سامراج کی ساری تاریخ ظلم اور زبردستی سے عبارت ہے۔ نوآبادیات پر قابو پانے کیلئے کہیں لالچ اور کہیں جبر کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ برطانوی حکمرانی کے تحت ہندوستان کا منظرنامہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا جہاں استعمار نے ایک طرف جابرانہ طریقوں سے اختلافِ رائے کو ختم کیا اور دوسری طرف متعصبانہ تعلیم اور زبان کی پالیسیاں نافذ کرکے ذہنوں کو غلام بنانے کی کوشش کی گئی۔ غلامی کے اس عمل میں تعلیم کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟ تعلیم کا رجعت پسندانہ تصور یہ تھا کہ تعلیم غیر فعال Passive))، غیر جانبدار (Neutral) اور غیر سیاسی(Apolitical) ہے لیکن تعلیم کا عصری تصور ہمیں بتاتا ہے کہ تعلیم کا براہِ راست تعلق سیاست اور طاقت کے ساتھ ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے سامراجی طاقتیں تعلیم اور زبان کو ہر دور میں ذہنی تسخیر اور بالا دستی کے عمل میں ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ تعلیم ذہنوں کو کیسے مسخر کرتی ہے اس کیلئے ہمیں اطالوی دانش ور انتونیو گرامچی کی کتاب The Prison Notebook سے رجوع کرنا ہو گا۔ یہ کتاب جو گرامچی نے اپنے ایامِ اسیری میں لکھی تھی بالا دستی (Hegemony) کے تصور پر بحث کرتی ہے۔ گرامچی کے مطابق بالا دستی کیلئے پولیٹیکل سوسائٹی اور سول سوسائٹی‘ دونوں اپنا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان دونوں کا طریقہ کار مختلف ہے۔ پولیٹیکل سوسائٹی بالا دستی کے حصول کیلئے طاقت کا استعمال کرتی ہے لیکن سول سوسائٹی طاقت کے استعمال کے بغیر ذہنوں کو تسخیر کرتی ہے۔ سول سوسائٹی کے ذریعہ بالا دستی کا عمل لطیف انداز میں ہوتا ہے اور ذہنوں کو اس طرح سے کنٹرول کیا جاتا ہے کہ نوآبادیاتی گروہ غلام بننے کیلئے ''بے ساختہ رضا مندی‘‘ (Spontaneous Consent) دے دیتا ہے۔ اس طرح تعلیم ذہنوں پر قابو پانے کا ایک مضبوط ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس ذہنی تسخیر کے عمل میں سماجی ادارے اور سماجی علوم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان علوم میں تعلیم کا مرکزی کردار ہے جو ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یوں تعلیم اور تعلیمی ادارے سول سوسائٹی کے مؤثر ہتھیار کے طور پر لوگوں کے ذہنوں کی تسخیر کرتے ہیں اور تسلط کے عمل میں سامراج کا ساتھ دیتے ہیں۔ یوں تعلیم ایک متحرک(Vibrant) اور سیاسی تصور کے طور پر سامنے آتی ہے جو خیالات کی تشکیل اور ذہنوں کی تسخیر کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔
ہندوستان میں فرنگی اقتدار نے جہاں جبر کے ہتھکنڈوں سے جسم تسخیر کیے وہیں تعلیم کے ذریعے لوگوں کو ذہنی غلامی کے جال میں پھنسایا گیا۔ ایک مربوط طریقے سے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ انگریزی تہذیب، تمدن، تعلیم اور زبان باقی سب تہذیبوں اور زبانوں سے برتر ہے۔ یہ احساسِ برتری عموماً اس طاقت کی دین ہوتی ہے جو اپنی پوزیشن کی وجہ سے زورآور گروہوں اور طاقت ور سامراج کے پاس ہوتی ہے‘ جس کی بدولت وہ اپنے آپ کو اس مقام پر فائز کر لیتے ہیں جہاں سے انہیں ساری دنیا ہیچ نظر آتی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ ہم لارڈ میکالے کی تجویز میں دیکھ سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں میکالے برطانوی نے نمائندے کی حیثیت سے نوآبادیات کیلئے تعلیم کا کیا وژن پیش کیا۔ اس تحریر کا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ سامراجی طاقتیں تعلیم کو اپنے مقاصد کیلئے کیسے استعمال کرتی ہیں۔ میکالے کی تجویز کا نچوڑ اسکی تحریر کا وہ حصہ ہے جس میں وہ لکھتا ہے ''ہمیں فی الحال ایک ایسی کلاس تشکیل دینے کی پوری کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان لاکھوں افراد )عام ہندوستانیوں( کے درمیان ترجمان کا کام کرسکے جن پر ہم حکومت کرتے ہیں۔ ایک ایسے طبقے کی تشکیل جس کے افراد اپنے خون اور رنگت میں تو ہندوستانی ہوں، لیکن پسند ناپسند، رائے، اخلاق اور دانش کے لحاظ سے انگریز ہوں‘‘۔ میکالے کے اس وژن پر مبنی ہندوستان میں نیا تعلیمی نظام معرضِ وجود میں آیا جس کا بنیادی مقصد فرمانبردار لوگوں کا ایک ایسا گروہ تیار کرنا تھا جو ذہنی طور پر غلام ہو، جو ہر عمل میں حکومتِ وقت کا ساتھ دے اور جو تصور میں بھی اختلافِ رائے کی جرأت نہ کر سکے۔
معروف دانش ور ایڈورڈ سعید اپنی کتاب ''کلچر اینڈ امپیریل ازم‘‘ (Culture and Imperialism) میں لکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں سامراج کو ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ البتہ اس مزاحمت کی نوعیت دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ برطانوی ہندوستان میں قوم پرستی کے جذبات اس وقت بیدار ہوئے جب انیسویں صدی میں برطانوی راج اور اس کی آمرانہ پالیسیوں نے ہندوستان کے معاشی، تعلیمی اور ثقافتی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی معاشی پالیسیوں کے ذریعے کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنا شروع کر دیے۔ مقامی کاریگروں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ انگلستان کی فیکٹریوں میں مصنوعات تیار کی گئیں اور ہندوستان کو خام مال کے ایک بھرپور ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ متعدد کسانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا پیشہ ترک کر دیں اور اپنی روزی کمانے کے دوسرے طریقے تلاش کریں۔ ان جابرانہ معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ برطانوی حکمرانوں کے ظالمانہ سیاسی ڈھانچے نے بھی لوگوں کا جینا مشکل بنا دیا تھا۔ ایسے میں انگریزوں نے ایک نیا نظام تعلیم متعارف کرایا جو مقامی تعلیم کے نظام سے بالکل مختلف تھا۔ فارسی جو عدالتوں کی زبان تھی کو نشانہ بنایا گیا اور انگریزی زبان کو سرکاری ملازمتوں اور معاشرتی حیثیت کے لحاظ سے بہت ساری مراعات کے ساتھ متعارف کرایا گیا۔ انگریزوں نے اپنی ثقافت، زبان، ادب، نظامِ تعلیم اور طرزِ زندگی کو خوش نما رنگوں میں پیش کیا اور ہندوستان کی ثقافت، زبان، ادب اور طرزِ زندگی کو کم تر دکھانے کے لیے سامراجی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔
برطانوی سامراج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستانیوں نے مزاحمت کے جن مختلف طریقوں کو اپنایا ان میں سے ایک طریقہ تعلیم کے ذریعے مزاحمت کا تھا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ جس طرح تعلیم بالا دستی کے حصول کے لیے استعمال ہوتی ہے اسی طرح اسے مزاحمت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مقامی لوگوں نے بھی تعلیم کو برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
برطانوی ہندوستان میں بہت سے قوم پرست رہنماؤں نے برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کے لیے تعلیم کو استعمال کیا۔ یہ قومی رہنما تعلیم کے ذریعے ہندوستان کو غیر ملکی حکمرانی سے آزاد کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند کو مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے ساتھیوں نے 1867 میں قائم کیا تھا۔ دہلی میں، جامعہ ملیہ اسلامیہ جوہر برادران نے قائم کیا۔ گاندھی نے متعدد سکول بنائے اور ''نئی تعلیم‘‘ کے تصور کو مقبول بنایا۔ بنگال میں ٹیگور نے شانتی نکیتن سکول کی بنیاد رکھی۔ لاہور میں لالہ لاجپت رائے نے نیشنل کالج کا آغاز کیا۔ ادھر سرحدی صوبے میں، حاجی صاحب تورنگ زئی اور خان عبدالغفار خان نے آزاد مدرسیہ کے نام سے متعدد سکول قائم کیے۔ ان سب تعلیمی اداروں میں کچھ امتیازی خصوصیات تھیں۔ ان امتیازی خصوصیات میں ان اداروں کے نصاب، اساتذہ، طریقۂ تدریس اور تعلیم کے مقاصد شامل تھے۔ ان تمام تعلیمی اداروں کا مقصد اپنے ملک اور مقامی تہذیب سے محبت، مقامی زبانیں کی ترویج، ہندوستان کو غیر ملکی حکمرانی سے آزاد کروانے کی خواہش اور اپنے صلاحیتوں پر اعتماد کو فروغ دینا تھا۔ ان اداروں سے ایسے طلبا پیدا ہوئے جنہیں اپنی ثقافت اور ملک پر فخر تھا اور جنہوں نے فرنگیوں سے ہندوستان کی آزادی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا تھا۔ مستقبل میں جب بھی انگریزی سامراج کے خلاف ہندوستان کی مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی ان تعلیمی اداروں کا تذکرہ سنہری حروف میں ہو گا جنہوں نے استعمار کے مقابل تعلیمی مزاحمت کی روشن روایت قائم کی۔