ایف اے ٹی ایف نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘ پچھلے ڈیڑھ سال میں یہ چوتھی ایکسٹینشن ہے۔ 27 پوائنٹس میں سے 24 پوائنٹس پر عمل ہو گیا ہے اور تین پوائنٹس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ جون 2021ء میں دوبارہ اجلاس ہو گا اور پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ بلیک لسٹ میں شامل کرنا ہے یا گرے لسٹ سے نکالنا ہے۔اس فیصلے کے بعد عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی یہ افسوس کا مقام ہے؟ میری رائے اس پر مختلف ہے۔میرے خیال میں ایف اے ٹی ایف پاکستان کے لیے ایک رحمت ثابت ہوا ہے۔ 2018 ء میں بھارت نے تو یہ سوچ کر پاکستان کو اس میں پھنسایا تھا کہ ایک طرف پاکستان کے ڈالر ذخائر ختم ہو رہے ہیں‘ ملک چلانے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا‘ اس سے پہلے پاکستان کو بلیک لسٹ کروا دیا جائے تا کہ روپے کی قیمت ایرانی کرنسی سے بھی نیچے گر جائے‘ معیشت کریش کر جائے اور ہر طرح کی تجارت بند ہو جائے۔ یاد رکھیں کہ جب کوئی ملک بلیک لسٹ ہو جاتا ہے تو آئی ایم ایف سمیت کوئی بھی عالمی ادارہ اسے قرض نہیں دیتا۔ اگر دوستی کی بنا پر کسی ملک سے قرض مانگ بھی لیا جائے تو انتہائی زیادہ شرح سود پر ملتا ہے جو کہ قابلِ عمل نہیں ہوتا۔ اگر زیادہ شرح سود پر قرض لے لیا جائے تو ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان آتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے اشیائے ضرورت حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہر طرح کی بیرونی سرمایہ کاری ختم ہو جاتی ہے اور کوئی بھی بینک ادائیگیوں کے لیے اپنا چینل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ لہٰذا بین الاقومی ادائیگیوں اور وصولیوں کا نظام تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں وہ ملک تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں جن کا انحصار درآمدات پر ہوتا ہے اور ملک میں مقامی انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
بھارت چونکہ پاکستان کے معاشی حالات سے بخوبی واقف ہے اور ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسیفک ریجن کا صدر بھی ‘ اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ایف اے ٹی ایف میں پھنسا دیا لیکن کہا جاتا ہے کہ مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی یہ چال اُلٹی پڑ گئی۔ گرے لسٹ میں آنے کے بعد پاکستان نے ملکی نظام کو درست کرنے کا عزم کیا۔ سب سے بڑا مسئلہ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کا تھا۔ پاکستان کو بتایا گیا کہ کالعدم تنظیمیں کورئیر کمپنیوں کے ذریعے ڈالر بیرون ملک سمگل کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کی کمزور نظام والی کورئیر کمپنی کے پچاس دفاترکا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہر فرنچائز سے لفافے میں ایک ہزار ڈالر لیٹر کے اندر رکھ کر لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ پچاس فرنچائزز سے ایک ایک لیٹر بیرون ملک بھجوایا جاتا ہے۔ ایک دن میں پچاس ہزار ڈالر آسانی سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ یہ انکشافات حیران کن تھا۔ پہلے یقین نہیں کیا جارہا تھا لیکن بعد میں حکمت عملی طے کر کے اس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا۔ اس حوالے سے کورئیر کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہر لفافہ کھول کر دیکھا جائے۔ اگر کسی کمپنی کے خلاف منی لانڈرنگ کو سپورٹ کرنے کا ایک بھی ثبوت ملا تو لائسنس معطل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد ڈالر کے لین دین کے نظام پر سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ جو بھی شخص ڈالر خریدے یا بیچے گا اس کا شناختی کارڈ نمبر ساتھ لگانا لازمی ہے۔ منی ایکسچینجرز کے آفسز میں لگے کیمروں کی آن لائن مانیٹرنگ شروع کر دی گئی۔ چھوٹی سی مشکوک ایکٹویٹی پر ایکشن لیا جانے لگا۔ صورتحال یہ تھی کہ ملک کی ایک بڑی منی ایکسچینج کمپنی کے مالک نے مجھے بتایا کہ فرنچائزز کے لیے اب دفتر جا کر کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پولیس کے اتنے چھاپے پڑتے ہیں کہ کسٹمر بھی آنے سے گھبراتے ہیں۔ خوف و ہراس کی کیفیت ہے‘ لیکن ایک فائدہ ہوا ہے کہ اب صرف انتہائی ضرورت مند شخص ڈالر خریدنے آتا ہے۔
اس کے بعد منی لانڈرنگ کے لیے جعلی بینک اکاؤنٹس استعمال ہونے کا انکشاف ہوا۔ یہ خبر تشویش ناک تھی۔ پہلے تو حکومت کی جانب سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا لیکن جب ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے رکھے گئے تو حکومت نے فوری ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے تمام بینکوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ مخصوص وقت میں تمام بینک اکاؤنٹس کی بائیومیٹرک تصدیق کی جائے۔ جس اکاؤنٹ کی تصدیق نہ ہو سکے اسے فوراً بند کر دیا جائے۔ اگر آپ کا کسی بینک میں اکاؤنٹ ہے تو تقریباً ایک سال قبل آپ بھی اس تکلیف سے گزرے ہوں گے جب بینک کا نمائندہ آپ کو فون کر کے درخواست کرتا تھا کہ کسی بھی برانچ سے جا کر بائیو میٹرک تصدیق کروائیں ورنہ اکاؤنٹ بند ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کو تو بیرون ملک سے پاکستان بلوا کر ویری فکیشن کی گئی۔ ابتدائی دنوں میں بینکوں نے بھی اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ ان دنوں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کا طوطی بولتا تھا‘ انہوں نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا اور بینکوں کو تنبیہ کی کہ کام فوری مکمل کریں ورنہ گرفتاری کے لیے تیار رہیں۔ ان دنوں ایک بینک کے وائس پریزیڈنٹ کا فون آیا اور کہنے لگے کہ رات کے گیارہ بج چکے ہیں اور میں خود بینک میں بیٹھا ہوں کیونکہ چیف جسٹس صاحب نے آج آخری تاریخ دی ہے بائیومیٹرک کروانے کے لیے۔ کسٹمرز کے گھروں میں جا کر دستخط کروا رہے ہیں۔ اس ایکشن کا فائدہ یہ ہوا کہ دو ماہ میں پورے ملک کے تمام بینک اکاؤنٹس ویری فائی ہو گئے۔ جو نہ ہو سکے انہیں بند کر دیا گیا۔ جعلی اکاؤنٹس کھلنے اور پہلے والے اکاؤنٹس کے منی لانڈرنگ ہونے کے راستے بند ہو گئے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ اگر ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں نہ ڈالتا تو کیا یہ کامیابی ممکن ہوتی؟
پچھلے ڈیڑھ سال سے آپ سن رہے ہیں کہ فالودہ والے کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے نکل آئے‘ پاپڑ والے کو ایف بی آر کا کروڑوں روپے کا نوٹس موصول ہو گیا اور پنکچر والے کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے بیرون ملک بھجوائے گئے۔ یہ کام تو کئی سالوں سے جاری تھا لیکن منظر ِعام پر اس وقت آیا جب ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ کیا۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ تحریک ا نصاف کو ہوا ہے۔ زرداری‘ نواز شریف اور شہباز شریف کے جعلی اکاؤنٹس بھی اسی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز اسی منی لانڈرنگ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ زرداری صاحب جیل یاترا کر کے آ چکے ہیں۔ کالعدم تنظیموں پر پابندیاں لگانا‘انہیں حکومتی تحویل میں لینا اور مدرسوں کو حکومتی سرپرستی میں چلانے کا فیصلہ بھی اسی دباؤ کے باعث ممکن ہوا ہے۔ ٹیکس کے نظام کا بہتر ہونا‘ خریدوفروخت کی بنیاد پر شہریوں کی آمدن کا تخمینہ لگانا اور انہیں فوری نوٹسز بھجوانا بھی اس لیے ممکن ہو سکا۔ ایک شہری ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرواتا لیکن گاڑیاں بھی خرید رہا ہواور جائیدادیں بھی اپنے نام کر رہا ہے تو آج کل وہ ایف بی آر سے بچ نہیں سکتا۔ ایک ایسا نظام بنا دیا گیا ہے کہ ہر ایک ٹرانزیکشن رپورٹ ہو رہی ہے۔ ان اقدامات کی بدولت پاکستان منی لانڈرنگ کے خلاف ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہو گیا کہ جو ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔اتنے کم وقت میں نظام کو مضبوط کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس میں جتنی مبارکباد کی حقدار حکومت ِپاکستان ہے شایداسی طرح بھارت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ اپنی نفرت میں ہمیں نقصان پہنچانے کا منصوبہ نہ بناتا تو ہم اپنا نظام درست نہ کر پاتے۔