ہماری نسل نے جنگوں کے بارے صرف کتابوں میں پڑھا تھا کہ کیسے ہمارے ازلی دشمن نے ہمارے ملک پر ناپاک ارادوں کے ساتھ حملہ کیا اور ہماری افواج اور عوام نے ان کو عبرتناک شکست دی ‘تاہم فروری 2019 ء میں ہم نے تاریخ کو اپنے سامنے رقم ہوتے دیکھا ۔پلوامہ کے ڈرامے کے بعد بھارت پاکستان پرحملے کیلئے پر تول رہا تھا‘ یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا تاکہ حملہ کرکے انتخابات میں جیت حاصل کی جاسکے۔ا س حملے میں نچلی ذات کے فوجی زیادہ مرے ‘جس کشمیری نوجوان عادل ڈار پر اس حملے کا الزام لگا وہ کچھ ماہ سے لاپتہ تھا اور وہ اتنا گولہ بارود کیسے مقبوضہ کشمیر میں لے کر جاسکتا تھا جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج تعینات ہے؟خود نچلی ذات کے فوجیوں کو مروا کر الزام پاکستان پر دھردیا۔اس وقت دوسری طرف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان میں موجود تھے ۔اس دورے میں توانائی‘ سرمایہ کاری‘ معدنی وسائل‘آثارقدیمہ‘ کلچر اور کھیلوں کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ یہ ایک کامیاب دورہ ثابت ہوا‘ مگردوسری طرف بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا تھا اور پلوامہ حملے کاذمہ دار پاکستان کو ٹھہرارہا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے اسی وقت خطرے کو بھانپ کر اعلان کیا تھا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان بھرپور جواب دے گا۔دوسری طرف بھارت نے خفیہ آپریشن بندر لانچ کیا۔ بھارتی طیارے بزدلی سے رات کے اندھیرے میں پاکستان آئے اور بالا کوٹ کے مقام جابہ میں پے لوڈ گرا کر بھاگ گئے۔26فروری کی رات بھارتی فضائیہ کی فارمیشن چار جگہوں پر بارڈر پر موجود تھی۔ سرکریک ‘رحیم یار خان ‘فاضلکا سیکٹر اور کشمیر کی طرف سے ان کے بیس جہاز آئے‘ جن میں 12 میراج اور آٹھ سُو تھرٹی تھے۔ان میں سے چار جہازوں نے اپنا پے لوڈ گرایا اور واپس چلے گئے۔وہ بھی ایک جنگل میں‘ یعنی ان کاکوئی ٹارگٹ نہیں تھا۔
اس موقع پر پاکستان کی حکومت ‘ پاکستان کی مسلح افواج‘ سروسز چیفس اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور قوم کو بروقت اس حملے کی اطلاع دی ‘ اس سے بہت حد تک ملک افواہ سازی سے بچ گیا۔اس رات پوری قوم جاگ رہی تھی‘ تمام ملکی اعلیٰ قیادت دفاتر میں موجود تھی‘ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ پل پل کی رپورٹ سے میڈیا کو آگاہ کررہا تھا اور کچھ ہی گھٹنوں میں پاکستانی رپورٹرز جابہ پہنچ گے۔بھارت نے یہ جھوٹ بولا کہ بالاکوٹ میں جیش کا ہیڈ کوارٹر تباہ ہوا جس میں تین سو لوگ مارے گئے‘ مگر جب لوکل اور عالمی میڈیا جابہ بالاکوٹ پہنچا تو وہاں صرف چند درخت ٹوٹے اور ایک کوا ہلاک ہوا تھا باقی نہ ہی وہاں کوئی ہیڈ کوارٹر تھا اور نہ ہی لاشیں۔بھارتی فورسز کے ترجمان اور فارن آفس چند لمحوں کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا کے سوالات کے سامنا نہیں کرسکے کیونکہ ان کے پاس ثبوت نہیں تھے۔
بھارت کو امید تھی کہ اب پاکستان جواب دے گا لیکن پاکستان نے دن کی روشنی میں حملہ کیا اور 27 فروری کو وہ تاریخ رقم کی کہ بھارت کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔پاکستانی جہاز جس وقت بھارتی حدود میں داخل ہوئے بھارتیوں پر لرزا طاری ہوگیا‘ لوگوں نے پاکستانی جہازوں کی فوٹیج بھی بنائیں۔پاک فضائیہ نے چار ٹارگٹ لئے جس میں ایک پونچھ سیکٹر‘ دوسرا راجوڑی اور دو نوشیرا سیکٹر میں تھے۔ان انڈین ملٹری ٹارگٹس پر چھ بم گرائے گئے جن میں اسلحہ ڈپو اور فوجی تنصیبات شامل تھیں۔ پاک فضائیہ کی فارمیشن نے اس کی تصاویر اور فوٹیج بھی بنائیں اور جاری کیں۔پاک فصائیہ کی فارمیشن میں جے ایف 17 تھنڈر ‘ ایف سولہ اور میراج طیارے شامل تھے۔میراج طیاروں کو پاکستان کی ائیر فورس میں 50 سال مکمل ہوگے ہیں‘ ان جہازوں نے بھارتی فوجی تنصیبات پر بم گرائے۔دوسری طرف فخر پاکستان جے ایف 17 تھنڈر کی27 فروری کے بعدمارکیٹ بہت بڑھ گئی۔نائجیریا ان طیاروں کو خرید چکا ہے اور اس کے پائلٹ پاکستان میں جے ایف 17 تھنڈر اڑانے کی تربیت لے چکے ہیں‘ جبکہ مزید15 ممالک اس وقت جے ایف 17 تھنڈر کی خریداری کے خواہاں ہیں ‘ سری لنکا آٹھ سے دس طیارے خریدنے کا خواہاں ہے۔
جس وقت پاکستانی فارمیشن نے بھارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا تو بھارتی فارمشین ان کے مدمقابل آئی اور پاکستانی فارمیشن وہاں موجود رہی اور دو بھارتی طیارے مار گرائے جس میں ایک کا ملبہ مقبوضہ کشمیر میں اور ایک کا آزاد کشمیر میں گرا۔اس دوران بھارتیوں نے بوکھلاہٹ میں اپنا ہی ہیلی مار گرایا۔جس وقت ابھی نندن کا جہاز ایل او سی کے گاؤں ہورن میں گرا تو سب سے پہلے ہمارے کشمیری بھائیوں نے اس کی درگت بنائی مگرپاک فوج کے جوان جو ایل او سی پر تعینات ہیں انہوں نے اس کی جان بچائی اور ابھی نندن کو ہسپتال منتقل کیا۔عوام نے جہازوں کی یہ لڑائی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ابھی نندن نے جنگل اور نالے میں چھپنے کی کوشش کی جبکہ عوام اس کو مارنے کے خواہش مند تھے تاہم ویانا کنونش کے تحت ابھی نندن جنگی قیدی تھا۔پاک فوج نے سب سے پہلے ابھی نندن کو بٹالین ہیڈ کوارٹر پہنچایا‘ اس کو میڈیکل آفیسر نے ابتدائی طبی امداد دی ‘اس کو پین کلردی گئی‘ اس کے زخم صاف کئے گئے۔مرہم پٹی کے بعد اس کو ہسپتال منتقل کیا گیا تو ابھی نندن نے علاج کرنے والے کیپٹن ڈاکٹرعبداللہ کو کہا کہ آپ بہت مشہور ہونے والے ہیں۔کیپٹن عبداللہ نے کہا آپ اپنے ملک میں زیادہ مشہور ہوجائیں گے تو اس نے کہا: جنگی قیدی اور دشمن کے ہاتھوں پکڑے جانے کی شہرت میں فرق ہے۔کیپٹن حسیب کہتے ہیں ہمیں کمانڈنگ افسر نے حکم دیا کہ پائلٹ کو سرچ کرو‘ جب ہم پہنچے تو وہاں لوگ بہت مشتعل تھے لیکن انہوں فوج کے ساتھ تعاون کیا۔اس کے بعد ابھی نندن کو نامعلوم مقام پر منتقل کرکے ویانا کنونشن کے تحت اس سے پوچھ گچھ کی گئی اور اس کو پاکستان کی فنٹاسٹک چائے بھی پلائی گئی۔جس وقت پاکستانی حکومت نے اس کو واپس کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس کی وردی اتروا کر اس کو سوٹ اور جوتے پہنا کر رخصت کیا۔اس کی وردی اور جہاز کا ملبہ پاکستان کے پاس ہمیشہ کیلئے وار ٹرافی کے طور پر رہے گا۔اس موقع پر فارن آفس کی افسر فاریہ بگٹی ابھی نندن کو واہگہ پر رخصت کرکے آئیں جوکہ بھارت کے منہ پرمزید طمانچہ تھا کہ ان کا جنگی قیدی پائلٹ بلوچ پاکستانی بیٹی نے واپس لوٹایا۔
جب ابھی نندن نے واہگہ کراس کیا تو کسی نے اس کو سیلوٹ نہیں کیا اور ایک مجرم کی طرح اس کو لے کر چلے گئے ۔ بعد میں سبکی مٹانے کیلئے ابھی نندن کوویر چکرا دے دیا یعنی جہاز گرانے اور جنگی قیدی بننے پر بھارت میں فوجی اعزاز ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ائیر کنٹرولر منٹی اگروال کو یدھ سیوا ایوارڈ ملا ‘باقی پانچ پائلٹس کو وایوسینا میڈل ملے‘ جنہوں نے آپریشن بندر کو بری طرح ناکام کیا تھا۔
دوسرا جھوٹ جو بھارت نے یہ بولا تھا کہ ابھی نندن نے جہاز ہٹ ہونے سے پہلے پاکستان کا ایف سولہ گرایا‘ یہ بھی ایک جھوٹ تھا کیونکہ پاک فضائیہ صحافیوں کو ابھی نندن کے جہاز کا ملبہ دکھا چکی ہے ‘ اس کے جہاز کے میزائل استعمال ہی نہیں ہوئے تھے۔اس سب جنگی ماحول کے دوران بھارتی حکومت اور میڈیا وار ہسٹریا بڑھا رہے تھے اور پاکستانی حکومت مسلح افواج اور میڈیا نے بہت احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔خاص طور پر آئی ایس پی آر نے بروقت منفی پراپیگنڈے کو زائل کیا اور عوام کو پل پل باخبر رکھا۔ اس سے عوام کا حوصلہ بلند رہا اور ملک افواہ سازی سے بچ گیا۔ مسلسل خبروں کی ترسیل ‘میڈیا کو جائے وقوعہ تک رسائی اور سفارتی مشنز کو وہاں لے جانا بھارتی منفی مہم کو زائل کرگیا۔ سب نے دیکھا کہ وہاں نہ ہی کوئی لوگ ہلاک ہوئے اور نہ ہیڈ کوارٹر تباہ ہوا۔ یہ سب جھوٹ تھا ۔وہاں صرف ہمارے کچھ درخت اور ایک کوا مارا گیا تھا۔پاکستان نے دن کی روشنی میں بھارت پر حملہ کیا جبکہ بھارت نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا اور ان کا کوئی ٹارگٹ نہیں تھا ‘جبکہ ہماری پاک فضائیہ نے ٹارگٹ لاک کرکے دن میں حملہ کیا۔بھارتی جنرل (ر) عطا حسین نے کہا کہ 27 فروری پاکستانی قوم کی فتح کا دن تھا‘ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ہمیں سکھایا کہ معلومات کی فراہمی کیا ہوتی ہے جبکہ جنرل (ر) راجیش بھارتی فوج کو آئی ایس پی آر کی طرز پر ونگ بنانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔