تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     24-02-2021

زبان کی تعلیم: مسئلہ کیا ہے؟

کسی بھی ملک کی قومی زبان دو اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک تو یہ قوم کے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے اور دوسرے قومی سطح پر باہمی ابلاغ کا موثر ذریعہ ہوتی ہے۔ 1959 کی شریف کمیشن رپورٹ میں بھی قومی زبان کا یہی مقام بیان کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ''قومی زبان قومیت کا جذبہ پروان چڑھانے کیلئے ایک طاقت ور قوت ہے۔ یہ ان بنیادی عناصر میں سے ایک ہے جو قوموں کو یکجا کرتے ہیں۔ یہ قوم کی عظمت کی علامت ہے جیسے اس کا جھنڈا‘ قومی ترانہ اور اس کے ہیرو۔ یہ قومی وقار میں اضافے کا باعث بنتی ہے‘‘۔ مختلف ممالک نے اپنی قومی زبان کے انتخاب کا فیصلہ کیسے کیا۔ اس سلسلے میں ہمیں مختلف مثالیں ملتی ہیں۔ پہلی مثال امریکہ اور انگلستان کی ہے جہاں لوگوں کی اکثریت کی زبان کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ دوسری مثال بعض افریقی ممالک کی ہے جہاں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے بعد آقاؤں کی زبان فرانسیسی کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ پاکستان میں ہم بالکل ہی مختلف صورت حال کا سامنا کرتے ہیں‘ جہاں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا جو نہ تو اکثریتی لوگوں کی زبان تھی اور نہ ہی ان کے سابقہ آقائوں کی۔ دراصل اردو تحریکِ پاکستان کے دوران دو قومی نظریے کی وضاحت کے لیے ایک طاقت ور ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی۔ اس طرح اردو کو قومی زبان قرار دینا در حقیقت اردو سے اسی جذباتی تعلق کی توسیع تھی۔ قیامِ پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں لوگوں کی اکثریتی زبان پنجابی جبکہ مشرقی پاکستان میں لوگوں کی اکثریتی زبان بنگلہ تھی۔ ان دو میں سے کسی زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل نہ ہوا۔ مغربی پاکستان میں لوگوں نے دو وجوہ کی بنا پر اس فیصلے کو قبول کر کیا۔ اول یہ کہ اردو پنجابی زبان سے قربت رکھتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پنجاب طاقت کے مراکز میں حصے دار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے شہروں میں بسنے والے اکثر خاندان اپنی مادری زبان پنجابی کی نسبت اردو زبان میں بات کرنا پسند کرتے ہیں؛ تاہم اس فیصلے سے مشرقی پاکستان میں لوگوں کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کی تحریک شروع ہو گئی۔ شروع میں تو اس مطالبے پر توجہ نہ دی گئی؛ تاہم جب اس تحریک نے زور پکڑا تو 1956میں بنگلہ کو بھی اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دے دیا گیا ‘ لیکن اب بھی کچھ لو گ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک وجہ بنگلہ کو قومی زبان بنانے کے فیصلے میں تاخیر کو قرار دیتے ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قو می زبان قرار دینے سے بظاہر تو یہ مسئلہ حل ہو گیا‘ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر بدستور قائم رکھا گیا کیونکہ یہ طاقت کی راہ داریوں میں استعمال ہونے والی زبان تھی۔ اقتدار میں شامل لوگوں کا خیال تھا کہ بنگلہ اور اردو کو قومی زبان قرار دے کر جھگڑے کو ختم کر دیا گیا ہے‘ جیسا کہ شریف کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اردو اور بنگلہ اب پاکستان کی قومی زبانیں قرار دی جا چکی ہیں اس لئے تعلیمی نظام میں انگریزی کی جگہ ان کا اختیار کیا جانا اب موضوعِ بحث نہیں رہا‘ لیکن معاملہ اس قدر آسان نہ تھا۔ اگرچہ انگریزی قومی زبان نہ تھی مگر قومی زبانوں (بنگلہ اور اردو) سے طاقت ور ضرور تھی کیونکہ یہ مقتدر طبقے میں شمولیت کی ضمانت تھی۔ ایک اور بحث ذریعۂ تعلیم کے حوالے سے شروع ہو گئی۔ اس حوالے سے سیاسی و سماجی بنیادوں پر کئی دلائل سامنے آئے۔ ایک طرف ہمارے ماہر تعلیم اور سیاسی قیادت کے حامل لو گ ہیں جو اردو کی اپنی ثقافت اور علاقائی زبان سے قربت کی بناء پر حمایت کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی دلیل رکھتے ہیں کہ اس زبان کو اختیار کر لینے سے معیارِ تعلیم اور شرح خواندگی کو تیزی سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ذہین اور قابل طلبا کی ایک بڑی تعداد انگریزی کے مرکزی کردار کی وجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی۔ بالآخر اس کا نتیجہ انسانی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں تدریس میں انگریزی کے دبائو کی وجہ سے طالب علم بہتر انداز میں سیکھ نہیں پاتا اور وہ پھر رٹے بازی (Memorization) پر اتر آتا ہے اس طرح سیکھنے کی ساری سرگرمی ایک بیکار مشق بن کر رہ جاتی ہے۔
ماہرین کا دوسرا گروہ طلبا کے لئے انگریزی کو لازمی تصور کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اس میں وسیع علم کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان کے خیال میں علم اور انگریزی زبان کا معاشی ترقی کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ان کے مطابق انگریزی زبان سے محرومی کا مطلب در حقیقت تعلیم اور ملازمت کے کئی مواقع سے محروم رہ جانا ہے۔ ان کے نزدیک آگے چل کر زبان کی یہی خلیج معاشی خلیج میں بدل جاتی ہے۔ یہ دلیل اردو کی ترویج کے لئے کی جانے والی نیم دلانہ اور غیر سنجیدہ حکومتی کوششوں کی روشنی میں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہے۔
اگر ہم ماضی میں زبان کے حوالے سے حکومتی پالیسی دیکھیں تو حکومت کا موقف مستقل طور پر غیر یقینی صورتحال کا غماز نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ موقف ہر دم متغیر بھی رہا ہے۔ یعنی اس حوالے سے کوئی مستقل پالیسی مشاہدے میں نہیں آتی۔ مختلف حکومتیں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر زبان کے مسئلہ پر سیاسی کھیل کھیلتی نظر آتی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں 1979 کی تعلیمی پالیسی میں اردو کی سرپرستی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انگریزی میڈیم سکولوں کے تما م طلبا کو اردو یا صوبائی زبان میں پڑھایا جائے۔ اس طرح دسویں جماعت کے طلبہ کے لئے اردو ذریعۂ تعلیم اختیار کر لیا گیا۔ بہت سے دیگر سیاسی فیصلوں کی طرح اس مسئلہ پر بھی بحث مباحثہ کئے اور اتفاق رائے پیدا کئے بغیر نافذ کر دیا گیا۔ تعلیمی منظر نامے پر اس فیصلے نے ہلچل مچا دی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسی دور میں پرائیویٹ سکولوں کی حوصلہ افزائی کی گئی‘ جس کے نتیجے میں ان تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘ دوسرے لفظوں میں اس فیصلے سے انگریزی میڈیم سکولوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ اس کے بعد انگریزی زبان کے مرتبہ میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گیا۔ بعد میں پرویز مشرف کی حکومت نے انگریزی کو پہلی جماعت سے ذریعہ تعلیم قرار دے دیا۔ اس فیصلے پر بھی شدید تنقید سامنے آئی۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ زبان کوئی زباندانی (Linguistic)کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی و سیاسی حقیقت ہے جس میں معیشت ایک لازمی حصہ ہے۔
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے‘ ہم اس کے جائز مقام کو محض سیمیناروں میں جذباتی تقاریر کر کے واپس نہیں لا سکتے۔ اگر ہم اپنی زبان کے حوالے سے واقعتاً سنجیدہ ہیں تو پھر ہمیں زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اردو کو طاقت کے ایوانوں کی زبان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے مقابلے کے امتحان، تمام اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں میں داخلے کی زبان بنایا جائے‘ اردو کی حدود کو وسعت دی جائے، اسے علم کا منبع بنایا جائے، دوسری زبانوں سے اردو میں تراجم کئے جائیں۔ جب تک اردو زبان کو ملازمت، اعلیٰ تعلیم اور طاقت کے مراکز سے نہیں جوڑا جاتا انگریزی زبان یہاں قوت کا مرکز ہی رہے گی۔ اگر عملی و حقیقی بنیادوں پر اردو کو با ثروت بنانے اور اس کی ترویج کے لیے حکومتی سطح پر با معنی اقدامات کیے جائیں تو پھر اس کے لئے سیمیناروں میں جذباتی تقاریر کی ضرورت نہیں نہ رہے گی اور یوں ہماری قومی زبان کو اس کا حقیقی مقام مل جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved