پنجاب سے سینیٹ کی نشستوں پر تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ یہ وہی الیکشن ہے جس کے لیے ہفتوں سے چیخ و پکار ہو ہوئی ہے، ووٹوں کی منڈی لگنے کے خدشات پر ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا گیا جہاں اوپن بیلٹ پر بحث ہو رہی ہے، 'ووٹ خفیہ بھی رہے اور پتا بھی چل جائے‘ جیسے عجیب و غریب نکات زیر بحث آ رہے ہیں‘ متناسب نمائندگی کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ ایسے میں ایک دم سے یہ کیا ہو گیا کہ ملک عزیز کے سب سے بڑے صوبے میں بیلٹ کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہونے کا تاثر دینے والے تمام فریقوں نے سب کچھ طے کر لیا اور ایک دوسرے سے مقابلے کے بغیر حصے بانٹ لیے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے؛ چنانچہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاست کے میدان میں چلی جانے والی چالیں، نظامِ عدل کی ساکھ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت ہے، ایک ایشو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہے، اور ایک ایسا ہی واقعہ مشرف کے ایل ایف او کا ہے، ایسے ہی کئی اور ایشوز ہیں جنہیں دھونے کے لیے بعد میں آنے والے ججوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے لیکن داغ پھیکا ضرور پڑتا ہے لیکن جاتا نہیں۔
یوں کہیں کہ سیاست کے امکانات سیاستدانوں کو ہی سوٹ کرتے ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ کی نشستوں پر غیر اعلانیہ معاہدہ ان قوتوں کے درمیان ہوا‘ جو ایک دوسرے کے بارے میں دن رات ایسی گفتگو کرتی ہیں کہ لگتا ہے ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں گی۔ سب سے بڑی جماعت کے کپتان دن رات کہتے ہیں: این آر او نہیں دوں گا۔ اپوزیشن کہتی ہے: یہ تو خود پھنسے ہوئے ہیں‘ ہم سے این آر او مانگتے ہیں، ہم انہیں این آر او نہیں دیں گے۔ ایسے خفیہ اشتراک کے بعد بھی کسی کو اگر گمان ہے کہ یہ سب وقت پڑنے پر این آر او لینے اور دینے سے باز رہیں گے تو اسے کچھ بھی نہ کہا جائے کیونکہ اس سے بڑا ''بھولا‘‘ شاید روئے زمین پر کوئی نہ ہو گا۔
پنجاب میں ہونے والے حالیہ سینیٹ الیکشن کی بات کریں تو دراصل ہوا یہ ہے کہ جو افراد ''قابل قبول‘‘ تھے ان کے ناصرف کاغذات منظور ہوئے بلکہ انہیں بلا مقابلہ منتخب ہونے کی سہولت بھی فراہم کردی گئی، اور جو ناقابل قبول تھے ان کے کاغذات بھی منظور نہ ہوئے اور میدان سے نکال باہر کئے گئے۔ منظور نظر کی ایک مثال کوئٹہ سے امیدوار عبدالقادر صاحب کی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ان صاحب کے خلاف واویلا کیا تو ایسا راستہ نکالا گیا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ عبدالقادر صاحب راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن بنے۔ سینیٹ کا ٹکٹ لیا۔ ادھر پی ٹی آئی کارکنوں کی اشک شوئی کے لیے ظہور آغا کی شکل میں نیا امیدوار لایا گیا‘ لیکن شومئی قسمت کہ وہ بیچارہ تو ٹشو پیپر سے بھی کم عمر کا امیدوار نکلا اور کاغذات جمع ہونے کے ساتھ ہی عبدالقادر صاحب کے سرپرستوں کے اشارے پر بٹھا دیا گیا اور یوں کارکنوں کے لیے نامنظور عبدالقادر اب پکی سیٹ لیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ کسی اور کو ''منظور‘‘ تھے۔
سیاست میں امکانات کی بات کریں تو گزشتہ روز ہی سابق وزیر اعظم اور اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے مریم نواز سے ملاقات کے دوران ایک اہم انکشاف کیا۔ ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے مریم نواز کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے 12 ممبران قومی اسمبلی نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ اگر وہ (یوسف رضا گیلانی) ان 12 ارکان اسمبلی کو مسلم لیگ ن سے اس بات کی ضمانت دلا دیں کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن، ان کو اپنی جماعت کی طرف سے امیدوار بنائے گی یعنی ان کو ٹکٹ دے گی تو وہ سینیٹ الیکشن میں اپنی جماعت پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے بجائے پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کو تیار ہیں۔ اگر گیلانی صاحب کے اس دعوے کو سچ مان لیا جائے تو آپ کا اعتماد سیاست کے ان نت نئے امکانات پر مزید بڑھ جائے گا۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے اس سارے عمل میں 3 مختلف اور بظاہر ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ یقین دہانی مانگنے والوں کا تعلق حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے، اگلے الیکشن میں ٹکٹ کا وعدہ پاکستان مسلم لیگ ن سے لیا جا رہا ہے اور اس سارے عمل میں فوکل پرسن سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
آئیے! اب اس سارے عمل کا جائزہ ایک بار پھر پنجاب میں ہونے والے حالیہ سینیٹ الیکشن میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کے عمل کی روشنی میں لیتے ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ق) سے ہے اور وہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔ پنجاب میں اگر سینیٹ کے اوپن الیکشن ہوتے تو شاید''نوٹ‘‘ اور ''ووٹ‘‘ دونوں ہی چلتے اور پھر بھی کسی ایک پارٹی کو کوئی واضح کامیابی نہ مل پاتی لیکن چودھری پرویز الٰہی نے وزیر اعظم عمران خان کو یہ یقین دلایا کہ آپ ہمارے امیدوار کامل علی آغا کو فائنل کریں اور باقی سب ہم پر چھوڑ دیں۔ بس پھر اس کے بعد کیا ہوا‘ جیسے ہی وزیر اعظم نے گو آہیڈ دیا‘ چودھری صاحب‘ جو کہ سیاست کے میدان کے ایک پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں‘ نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں شامل اپنے ''ہمدردوں‘‘ سے رابطے کئے اور پھر انہی کے ذریعے سے ان جماعتوں کے لیڈروں کو یہ یقین دلایا کہ آپ کو ''حصہ بقدر جثہ‘‘ کے مصداق اپنی اپنی سیٹیں مل جائیں گی۔
یوں ان سب کو قائل کیا اور درمیان میں اپنے امیدوار کامل علی آغا کے ذریعے سے خود بھی سینیٹ میں ایک سیٹ حاصل کر لی۔ اب تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ شیخ کے درمیان پڑنے والے جوڑ کی تو اس سارے کھیل میں اگر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ''رابطے‘‘ واقعی کوئی کام دکھا چکے ہیں تو پھر تحریک انصاف کے آنگن سے کچھ ''پھول‘‘ پی ڈی ایم کی ''جھولی‘‘ میں گر جانا کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو گی اور نہ ہی یہ کوئی ایسی انہونی ہو گی جو ہمارے ہاں پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ یہاں تو راتوں رات پوری کی پوری پارٹی ٹوٹ بھی جاتی رہی ہے اور بنتی بھی رہی ہے۔ بالفرض یوسف رضا گیلانی سینیٹ الیکشن جیت جاتے ہیں تو ایک طرف اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اگلے چیئرمین سینیٹ بھی منتخب ہو جائیں گے، دوسرے یہ ساری موو اس بات کا اشارہ ہو گی کہ پی ڈی ایم کا اگلا ہدف اِن ہاؤس تبدیلی ہو گا اور پھر وہ انہی ووٹوں کی بنا پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اسے کامیاب کرانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر بھی زائل ہو جائے گا۔