خبر تو آج کی ہے اور اچھی ہے لیکن میرے مشاہدات نے زیادہ خوش ہونے کا موقع نہیں دیا۔ پتا نہیں کیوں میرا ذہن برسوں پرانی باتوں کی طرف چلا گیا۔ خبر آپ بھی سن لیجیے۔ پنجاب حکومت نے 5 مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اٹک، لیہ، راجن پور، بہاولنگر، سیالکوٹ میں بننے والے یہ 5 ہسپتال 28 ارب روپے سے دو سال کی مدت میں مکمل کیے جائیں گے۔ معلوم نہیں کیوں مجھے سانولی رنگت والی ماسی حمیدہ یاد آگئی جس کے چہرے پر بنی آڑی ترچھی لکیروں میں بھی پیار، مہربانی اور شفقت اپنا رنگ شامل کرتے رہتے تھے۔
چٹی ان پڑھ ماسی حمیدہ ابھی تک یاد ہے۔ میرے بچپن نے اسے پہلے ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ کسی قریبی بستی کی رہنے والی تھی لیکن ہر ہفتے، دوسرے ہفتے اس کا پھیرا لگتا تھا۔ وہ گاؤں کا دیسی گھی شہر میں بیچتی تھی لیکن اس کا اصل رول زچگیوں میں ایک تجربہ کار، جہاں دیدہ عورت کے طور پر تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں بڑوں بڑوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔ مرد تو اس مرحلے میں تھے ہی بے بس، عورتیں بھی اپنے اپنے ذاتی تجربے کے مطابق مشورے دیتی تھیں لیکن سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہوتا تھا کہ دائی یا ماسی حمیدہ ہی حتمی فیصلہ کرے گی۔ ماسی حمیدہ کو سب گھروں کی خبر ہوا کرتی تھی بلکہ ابتدائے حمل سے ہی وہ مشاورت میں شامل رہا کرتی؛ چنانچہ ولادت کا وقت قریب آتا تو وہ ہمیشہ موجود رہتی۔ اس کی وجہ خیر خواہی تھی اور یہ بھی کہ یہی وقت اس کی کمائی کا بھی تھا۔ نومولود کے گھر سے اسے اچھے پیسوں اور کپڑوں سمیت تحائف کی امید ہوا کرتی تھی اور یہ توقع ہمیشہ پوری ہوتی تھی؛ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماسی حمیدہ ہمیشہ امید سے ہوتی تھی کیونکہ سارا سال یہ سلسلہ چلتا تھا اور بعض دفعہ ایک ہی ہفتے میں وہ کئی بار نوازی جاتی۔ سستے زمانے میں بات ہزاروں کی تو تھی ہی نہیں۔ کل ملا کر ہندسہ سو تک بھی پہنچ جائے تو کافی تھا۔ بعض گھرانے اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتے تھے اور ایسے گھرانوں کا چرچا تادیر رہا کرتا‘ اس کے باوجود لالچ نے کبھی ماسی کی آنکھوں اور لہجے میں جھلک نہیں دکھائی۔ کیس خراب بھی ہو جاتے اور بعض دفعہ زچہ بچہ کی جانیں بھی چلی جاتیں لیکن کبھی یاد نہیں کہ کسی گھر نے اسے مطعون کیا ہوکہ جان اس کی وجہ سے گئی۔ وجہ یہ کہ اس کی خیر خواہی اور وقت پر کام آنے کے سب معترف تھے۔
اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ ماسی حمیدہ کی ماں ہو یا محلے کی بڑی بوڑھیاں‘ سب ایک دوسرے کو اسی رشتے اور اسی حوالے سے جانتے پہچانتے تھے۔ خدمت خلق سے جڑے ہوئے دو پیشے ایسے تھے جن سے پیسے کا کوئی دور دور تعلق نہیں تھا۔ تعلیم اور صحت۔ استاد ہو یا ڈاکٹر، اس کی نظر شاگرد اور مریض کی جیب پر نہیں ہوتی تھی۔ ایسا نہیں کہ سب ہی باکمال اور بے مثال تھے۔ اتائی ڈاکٹروں سے لے کر ان پڑھ استادوں تک سب ورائٹی موجود تھی لیکن یہ لوگ بھی جیبیں خالی نہیں کرواتے تھے۔ معمولی اجرت سے زیادہ کی توقع ہوتی ہی نہیں تھی لیکن زمانہ رنگ بدلنے میں ہمیشہ سے مہارت رکھتا ہے۔ اس دور کے رنگ بھی اتنی تیزی سے تبدیل ہوئے کہ اب پلٹ کر دیکھیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ دور کبھی موجود بھی تھا۔ لکڑی کو دیمک لگا کرتی ہے اور لوہے کو زنگ‘ لیکن ہماری نسل نے محبتوں کو دیمک لگتے اور مروتوں کو زنگ کھاتے دیکھا ہے۔ بدلتی دنیا میں محبتیں اور مروتیں رہ کر کرتیں بھی کیاکہ اگلا دور صرف اور صرف تجارت کا تھا۔ ماسی حمیدہ بوڑھی ہوئی تو گھر بیٹھ گئی۔ اس کی بیٹیوں اور بہوؤں نے اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھایا اور ایک دور ختم ہو کر رہ گیا۔ بڑے شہروں میں خاص طور پرروایتی دائیاں ختم ہورہی تھیں اور ہسپتال ان کی جگہ لے رہے تھے۔ سرکاری سکولوں اور سرکاری ہسپتالوں کا معیار اور وہ نظام کون نہیں جانتا۔ ضرورت اور طلب کا نیا دور آیا اور سکول اور ہسپتال کھمبیوں کی طرح ہر سڑک اور ہر محلے میں اگنے لگے۔ وہ عمارات جن میں اینٹوں سے زیادہ شیشے تھے‘ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مسئلے ختم نہیں ہوئے صرف تبدیل ہوئے۔ تعلیم اور صحت کا معیار بہتر نہیں ہوا، صرف اس پر پیسے زیادہ خرچ ہونے لگے۔ دوسری بیماریاں بھی بڑھ گئیں۔ زچگیاں تو بیماریوں میں نہیں ہیں، پھر بھی ہسپتال ان کیلئے ناگزیر ہوگئے۔ شہروں اور بستیوں میں چھوٹے بڑے سنٹر اور ہسپتال قائم ہوئے جو اصل میں تو سرکاری ہسپتالوں کی کمی پوری کرنے کے لیے تھے، لیکن ان کا مقصد بہرحال پیسہ کمانا تھا۔ پیسہ، پیسہ اور صرف پیسہ۔ وہ دراصل جسم کا نہیں جیبوں کا ایکسرے کرتے تھے۔ چلیے پیسہ بھی کما لیتے لیکن سہولیات اور علاج کی سہولیات کے ساتھ‘ لیکن یہ ہوا کہ آپ ہسپتال اور سٹاف کی بے نیازی اور لاپروائی مہنگی رقم دے کر خریدنے لگے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں یہ سستی مل جاتی تھی۔ اور اب یہ ہے کہ تکلیف، جلن اور کڑھن بہرحال آپ کا مقدر ہے، خواہ آپ دونوں میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کریں۔ سچ یہ ہے کہ نجی ہسپتالوں کی کئی صورتیں اور کئی تجربات تو وہ ہیں جہاں صرف یہ نظر آتا ہے کہ فلاں شخص نے بھاری رقم خرچ کرکے موت خریدی۔ نہایت مہنگی موت۔ وہ موت جو ہر ایک کو مفت میں ملتی ہے۔
نجی ہسپتالوں میں مسئلہ صرف پیسہ ہی نہیں ہے۔ یہ تو بنیاد ہے۔ نرسنگ سٹاف کی غیرذمہ داری، ناقص انتظامات اور کئی صورتوں میں بڑے ڈاکٹرز کی عدم دستیابی وہ معاملات ہیں جن میں سرکاری اور غیرسرکاری سب ایک ہو جاتے ہیں‘ لیکن مزے کی بات یہ کہ ہر دو جگہ مریض کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کا معاملہ ہو یا زچہ بچہ کی گھر واپسی، نرسنگ سٹاف سے لے کر دربان اور چوکیدار تک سب کا اخلاق اچانک مثالی ہوجاتا ہے‘ اور ایسی مسکراہٹیں بکھیرتے مہربان خدمت گاروں کو بھلا کون بخشش اور انعام سے نہیں نوازے گا۔ مسئلہ اسی فیصلے کا ہے کہ دونوں میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جائے جس کی تکلیف قابل برداشت ہو۔ ہر برے تجربے کے بعد آدمی دوسرے راستے کی طرف بھاگتا ہے اور وہاں سے بھی چوٹ کھا کر واپس آتا ہے۔ سو پیاز اور سو جوتے کھانے کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک انسان مٹی اوڑھ کر سو نہیں جاتا۔ جب کبھی ان ہسپتالوں سے واسطہ پڑتا ہے اور زندہ لوگوں کو کسی نہ کسی صورت میں یہ واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے، نئے زخم بھی لگتے ہیں اور پرانے زخم بھی ہرے ہوجاتے ہیں۔ نجی ہسپتالوں نے بھی کمائی کے نت نئے طریقے نکال رکھے ہیں۔ وارڈ کے اتنے، آپریشن تھیٹر کے اتنے، ڈاکٹر کے اتنے، لیبر روم کے اتنے، کمرے کے اتنے، وی آئی پی کمرے کے اتنے۔ اپنی لیبارٹریز، ٹیسٹ رپورٹس، ایکسرے وغیرہ ایک اور راستہ ہے۔ اگر مریض کو خون لگانا پڑجائے تو وہ خون نچوڑنے کی ایک الگ سبیل۔ ان سب پر طرہ ڈاکٹروں کی بدمزاجی‘ خاص طور پر اس معاملے میں گائناکولوجسٹ ڈاکٹر‘ خواہ مرد ہوں یا خواتین، خاص شہرت رکھتے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی گائناکالوجسٹ ہیں۔ ان کی زندگی اسی شعبے میں گزری ہے اور وہ لوگوں کی تکالیف اور ضروریات کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ اب وہ سرکاری طور پر بھی یہ اختیار رکھتی ہیں کہ ہسپتالوں میں تسلی بخش نظام بن جائے؛ چنانچہ امید ہے وہ اس معاملے پر توجہ فرمائیں گی۔
جن اساتذہ نے زندگی میں بھرپور کردار ادا کیا ہو اور جن ڈاکٹروں نے زندگی بچائی ہو وہ ساری زندگی یاد رہتے ہیں۔ دائی حمیدہ کا دور تو واپس آنے والا نہیں؛ تاہم ہم وہ نسل ہیں جنہوں نے کسی ماسی حمیدہ کے ہاتھوں میں جنم لیا اور ساری زندگی انہیں یاد رکھا لیکن کیا آج جنم لینے والی نسل بھی اپنی کسی ڈاکٹر کو اس طرح یاد رکھتی ہے؟ ہمیں اعلیٰ ڈگری یافتہ، سمارٹ ڈاکٹرز کے اس دور میں ماسی حمیدہ کیوں یاد آتی ہے؟
لکڑی کو دیمک لگا کرتی ہے اور لوہے کو زنگ‘ لیکن ہماری نسل نے محبتوں کو دیمک لگتے اور مروتوں کو زنگ کھاتے دیکھا ہے۔