی معیشت کی دگرگوں کیفیت اور بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات نے ایک ایسی زندگی کی راہ ہموار کرنا شروع کردی ہے جس میں کچھ نیا پن بھی ہے اور معاشی اعتبار سے بہتری بھی۔ آج ساری دنیا میں معاشی معاملات کے حوالے سے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے شدید پسماندگی جھیلنے کے باوجود اب تک خود کو حالات کے مطابق بدلنے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ آج پاکستان کو جس نوعیت کے افلاس کا سامنا ہے اُس کا سامنا پڑوسی ملک میں کروڑوں افراد کو بہت پہلے سے ہے۔ انہوں نے بدلتے (یعنی بگڑتے ہوئے) معاشی حالات کے مطابق خود کو تبدیل بھی کیا اور بہتری کی گنجائش بھی پیدا کی۔ پڑوس میں کروڑوں افراد نے شعوری کوشش کے ساتھ کفایت شعاری کو اپنایا۔ کفایت شعاری محض یہ نہیں ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر، بجٹ کے تحت خرچ کریں اور کچھ نہ کچھ بچائیں بلکہ یہ بھی کہ کوئی بھی چیز اچھی طرح سودے بازی کرکے خریدیں اور وہی قیمت ادا کریں جو ادا کی جانی چاہیے۔ ہر چیز کی ایک قدر ہوتی ہے اور اُس کی قیمت اُسی قدر کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں عمومی مزاج میں یہ چیز کبھی نہیں رہی۔ کسی بھی چیز کو خریدنے کے معاملے میں آج بھی خاصی ہڑبونگ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کو سمارٹ فون خریدنا ہو تو ایسی عجلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے گویا اپنے نفس پر ذرا بھی قابو نہ ہو۔ جیسے ہی رقم کا بندوبست ہوتا ہے، بے صبری کا عفریت جاگ اٹھتا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ پلک جھپکتے میں مطلوبہ چیز سامنے آجائے۔ قیمتوں کا تقابل کیا جاتا ہے نہ متعلقہ آئٹم کی خصوصیات کے حوالے سے کسی سے کچھ پوچھنے کی زحمت گوارا کی جاتی ہے۔ کم نصیبی یہ ہے کہ یہ بے ڈھنگا رویہ کم و بیش ہر معاملے میں دکھائی دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاشی معاملات کے بارے میں سوچنے کی تربیت دینے کا اب تک رواج نہیں۔ بچوں کو باقی بہت کچھ سکھایا جاتا ہے مگر معاشی اعتبار سے سوچنا نہیں سکھایا جاتا۔ بچیوں کو گھر چلانے کی تربیت ضرور دی جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے، بجٹ کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ لڑکوں کو بھی بجٹ کی اہمیت سے کماحقہٗ روشناس نہیں کرایا جاتا۔
کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرتے وقت جہاں اور بہت سی باتیں بتائی جاتی ہیں وہیں اُسے یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ اُس کا اور مال و دولت کا مرتے دم تک کا ساتھ ہے۔ یہ ساتھ اگر اچھا ہو تو کیا کہنے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ ساتھ خود بخود اچھا یا مثالی ثابت ہوگا۔ زندگی کا ہر پہلو کسی نہ کسی حوالے سے دولت سے جڑا ہوا ہے۔ ہم دولت کو کسی بھی معاملے سے خارج کرسکتے ہیں نہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال دولت کو اپنے بعض معاملات سے نکال باہر کرنے یا اُسے بُرا سمجھنے کا نہیں، اُسے اچھی طرح سمجھ کر اپنی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں اور اس کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو بھی تیار ہوں جو کیا جانا چاہیے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اب بھی زندگی کے معاشی پہلوکو خاطر خواہ اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دونوں سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہم، من حیث القوم، جہاں اور بہت سے معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے وہیں معاشی امور پر بھی خاطر خواہ توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو اس حوالے سے ذہنی تیاری کا موقع فراہم کرنے کا رواج نہیں۔ زندگی کا معاشی پہلو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ بچے چھوٹی عمر سے دولت اور زندگی کے ساتھ کو سمجھیں اور اس حوالے سے خود کو تیار کرنے پر متوجہ ہوں۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران دنیا بہت بدل گئی ہے‘ سچ تو یہ ہے کہ کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں معیشت و معاشرت کے اعتبار سے نئی سوچ اپنائی جارہی ہے، نئے رجحانات کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ہر باشعور اور ذی حِس قوم چاہتی ہے کہ اُس کی آنے والی نسلیں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہونے کے ہنر سے واقف ہوں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب بچوں کو جامع انداز سے بتایا گیا ہو کہ اُنہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈھنگ سے جینے کے لیے جو عملی جدوجہد کرنا ہے اُس کا حاصل اور محور دولت ہے۔ دولت کس طور کمائی جائے اور کس طور خرچ کی جائے یہ سب کچھ بچوں کی فکری ساخت میں اچھی طرح پیوست ہونا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مقام پر معقولیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ بچوں کو معاشی معاملات کے بارے میں سکھانے کا ایک اچھا نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ جب وہ بڑے ہوکر کچھ کماتے ہیں تو اُس کی قدر و قیمت بھی جانتے ہیں اور یوں خرچ کے معاملے میں اُن کی سوچ متوازن رہتی ہے، کفایت شعاری اُن کے بیشتر مالی معاملات سے خود بخود جھلکتی ہے۔ یوں اُن کی زندگی میں وہ توازن پیدا ہوتا جاتا ہے جو ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
معاشی رویوں کے اعتبار سے پاکستان کو جس حد تک تبدیل ہونا چاہیے تھا اُس حد تک تبدیلی اب تک نہیں لائی جاسکی۔ اور اس کے منطقی نتائج بھی ہم بھگت ہی رہے ہیں۔ عام پاکستانی معاشی معاملات میں خاصا بے فکر، بلکہ لا اُبالی ہے۔ خرید و فروخت کے معاملے میں جو سنجیدگی اور ٹھہراؤ درکار ہے وہ عمومی سطح پر مفقود ہے۔ تعلیم و تربیت میں معاشی معاملات کو موزوں مقام نہ دیے جانے سے ایسا ہوا ہے۔ آج عام پاکستانی خاصی بے ذہنی کے ساتھ کماتا اور خرچ کرتا ہے۔ اس وقت گزارے کی سطح پچیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں وہ لوگ تو شاندار زندگی بسر کرتے ہوں گے جو ماہانہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ یا اِس سے زیادہ کماتے ہیں۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ عام آدمی سے کہیں زیادہ کمانے کے باوجود وہ لو گ عام آدمی کی سی سوچ کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ محنت کی کمائی کو جس تعقل اور برد باری کے ساتھ خرچ کرنا چاہیے وہ دکھائی نہیں دیتی۔ جب ہم سوچنے اور سمجھنے کی منزل سے دور رہتے ہوئے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو معاملات صرف الجھتے ہیں، مطلوب نتائج یقینی بنانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات ہم سے بہت کچھ طلب کر رہے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران پاکستانیوں نے بہت کچھ جھیلا اور تھوڑا بہت سیکھا بھی ہے۔ گھریلو صنعتوں کو پروان چڑھانے کا تصور مقبولیت سے ہم کنار ہوا ہے۔ خواتینِ خانہ فراغت کے لمحات کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوئی ہیں۔ گھروں میں پکائے گئے کھانوں کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پس ماندہ گھرانوں کی آمدنی کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ یہ اچھا رجحان ہے مگر شرط یہ ہے کہ اضافی آمدنی کو زندگی کا معیار بلند کرنے پر صرف کیا جائے نہ کہ اللوں تللوں پر اُڑا دیا جائے۔ محنت کی کمائی کو بے ذہنی کے ساتھ خرچ کرنے سے زندگی کا رخ بدلنے میں معمولی سی بھی کامیابی نہیں ملتی۔ آج پورے پاکستان میں عام آدمی سے کہیں زیادہ کمانے والوں کا بنیادی المیہ یہی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کا مجموعی جیب خرچ کسی غریب کی پوری ماہانہ آمدنی کے برابر ہے مگر پھر بھی اُن بچوں میں کوئی بڑی اور معنی آفریں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ اس مرحلے پر حکومت کو آگے بڑھنا ہے۔ گھریلو سطح پر جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ متعلقہ گھرانے کے ''اکنامک پروفائل‘‘ کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے مگر حکومت کو راہ نما کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو معقول طریقے سے بروئے کار لائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved