برصغیر کے ایک بہت بڑے صنعت کار اور ایک مشہور کاروباری شخصیت‘ جس کی دولت اور ثروت کا آزادی سے قبل بھی ڈنکا بجتا تھا‘ کی میز پر اس کے ایک صنعتی یونٹ کے کارکنوں اور ملازمین کی بھیجی گئی درخواست رکھی تھی۔ اس درخواست میں ملازمین کیلئے مخصوص ٹائلٹس کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے بھارت کی سب سے بڑی ہوٹل انڈسٹری کے مالک سے اپیل کی گئی تھی کہ ان کے ٹائلٹس کی مرمت اور صفائی کے احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ ان کی حالت اس قدر خستہ اور خراب ہو چکی ہے کہ ہر وقت گندا پانی کسی جوہڑ کی صورت میں ان ٹائلٹس میں بہتا رہتا ہے جس سے فیکٹری کے اندر بھی سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ملازمین کی یونین بھی گزشتہ ایک برس میں کارخانے کے سینئر افسران سے بار ہا گزارش کر چکی تھی لیکن کوئی بھی اس تکلیف اور پریشانی کی جانب توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اب مالک کو براہِ راست درخواست دیتے ہوئے کچھ ٹائلٹس کی تصاویر بھی درخواست کے ساتھ منسلک کی گئی تھیں۔
اگلے دن مذکورہ صنعتی یونٹ میں بھاگ دوڑ دیکھنے کو ملنے لگی، سب حیران تھے کہ نجانے کیا ماجرا ہے۔ قریب ایک گھنٹے بعد بھید کھلا کہ صنعت کار مالک خود اس فیکٹری میں تشریف لا رہا ہے۔ یہ کسی کو بھی علم نہ تھا کہ اچانک اس دورے کا مقصد کیا ہے۔ حسب روایت فیکٹری کے اندر‘ باہر ظاہری صفائیاں ستھرائیاں شروع کر دی گئیں لیکن ہوا یہ کہ اس صنعت کار نے آتے ہی سب سے پہلے کارکنوں کیلئے مخصوص کئے گئے واش رومز کا رخ کیا اور کارخانے کے بڑے افسران کے ہمراہ ایک ایک واش روم کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس کا رخ افسران اور ایگزیکٹوز کیلئے مختص واش رومز کی طرف ہو گیا۔ اپنے چیف ایگزیکٹو کے تاثرات دیکھ کر تمام افسران کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، وہ حیران تھے کہ اچانک اس دورے اور انسپیکشن کا مطلب کیا ہے۔ صنعت کار نے اپنے صنعتی یونٹ کے جنرل منیجر سے پوچھا کہ ان ملازمین کے واش رومز کو افسران کے ٹائلٹس جیسی حالت میں لانے کیلئے کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ منیجر نے روایتی انداز میں تخمینہ لگاتے ہوئے کئی کروڑ روپوں کے خرچے کے علاوہ کم ازکم ایک ماہ کا عرصہ طلب کیا۔
صنعت کار نے وہیں کھڑے کھڑے حکم صادر کیا کہ ایگزیکٹوز کے واش رومز کے باہر لگائی گئی تختیاں جن پر ''برائے افسران‘‘ درج ہے‘ یہاں سے اکھاڑ کر کارکنوں اور عام ملازمین کے واش رومز کے باہر لگا دی جائیں اور ملازمین کیلئے مختص ٹائلٹس کی تختیاں اتار کر افسران کے باتھ رومز کے باہر اس وقت تک لگا دی جائیں جب تک ملازمین کے واش رومز کا مرمتی کام مکمل نہیں کر لیا جاتا اور جب ملازمین اور کارکنوں کے ٹائلٹس کا تعمیراتی کام مکمل ہو جائے تو یہ تختیاں بدل دی جائیں۔ اس کے بعد مالک نے اپنے جنرل منیجر ایڈمن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ''میرا یہ حکم یاد رکھنا کہ اب کے بعد سے ہر پندرہ دنوں بعد افسران اور ملازمین کے ٹائلٹس کی تختیاں باقاعدگی سے تبدیل ہوا کریں گی تاکہ ان دونوں کی صفائی ستھرائی اور اس میں رکھے جانے والے تولیے، صابن اور دوسری حفظانِ صحت کی اشیا کا معیار ایک جیسا ہو سکے اور اس سب کو میں ذاتی طور پر مانیٹر کروں گا کہ میرے ان احکا مات پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں، اس سلسلے میں کسی قسم کی سستی یا کوتاہی برداشت نہیں ہو گی۔
یہ ساری کہانی پانی اور سیوریج سے متعلقہ ادارے کے افسران کی کارگزاری سے یاد آ گئی جن کے دل میں نجانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے عوام کے کئی برسوں پرانے مطالبے پر کان دھرتے ہوئے لاہور ملتان روڈ کے بعض علاقوں میں نکاسیٔ آب کیلئے پائپ لائن بچھانے کا حکم دیتے ہوئے ایک ٹھیکیدار کو یہ کام سونپ دیا۔ اس کا با قاعدہ آغاز 15 ستمبر 2020ء کو کیا گیا تھا۔ اس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا کہ دیر سے ہی سہی‘ کسی نے تو ان کیلئے سیوریج کی سہولت کا سوچا۔ واسا اور پنجاب حکومت کیلئے ان کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ ٹھیکیدار نے سیوریج پائپ بچھانے کیلئے گلی تین تین فٹ نیچے تک کھودنا شروع کر دی۔ جب پوری گلی کھود دی گئی پھر نجانے کس کی نظر بد لگ گئی یا ادارے میں بیٹھے افسران پر کسی مخالف کا دبائو پڑ گیا یا وہ ٹھیکیدار بھول گیا کہ ملتان روڈ سمن آباد میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد سیوریج کی پائپ لائن بچھانے کیلئے تین فٹ گہری نالی کھودی جا چکی ہے‘ خدا جانے کیا معاملہ درپیش آیا کہ وہ دن اور آج کا دن‘ کام وہیں ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ وہ کھدائی جو پائپ بچھانے کے لیے کی گئی تھی، اب ایک بدبودار نالے میں تبدیل ہو نے کے علاوہ اس گلی سے گزرنے والی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کیلئے ایک عذابِ مسلسل کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس علاقے کے رہائشی وزیراعظم آفس سے لے کر وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری تک، واسا اور ایل ڈی اے کے افسران کے علاوہ ایک ایک ادارے کے پاس کبھی درخواست، کبھی ای میل تو کبھی ذاتی طور پر پیش ہو کر فریاد کر چکے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر ادارے کا سیوریج کیلئے پائپ لائن بچھانے کا پروگرام تبدیل ہو چکا ہے تو کم از کم اس نالے کو مٹی یا اینٹوں سے ہی بھر دیا جائے تا کہ نہ صرف مقامی افراد اس نالے میں ہر وقت تیرنے والے بدبودار پانی اور کیچڑ کے قہر سے بچ سکیں، بلکہ بچوں کے اس میں گرنے کے باعث پیش آنے والے حادثات کا بھی تدارک ہو سکے۔ نماز کی ادائیگی کیلئے مساجد اور سکول جانے والے بچوں کو روزانہ پہنچنے والی تکلیف اور پریشانی کا اندازہ مذکورہ ادارے کے عہدیداران اور اپنے دفاتر میں بیٹھ کر حکم چلانے والے وہ افسران کیسے کر سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی تکالیف سے کبھی پالا ہی نہیں پڑا؟
اسی طرح لاہور میں شوکت خانم ہسپتال چوک پر بننے والے اوور ہیڈ برج کی کہانی بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ پچھلی حکومت کے چیف سیکرٹری سمیت ایل ڈی اے اور اس کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو ہسپتال کے اردگرد درجنوں ہائوسنگ سوسائٹیز میں رہنے والے لاکھوں رہائشیوں نے درخواستیں دی تھیں کہ مذکورہ اوور ہیڈ برج بننے سے ٹریفک کا نظام پہلے سے زیادہ بری طرح جام ہو جانے کا خدشہ ہو گا، کیونکہ اس مصروف ترین چوک میں اگر ٹریفک کا اوور ہیڈ برج بن گیا تو یہاں غیر معمولی رش ہو جائے گا، اگر اس چوک میں ٹریفک کا مسئلہ حل کرنا مقصود ہے تو اس اوور ہیڈ برج کے بجائے اس سڑک کے نیچے انڈر پاس بنایا جائے مگر ان سب درخواستوں پر یہ کہتے ہوئے کان دھرنے سے معذرت کر لی گئی کہ اس کا فیصلہ جاتی امرا اور فلاں کالونی میں رہائش پذیر ایک بڑی شخصیت ہی کر سکتی ہے کیونکہ یہ ہمارے اختیار اور بس کی بات نہیں۔ اب ہسپتال چوک پر وہ اوور ہیڈ برج بن چکا ہے اور یہاں تین سے چار فرلانگ دور تک طویل ٹریفک کی قطاریں عام دیکھنے کو مل جاتی ہیں، اس کے علاوہ یہاں آئے روز ہونے والے حادثات کا توکسی کو کوئی احساس ہی نہیں۔ جنہوں نے اوپر سے ہوٹر بجاتے گزرنا تھا وہ عوام کو پہنچنے والی تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ عوام کو پہنچنے والی پریشانی اور تکلیف کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جن کا روزانہ یا اکثر اوقات یہاں سے گزر ہوتا ہے۔ لاہور کی اسی سڑک پر کچھ فاصلے پر پنجاب سروس کمیشن کے نئے امتحانی ہال اور دفتر کی جانب جانے والی سڑک کے ایک فرلانگ حصے کو اکھاڑ کر اس کی مرمت کا سوچا گیا تھا، چند دنوں بعد مٹی برابر ہونے کے بعد اس پر پتھر بھی ڈال دیے گئے لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ کام روک دیا گیا۔ اب اس سڑک پر ڈالے گئے پتھر اکھڑ کر ادھر ادھر پھیل چکے ہیں اور یہاں سے گزرتے ہوئے جس پریشانی اور تکلیف کا سامنا عوام کو کرنا پڑتا ہے اس کا منصوبہ سازوں کو اسی وقت احساس ہو گا جب عوام کو سہولت دینے کیلئے وزیروں، مشیروں، اعلیٰ افسران اور ٹھیکیداروں کے گھروں کی تختیاں عوام کی تختیوں کے ساتھ تبدیل کی جائیں گی۔