تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-02-2021

سرخیاں، متن اور افضال نوید

ادارے بظاہر نیوٹرل لگتے ہیں: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سینیٹ الیکشن میں ادارے بظاہر نیوٹرل لگتے ہیں‘‘ جبکہ اس کے برعکس بیان دے کر ہم اینٹ سے اینٹ بجانے والے اعلان کی یاد تازہ نہیں کرنا چاہتے جس کے بعد والد صاحب کو اینٹیں اکٹھی کرنے کے لیے دبئی جانا پڑ گیا تھا، نیز اگر اداروں سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ نواز لیگ والوں کا مسئلہ ہے جبکہ ہم تو کلیئر ہو چکے ہیں اور دوبارہ اس جھگڑے میں ملوث نہیں ہونا چاہتے اور ڈسکہ میں جو کچھ ہوا ہے اس کا بھی کسی ادارے کے ساتھ کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
سرکاری ہسپتالوں میں ادویہ کی کمی نہیں ہے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے ''سرکاری ہسپتالوں میں ادویہ کی کمی نہیں ہے‘‘ اور اگر مریضوں کو دوا مفت میں نہیں ملتی تو یہ ان کی قسمت کی بات ہے کیونکہ ہر شخص رزق کے ساتھ ساتھ اپنی دوائیں بھی ساتھ لکھا کر آتا ہے، اس لیے مریضوں کو کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے اور صحت سے بڑھ کر آدمی کے لیے اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور جو مریض ہسپتال پہنچ سکتا ہے وہ دوا بھی خرید سکتا ہے۔ آپ اگلے روز الحمرا میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
جامع جیل ریفارمز ایجنڈے پر کام
کر رہے ہیں: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''جامع جیل ریفارمز ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں‘‘ اور جیل ریفارمز ایجنڈے کو ملکی ریفارمز ایجنڈا ہی سمجھا جائے کیونکہ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ایک طرح سے پورا ملک ہی جیل کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور بہت جلد سارے عوام کو جیل والوں کی طرح دال ہی پینا پڑے گی جس سے مہنگائی کا بھی قلع قمع ہو گا کیونکہ جب مٹن، چکن، بیف اور سبزیاں خریدنے والا ہی کوئی نہیں ہو گا تو مہنگائی کہاں سے آئے گی جس نے ہمیں اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ کسی طرف سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آتی۔ آپ اگلے روز قصور جیل میں کیمروں کی تنصیب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
خرید و فروخت کی روایت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''فرسودہ خرید و فروخت کی روایت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے‘‘ اور نئی خرید و فروخت کی روایت ڈالنا ضروری ہے کیونکہ سیاست بنیادی طور پر کام ہی خرید و فروخت کا ہے اور اس میں دُہری مشقت بروئے کار لانا پڑتی ہے، یعنی ایک طرف اپوزیشن کے ووٹ خریدنا اور دوسری طرف اپنے ووٹوں کو بکنے سے بچانا اور یہ سارا کچھ اپنی اپنی توفیق پر منحصر ہے، یعنی اس کے لیے کسی پارٹی کو زیادہ توفیق سے نوازا جاتا ہے اور کسی کو کم توفیق سے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کے یکطرفہ فیصلے، مولانا فضل الرحمن
کی بے توقیری ناقابل برداشت : حافظ حسین
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کے یکطرفہ فیصلے، مولانا فضل الرحمن کی بے توقیری ناقابل برداشت ‘‘ اور معلوم نہیں مولانا خود اسے کیسے برداشت کیے ہوئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ تحریک کے لیے چندوں کا بھی وہ عالم نہیں رہا اور اس طرح انہیں فاقہ کشی پر مجبور کیا جا رہا ہے بلکہ دھرنے کے لیے رقم دینے سے تو نواز لیگ نے بھی صاف انکار کر دیا ہے جبکہ اس سے زیادہ قطع رحمی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ہمیںان کے ساتھ پوری ہمدردی ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں افضال نوید کی تازہ غزل
کہ جیسے میں میرے اندر کہیں نہیں ملتا
مجھے وہ اپنے سے باہر کہیں نہیں ملتا
خلا ہے جس نے صدائوں کو روک رکھا ہے
سکوں وگرنہ زمین پر کہیں نہیں ملتا
میں اپنے ہاتھ میں دستک اٹھائے پھرتا ہوں
یہیں کہیں تھا کوئی در کہیں نہیں ملتا
عجیب مشغلے ہیں نیند کے علاوہ بھی
میں اپنے آپ کو اکثر کہیں نہیں ملتا
ہوا کے جھونکے میں محسوس تم کو کرتا ہوں
لپٹنا چاہیں تو پیکر کہیں نہیں ملتا
قیام وقفوں میں ہے کائناتوں میں مجھ کو
یہ سلسلہ متواتر کہیں نہیں ملتا
نویدؔ کون سی لہروں میں بند رہا ہُوا ہوں
نکل پڑا تو سمندر کہیں نہیں ملتا
آج کا مطلع
نظر کو چھوڑیے، صرفِ نظر ہی ممکن ہے
قیام کر نہیں سکتے سفر ہی ممکن ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved