تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     24-02-2021

آپریشن ردّالفساد کے ثمرات

پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف مختلف آپریشنز کامیابی سے سرانجام دے چکی ہے جن میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپریشن راہِ راست، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں راہِ نجات، جنرل راحیل شریف کے دور میں ضربِ عضب شروع کیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افواجِ پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا تھا اور اس آپریشن میں دہشت گردی کے شکار علاقوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کارروائیاں کی گئیں کیونکہ یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں اور ان عناصر پر بھی کاری ضرب لگائی جائے جو غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر ملک کے اندر فساد برپا کر رہے تھے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروہوں کو را سمیت دیگر ملک دشمنوں سے فنڈنگ مل رہی ہے۔ یہ عناصر نوجوان نسل کی برین واشنگ کرتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت پھیلاتے ہیں۔ یہ شدت پسند محض اسلحے کے ساتھ کارفرما نہیں تھے بلکہ کچھ این جی اوز کی آڑ میں سوشل میڈیا پیجز چلا رہے تھے، ان میں سے کچھ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے جن کو پکڑ کر واپس لانا بہت ضروری ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک میں ضربِ عضب آپریشن شروع کیا گیا تھا، اس آپریشن سے دہشت گردوں کا بہت تک صفایا ہو گیا تھا۔ پاکستان کی افواج نے یہ عہد کیا تھا کہ اپنے بچوں کے قاتلوں سے بدلہ لیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ اس آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی لہر میں واضح کمی آئی۔ اس کے بعد فروری 2017ء میں آپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا تو اس آپریشن میں فسادیوں، شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو ٹارگٹ بنایا گیا۔
اس آپریشن کا نام بہت معنی خیز ہے، سورۃ البقرہ، آیت گیارہ اور بارہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ''جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فساد برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں‘‘۔ عربی میں فساد کرنے والوں کو المفسدون کہا جاتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں فساد کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی لئے پاک فوج نے آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا۔ ملک بھر میں کارروائیاں ہوئیں اور ابتدائی طور پر شرپسندوں کے خلاف کراچی، پشاور، مردان، راولپنڈی، صوابی، ہنگو اور چارسدہ میں کارروائیاں کی گئیں۔ اس کے بعد سابقہ فاٹا، بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں کارروائیوں کو مزید تیز کر دیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران موبائل سیٹ، غیر ملکی سمیں، غیر ملکی کرنسی، ممنوعہ لڑیچر، ادویات اور غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا گیا۔ پکڑے اور مارے جانے والے بیشتر شدت پسندوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ساتھ تھا۔ اس آپریشن میں مسلح افواج، رینجرز، پولیس، سی ٹی ڈی، خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مشترکہ طور پر کارروائیاں کیں۔ سب سے پہلے شرپسندوں کی معاشی کمر توڑی گئی، ان کو حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسے ملتے تھے۔ بارڈر پر باڑ لگنے سے اسلحے کی غیر قانونی ترسیل، دہشت گردوں کی نقل مکانی، سمگلنگ اور جرائم میں کمی آئی اور غیر قانونی طور پر رقوم کی ترسیل میں کمی واقع ہونے لگی۔ اس وقت پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا 85 فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ اس باڑ کی وجہ سے غیر قانونی طور پر سرحد پار نہیں ہو سکے گی، اس باڑ منصوبے کے تحت 497 قلعے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو دہشت گرد پہلے بھارت کے ایما پر افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کرنے آتے تھے‘ اب ان کی راہ میںباڑ حائل ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ باڑ لگانے کے دوران متعدد بار افغانستان سے پاک فوج کے جوانوں پر حملے ہوئے۔ اس دوران 48 ہزار سے زائد بارودی سرنگوں کا صفایا بھی کیا گیا جس دوران کئی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا، اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، آمین! یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ بھارت کا جلال آباد میں قائم قونصل خانہ کرائے کے قاتلوں کو پال رہا ہے اور سانحہ اے پی ایس میں ملوث دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی بھارت ہی کر رہا تھا۔ آپریشن ردالفساد کے دوران 37 ہزار پولیس افسروں اور 3800 سے زائد اہلکاروں کو ٹریننگ دی گئی۔ اس آپریشن کے تحت 3 لاکھ 75 ہزار سے زائد کارروائیاں کی گئیں اور ملک کا امن بحال کیا گیا۔ ردالفساد کے تحت آپریشن خیبر فور بھی کیا گیا اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اب مسلح افواج کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں سے 750 مربع میل سے زائد کے علاقے پر ریاست کی رٹ بحال کی جا چکی ہے۔
جب اس آپریشن کے آغاز کا اعلان ہوا تھا تو ایک نوجوان لڑکی کی وڈیو بھی نشر کی گئی تھی جو میڈیکل کی طالبہ تھی لیکن برین واشنگ کر کے اس کو دہشت گرد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ پاک فوج نے اس کو بازیاب کروایا۔ اس کے والد خود پروفیسر تھے لیکن کب‘ کیسے یہ لڑکی دہشت گردوں کے ساتھ چلی گئی‘ یہ بات حیران کن بھی تھی اور افسوس ناک بھی۔ اس آپریشن کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اپنے بچوں کو شدت پسندی سے بچا کر رکھنا ہے تاکہ وہ دشمنوں کے آلہ کار نہ بن جائیں۔ اس آپریشن کے تحت5 ہزار سے زائد افراد کو شدت پسندی سے ہٹا کر معاشرے کا کارآمد شہری بنایا گیا۔ آپریشن رد الفساد میں 353 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور 1200سے زائد شدت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف بہت سے جعلی اکائونٹس چلا رہا تھا، ان میں جعلی بلوچ‘ پشتون اور مہاجر اکائونٹس بھی شامل تھے جن کو جلال آباد اور کولکتہ سے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔ وہاں بیٹھ کر پاکستان میں انتشار پھیلایا جا رہا تھا جس کا مقابلہ پاکستان کی نئی نسل نے بخوبی کیا۔ آئی ایس پی آر نے نئی نسل کو بروقت اس خطرے سے آگاہی دی اور بعد ازاں یورپی یونین کے ادارے نے بھارت کی منفی مہم کا پردہ دنیا بھر کے سامنے چاک کر دیا؛ تاہم والدین کو بہت چوکنا رہنا ہوگا کہ ان کے بچے کیا کر رہے ہیں، ان کی سوشل میڈیا پر کیا سرگرمیاں ہیں، اس پر ان کو گہری نظر رکھنا ہو گی۔
آج جب رد الفساد کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں تو ملک پُرامن ہے، کھیل کے میدان آباد ہیں، غیرملکی ٹیمیں ملک میں کھیلوں کے لئے آ رہی ہیں۔ نیوی کی امن مشقوں میں دنیا کے 45 ممالک نے حصہ لیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اس کو بجا طور پر ٹیررازم سے ٹورازم کا سفر قرار دیا ہے۔ یہ سب ان لوگوں کی قربانیوں کی بدولت ممکن ہوا جنہوں نے ردالفساد میں بہت کام کیا۔ اگرچہ ہر پاکستانی رد الفساد آپریشن کا سپاہی ہے اور ہم سب کو اپنے ملک کیلئے کام کرنا ہوگا مگر میں ان ہیروز کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اس وقت جبکہ فوج اور سکیورٹی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ کیا ہم، آپ اپنا کام کر رہے ہیں؟ اس وقت بھی کچھ فسادی سوشل میڈیا پر ہر وقت ریاست مخالف پروپیگنڈا کرتے رہتے اور ملک کی معروف شخصیات کو بدنام کرتے ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کا یہ فرض بنتا ہے کہ دلیل اور حقائق کے ساتھ انہیں جواب دے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے یہ فسادی داعش سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین، بلاگز، یوٹیوبرز، میمز آرٹسٹس اور انٹرنیٹ سٹارز کو چاہیے کہ وہ اپنے کام کے ذریعے ملک میں اعتدال پسندی اور پاکستانیت کو فروغ دیں۔ نوجوان اس ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، انہیں تعلیم، ثقافت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ ہر پاکستانی ردالفساد آپریشن کا سپاہی ہے، آئیں اپنی ریاست، حکومت اور افواج کے ساتھ مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved