تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-02-2021

نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

اپنا مفاد ہو تو کیسے سیاسی دشمنیاں اور ذاتی انتقام تک لوگ بھول جاتے ہیں۔ انسان کے سارے اصول اور ضابطے‘ قسمیں اور وعدے سب کچھ ایک لمحے میں زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اب کوئی ایسی بات رہ نہیں گئی جس پر حیران ہوا جائے یا سمجھا جائے کہ انہونی ہو گئی ہے۔ خان صاحب نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ خود بھی سب قسمیں وعدے توڑے اور قوم کو بھی اس کام پر لگا دیا کہ جو جو وعدہ خلافیاں اور قسمیں میں توڑوں گا آپ لوگوں نے ان تمام کا جواز تلاش کرنا ہے اورمخالفوں کو منہ توڑ جواب دینا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نوجوان نسل وعدہ خلافیوں پر ان کو پکڑتی کہ جناب ہم سے کچھ اور وعدے کیے تھے لیکن آپ تو کہیں اور چل پڑے ہیں‘ اس کی برعکس نوجوان نسل ان کی غلطیوں کا مزید دفاع کرتی گئی۔ یوں ہم دو جماعتوں کے درباری کلچر سے تنگ آئے ہوئے تھے کہ لیڈر کی ہر غلطی کا دفاع دل و جان سے کیا جاتا تھا‘ پتا چلا اب دو نہیں تین جماعتیں ہو گئی ہیں۔ مجھے ویسے انسانی مزاج کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیسے کسی دوسرے انسان پر اندھا اعتماد کر سکتا ہے؟ کیسے وہ سمجھ لیتا ہے کہ جو بندہ اس کا لیڈر ہے وہ غلطی کرے تو بھی اس سے سوال نہیں پوچھا جائے گا‘ اور جو پوچھیں گے الٹا ان پر تبرہ پڑھا جائے گا۔
اب پاکستانی سیاست کی وہی حالت ہوگئی ہے جو خان صاحب کے عروج سے پہلے تھی جب آپ یہ فرق نہیں کرسکتے تھے کہ بندہ اگر الیکشن والے دن ووٹ ڈالنے جائے تو کس کو ووٹ ڈالے کیونکہ سب پارٹیاں اور ان کے لیڈران ایک ہو چکے ہیں۔ آپ کو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں کوئی فرق نہیں ملتا تھا۔ اب اس میں تحریک انصاف شامل ہوچکی ہے۔ سب کے چہرے‘ سوچ اور پالیسیاں ایک ہو چکی تھیں۔
عمران خان نے کچھ مختلف دیا تو لگا کسی نئی سیاسی فلاسفی نے جنم لیا ہے اور یہ نواز شریف، زرداری اور گجرات کے چودھریوں کے خلاف بغاوت ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکوئوں کیخلاف نئی آواز ابھری ہے جو کسی کو نہیں چھوڑے گی‘کمپرومائز نہیں کرے گی۔ خان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایماندار لوگوں کی ٹیم بنائیں گے‘ جو ملک کی تقدیر بدل دے گی‘ لہٰذا وہ بار بار ایک ہی بات کہتے کہ میرے الیکٹ کیے لوگوں کو ووٹ دیں‘ لیکن انہوں نے تحریک انصاف کے پرانے لوگوں کو ٹکٹ نہ دی جو آزاد لڑے اور الیکشن جیتے‘ جنہیں بعد میں بنی گالہ بلوا کر پارٹی میں شامل کیا گیا۔
اب خان صاحب فرماتے ہیں: جنہیں انہوں نے ٹکٹ دیا اور بڑی محنت سے ووٹ ڈالے گئے وہ سب بکنے کو تیار ہیں‘ وہ اپنی کوئی بھی قیمت لگوانے کو تیار ہیں۔ اب بتائیں بندہ کس پر بھروسہ کرے؟ کس کو اپنا امام مانے؟
اب وہ چاہتے ہیں کہ اوپن بیلٹنگ ہونی چاہیے تاکہ پتا چلے کس نے ووٹ ڈالا؟ سوال یہ ہے اگر سب کچھ اوپن ہونا ہے تو پھر کل کو عوام بھی اوپن بیلٹنگ سے ووٹ ڈالے تاکہ پتا چلے‘ کس نے کس کو ووٹ دیا؟ سیکرٹ بیلٹنگ کے پیچھے جو تصور ہے وہ جمہوری تصور ہے تاکہ ہر بندہ پوری آزادی سے ووٹ ڈالے جس کو وہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اسے کسی کا خوف ڈر نہ ہوکہ گائوں کے چودھری کو پتا چل گیا تو وہ اس کا جینا حرام کر دے گا کہ اسکی مرضی کے خلاف کیوں ووٹ دیا؟ اکثر دیہاتوں میں دیکھا جاتا ہے‘ گائوں کے چودھری کا بندہ ہار جائے تو پھر چودھری پوری تفتیش کراتے ہیں کہ کس جھگی کے کس غریب نے کس کو ووٹ ڈال دیا ہے؟ پھر اس جھگی والے کو پوری سزا ملتی ہے اور سزا ایک دفعہ نہیں ملتی مسلسل ملتی رہتی ہے۔ میں نے گائوں میں کئی دفعہ دیکھا‘ جب ایسے غریبوں کا راستہ تک روک دیا جاتا کہ وہ زمینوں سے نہیں گزر سکتے جنہوں نے چودھری کی مرضی خلاف ووٹ ڈالا تھا۔
اب ملک کے سب چودھری یہی چاہتے ہیں کہ ان کو پتا ہو‘ ان کے کس کس سیاسی مزارع نے ان کو ووٹ ڈالا ہے یا نہیں؟ جو بندے میں نے کھڑے کیے ہیں انہیں ووٹ پڑا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں پڑا تو پھر ان سب مزارعوں کی شامت آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے یہ سب کچھ ایسے ہی کرنا ہے تو پھر وہی کام کریں جو خواتیں کی مخصوص سیٹوں پر کیا جاتا ہے۔ مرضی کی بیگمات چن کر ان کے نام ایک کاغذ پر لکھ کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیے جاتے ہیں اور وہ سب اگلے دن ایم این ایز بن جاتی ہیں۔ نہ کوئی الیکشن لڑا نہ کوئی ووٹ پڑا۔ بس ساری عمر پارٹی کے چند لیڈران کے اردگرد گھومتے پھرتے رہے اور پھر نام فہرست میں ڈلوا لیا اور بیگمات سیاستدان بن گئیں۔ اس کام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف لاہور شہر سے اس وقت پچاس سے زائد بیگمات ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔ تحریک انصاف نے لاہور شہر سے تیس سے زائد بیگمات کو ایم این اے اور ایم پی اے بنا دیا جبکہ نواز لیگ نے بھی بیس سے زائد بیگمات لاہور سے چن لیں۔ باقی پورے پنجاب کی خواتین اس قابل نہ تھیں۔ اب یہی کچھ سینیٹ کے الیکشن میں ہورہا ہے۔ اب تحریک انصاف نے بھی سینیٹر خاتون لاہور کی ایک بیگم کو بنایا ہے۔ پورے پنجاب سے کوئی کام کی خاتون نہ ملی جو سینیٹر بن پاتی۔ پھر قرعہ لاہور کی بیگم کے نام نکلا۔
دوسری طرف عمران خان صاحب جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے انہوں نے ایک نیا کرتب کیا ہے۔ پرویز الٰہی صاحب کے پاس اسمبلی میں صرف دس ووٹ ہیں جبکہ ایک سینیٹر بنوانے کیلئے پچاس کے قریب ایم پی ایز کی ضرورت تھی۔ موصوف نے ایسا کرشمہ کیاکہ دس ممبران رکھنے والا سینیٹر بن گیا ہے اور اس پر ہمارے میڈیا کے خوشامدی اور درباری اس نئی واردات پر سنگین سوالات اٹھانے کے بجائے الٹا داد کے ڈونگرے برسا رہے ہیں کہ کیسا کمال کر دیا۔ مفاہمت کا نیا بادشاہ جس نے عمران خان اور مریم نواز کو اکٹھا کر دیا۔ وہی عمران خان اور مریم نواز جو ایک دوسرے کو سارا دن صلواتیں سناتے ہیں‘ وہ اپنے سینٹرز بلا مقابلہ منتخب کرانے کیلئے پرویز الٰہی کی قیادت میں چپکے سے اکٹھے ہو گئے۔ اب دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اس سمجھداری سے چلنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں الیکشن نہ ہو اور ان کے امیدوار select کر لیے جائیں تو پھر یہی اصول گیلانی اور شیخ کی اسلام آباد سیٹ پر بھی کر لیں۔ یہی حسن سلوک ڈسکہ الیکشن پر بھی کر لیں تاکہ وہاں بھی پنجاب اسمبلی کی طرح الیکشن سے بچ کر اپنا امیدوار select کرا لیں بلکہ ایک نیا قانون بنوا لیں کہ اگلے الیکشن میں بھی اسی طرح پرویز الٰہی کی قیادت میں عمران خان اور مریم نواز آپس میں سیٹیں بانٹ لیں گے‘ اپنے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست تیار کرکے انکل پرویز الٰہی کو دے دیں گے‘ جیسے اب پنجاب میں سینیٹرز کی دی گئی‘ اور وہ بیٹھ کران کی مرضی کے امیدوار چن چن کر کامیاب کرا دیں گے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کسی امیدوار کے ہارنے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا، کوئی پیسہ بھی نہیں چلے گا۔ پھر اپنے ذاتی وفادار اور ملازم، ڈونرز، ٹھیکیدار اور مالشیے ہی ایم این ایز اور ایم پی ایز بنیں گے۔ ارب پتی ڈیلروں سے پیسہ لے کر سینیٹر اور پارلیمنٹیرین بنوائیں گے۔ پاکستان کا بیس ارب روپیہ بھی بچے گا جو الیکشن پر خرچ ہوتا ہے۔ ملک سے لڑائیاں ختم ہوں گی، بنی گالہ، رائے ونڈ، پاک پتن، زمان پارک کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی ختم ہوں گے۔ جلسے جلوسوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ دھند کا بہانہ بھی نہیں ہو گا۔ دھند میں ڈسکہ کی طرح بندے بھی غائب نہیں ہوں گے۔ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی اور سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کے نعرے بھی نہیں لگیں گے، لانگ مارچ اور دھرنے بھی نہیں ہوں گے۔ گالی گلوچ، چور لٹیرے ڈاکو جیسے لفظ بھی سننے کو نہیں ملیں گے۔ انکل پرویز الٰہی اس سیاسی دیگ کے مالک ہوں گے جوسب کو اس دیگ سے ان کی مرضی کا حصہ نکال کر دیتے جائیں گے اور اس دیگ میں سے یقیناً کامل علی آغا کی طرح کا ایک حصہ چپکے سے نکال کر ہمارے میڈیا سے داد بھی پائیں گے جو پہلے ہی اس باریک واردات کے بعد ڈھول کی تھاپ پر جھومر مار مار کر مدہوش ہو رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved