تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     27-02-2021

لو ہم بھی پارسا ہوئے

عنوان کچھ مبالغہ آمیز ہے۔ مکمل پارسائی نہیں لیکن پارسائی کی طرف ایک اہم قدم اٹھ چکا ہے۔ بات چونکہ احتیاط سے کرنی ہے تو فقط اتنا ہی کافی ہے کہ اعتدال کے راستے پہ چل پڑے ہیں۔ یونانی سوچ کا جو اہم نقطہ ہے کہ ہر چیز میں بیلنس ہونا چاہئے ہمیں یہ بات اس عمر میں سمجھ آرہی ہے۔ وہ بھی دھیرے دھیرے۔ مکمل گیان کب ہوگا یہ تو آسمان جانیں۔
بہرحال ہوا یوں کہ چند سال پہلے جب دل کے معائنے کی ضرورت پڑی تو ہمارا جانا فوجیوں کے ہسپتال آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہوا۔ یہ ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں دل کا شعبہ ہے۔ اُس وقت وہاں کے سربراہ میجر جنرل اظہر محمود کیانی تھے جنہوں نے بعد میں راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی بہت کامیاب سربراہی بھی کی۔ دل کا معائنہ جنرل صاحب نے کیا اور جب دو تین روز بعد ہم ہسپتال سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور پھر ہنستے ہوئے یہ انتباہ بھی کیا کہ جو تمہاری مخصوص دوا ہے اس کا استعمال ہفتے میں تین بار کیا کرو۔ جنرل صاحب کے ذوق اور ظرف کا ملاحظہ تو ہو۔ یہاں جس ڈاکٹر سے پالا پڑے وہ پابندیاں لگانا شروع کر دیتا ہے، یہ نہ کرو فلاں چیز سے پرہیز کرو۔ ڈاکٹروں کی سنی جائے تو زندگی کی تمام چاشنی چلی جائے۔ لیکن جنرل صاحب تھے جو ہفتے میں تین بار کی اجازت دے رہے تھے اور وہ بھی ایک بھینی مسکراہٹ کے ساتھ۔
یقینا اُن کا تجویز کردہ نسخہ بہت ہی کارآمد تھا لیکن مسئلہ یہ بنا کہ ہمارا حساب کمزور نکلا۔ ہفتے میں تین بار کی گنتی ہم سے ٹھیک طرح نہ ہو پاتی۔ شروع میں تین دن چار دن ہو گئے، پھر پانچ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال کا ڈر دل سے جانے لگا اور تین دن کبھی چھ دن ہو جاتے کبھی سات۔ لیکن جنرل صاحب کے تجویز کردہ نسخے کی افادیت اور اہمیت کا احساس اب ہو رہا ہے اور ہم تین دن پہ آ گئے ہیں۔ پارسائی کی طرف یہ نہایت ہی اہم قدم ہے۔ شروعات اگر یہ ہیں تو دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ ہماری دادی اماں نے والد صاحب سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ امیر (ان کا نام امیر تھا) زندگی وچ کدی روزہ رکھیا ای؟ والد صاحب نے جواب دیا کہ ایک روزہ رکھا تھا لیکن لوہے جیسا پکا۔ ارادہ مصمم ہے کہ جنرل صاحب کے فارمولے پہ لوہے جیسی مضبوطی سے قائم رہیں گے۔
والد صاحب نے ایک دفعہ یہ بھی کہا تھا کہ اور تو تم سے کوئی امید نہیں لیکن دو چیزوں سے پرہیز کرنے کی کوشش کرنا، ایک جیل دوئم ہسپتالوں سے۔ جیل ایک دو بارجانا پڑا لیکن اِس عمر میں اس راستے پہ پھر چلنے کا شاید اب خطرہ نہ ہو۔ البتہ ہسپتالوں کے حوالے سے حتی المقدور کوشش رہی ہے کہ ڈاکٹروں سے دور ہی رہا جائے۔ لیکن اس اعتراف میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ڈاکٹروں کی ضرورت پڑی بھی تو فوجی ڈاکٹر ہی کام آئے۔ یعنی یوں تو ہم جمہوریت پسند ٹھہرے لیکن بوقت ضرورت اسٹیبلشمنٹ کے دواخانوں نے ہی فائدہ پہنچایا۔ جنرل صاحب کا ذکر تو میں کر چکا۔ کچھ سال قبل دوسرا مسئلہ جو اٹھا وہ دانتوں کا تھا۔ جب پہلے پہلے اسلام آباد آئے تو کسی کمبخت نے ایک فیشن ایبل دانتوں کے ڈاکٹرکا کہا کہ وہاں ضرور جانا چاہئے۔ کلینک ان کا نہایت ہی عمدہ تھا اور جو ریسیپشن پہ خاتون یا یوں کہئے دوشیزہ بیٹھی تھیں وہ نہایت ہی خوش لباس اور خوش شکل تھیں۔ یہاں تک تو ہمیں ہر چیز پسند آئی لیکن ڈاکٹر صاحب جن کے پاس بہت سی فارن ڈگریاں تھیں نے نہایت ہی غیر ضروری طور پہ دانتوں کے ساتھ وہ کیا کہ جہاں کمزوری نہیں تھی وہاں کمزوری پیدا کردی۔ پھر کچھ دانتوں کا ستیاناس چکوال میں ہوا لیکن معاملہ چونکہ چکوال کا ہے تو زیادہ تفصیلات میں جانا مناسب نہ ہوگا۔ بہرحال چکوال سے تباہی کے بعد کسی اور دانتوں کے معالج کی ضرورت پڑی۔ اِدھر اُدھر پوچھا تو اسلام آباد میں ایک ملک صاحب ہیں جن کا بتایا گیا کہ بڑا ہنر رکھتے ہیں۔ وہاں گئے تو واردات وہی پرانی کہ کلینک نہایت عمدہ اور ماڈرن فرنیچر سے آراستہ لیکن وہاں بھی دانتوں کا وہ حشر ہوا جو کسی دشمن کے ساتھ کریں تو تب ہی اچھا لگے۔ کچھ دانت بنوانے بھی پڑے اور یقین مانئے کہ اس کام کی فیس سوا لاکھ تھی۔ دانت چڑھائے تو تکلیف شروع ہو گئی۔ بڑے نام والے ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا تو انہوں نے کہا کہ اس بار میں خود سائز وغیرہ لوں گا۔ سائز لیتے وقت جو ناٹک ڈاکٹر صاحب کرسکتے تھے انہوں نے بھرپور انداز سے کئے۔ کچھ دن بعد جو چھوٹی سی پَتری تیارہونا تھی ہم نے اسے آزمایا اور وہ بھی بیحد فضول اور تکلیف دہ نکلی۔
ان دنوں ٹی وی پروگرام کرنے لاہور باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ اسلام آباد کے دانتوں کے ڈاکٹر آزما چکے تو مجبوراً لاہور فوجیوں کے ہسپتال یعنی سی ایم ایچ کا رخ کیا۔ وہاں آرمی ڈینٹل سنٹر پہنچے تو باہر ایک صاحب کھڑے تھے جنہوں نے جھٹ پوچھا کہ یہاں کیسے آنا ہوا۔ سیدھا اندر لے گئے اور مخصوص کرسی جو دانتوں کے ڈاکٹروں کی ہوتی ہے اس پہ بٹھا دیا۔ معلوم ہوا کہ یہ آرمی ڈینٹل سنٹر کے سربراہ بریگیڈیئر نعیم رانا ہیں۔ چند ہی منٹوں میں دانتوںکا ماپ لیا اور مختصر سی تاریخ دی کہ اس دن آکے لے جانا۔ دانت پہنے تو یوں سمجھئے کہ راحت آگئی۔ دو تین سال سے استعمال کررہا ہوں اور ایک دن بھی پرابلم نہیں ہوئی۔
جمہوریت اور سویلین بالادستی کے ساتھ وابستگی ہماری اتنی ہی پختہ اور محکم ہے جتنی ہونی چاہئے‘ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دل کے زوایوں کے معائنے کی ضرورت پڑی تو فوجیوں سے رجوع کیا اور دانت بھی ٹھیک ہوئے تو فوجی ڈاکٹروں کے ہاتھوں۔ یعنی جمہوریت سے وابستگی اپنی جگہ اور اس میں کوئی خلل نہیں آسکتا لیکن درست علاج کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ ہمیں جس نالائقی کا تجربہ ہوا اس کے علاوہ سویلین ڈاکٹروں کی ایک اور بات کبھی سمجھ نہیں آئی۔ سرکاری ہسپتالوں میں دفتری اوقات میں ان سے ملیں تو عجیب تکلیف میں مبتلا اور ستائے ہوئے چہرے اِن کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شام کوجب اپنی پرائیویٹ پریکٹس کررہے ہوں اور آپ نے ان کو ملنے کیلئے نوٹ بھرے ہوں تو اِنہی ستائے ہوئے چہروں پہ رونق بکھر جاتی ہے۔ وہ جو مشہوراور نہایت ہی موزوں گانا ہے ''مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ اس میں پنہاں اصول صرف فن کی بلندیاں چھونے والوں پہ نہیں بلکہ ڈاکٹروں پہ بھی فِٹ بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹروں کا موڈ بھی تب بنتا ہے جب آگے سے نوٹ دئیے ہوں۔ اسی لیے یہ فیصلہ تو ہمارا اٹل ہے کہ سیاست ہماری جمہوریت پسند لیکن علاج معالجے کیلئے فوجی ڈاکٹر اور ہسپتال ہی بہتر۔
بہرحال چونکہ اعتدال کی رسی مضبوطی سے تھام لی ہے تو طبیعت میں بے چینی قدرے کم ہو گئی ہے۔ اس امر کا احساس خود ہو چلا ہے کہ طبیعت کی اس تبدیلی سے پہلے کسی خوش پوش چہرے کا گزر ہوتا تو دل میں عجیب سا اضطراب پیدا ہو جاتا تھا۔ اب نظریں سیدھی ہی رہتی ہیں جو کہ استحکامِ مزاج کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ لاہور کا بھی بھلا ہو، بہت ترقی کر گیا ہے۔ آزاد منش لوگوں کے آرام اور خاطر کیلئے بہت سے صحت کدے اب کھل ہو چکے ہیں۔ صحت کدہ ترجمہ ہے انگریزی اصطلاح health spa کا۔ میں نے ایک دفعہ health spa کا ترجمہ ہنر کدہ کیا تھا۔ برادرِ عزیز عرفان صدیقی صاحب‘ جو ماشاء اللہ سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں‘ نے تصحیح کی اور کہا کہ بھائی سیدھا سیدھا صحت کدہ لکھو۔ ظاہر ہے ان کی تصحیح سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved