اگر محض بولنے سے‘ بڑھک مارنے سے اور بڑبولے پن کا مظاہرہ کرنے سے مسائل حل ہو جایا کرتے تو آج پاکستان کا شمار کامیاب اور خوشحال ترین معاشروں میں ہو رہا ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے من حیث القوم طے کر رکھا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے‘ عمل کی دنیا میں جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ نہیں کریں گے اور عمل کی ضرورت جس قدر بڑھتی جائے گی‘ بڑھکیں مارنے کا سلسلہ اُتنا ہی دراز ہوتا جائے گا۔ کل یہ خبر آئی کہ چین میں دیہی سطح پر بھی غربت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ چین نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ دنیا کو حیران کرتا ہی رہے گا۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور پورے ملک میں آبادی کے ہر طبقے کے لیے ایک کم از کم طے شدہ معیارِ زندگی ممکن بنانا ... یہ تو کمال ہی ہوگیا۔
چین ایک منظّم معاشرہ ہے۔ ورلڈ میٹر ڈاٹ انفو کے مطابق کم و بیش ایک ارب 44 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل معاشرے کو زندگی کی بنیادی سہولتیں قابلِ رشک انداز سے فراہم کرنا اور اُن کیلئے بہتر معیارِ زندگی ممکن بنانے کی کوشش کرتے رہنا ‘ اسے کہتے ہیں قابلِ رشک اور قابلِ تقلید طرزِ حکمرانی۔ چینی قیادت نے دنیا بھر کی مخالفت کا سامنا کیا ہے اور ہر مرحلے پر تنقید کا جواب خندہ پیشانی سے دیا ہے۔ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات بھی زور و شور سے کی جاتی رہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے‘ بلکہ مغرب کی پروپیگنڈا مشینری یہ ثبات کرنے پر تُلی رہتی ہے کہ چین میں معاشی اور معاشرتی انصاف ممکن نہیں بنایا جاسکا۔ زور اس نکتے پر دیا جاتا ہے کہ ملک کے مختلف خطوں کے درمیان غیر معمولی معاشی تفاوت ہے۔ اس تفاوت کو بنیاد بناکر چینی قیادت کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ چین کے دیہی معاشرے کے حوالے سے بے پَر کی اڑانے کی کوشش کرنا وہ لَت ہے جس میں مغربی میڈیا ایک زمانے سے مبتلا ہے۔ اور لَت سے بڑھ کر یہ تو ایجنڈا ہے۔ چین کے بارے میں صرف تنقید اور طعن و تشنیع پر یقین رکھنے والے اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ چینی قیادت نے ایک ارب 44 کروڑ سے بھی زائد نفوس پر مشتمل آبادی کو اس طور پر سنبھال رکھا ہے کہ کہیں بھی زندگی کا معیار ایسا پست نہیں کہ بہتر زندگی کی امید کا دامن ہی چھوڑ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے معاشرے کو تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بلند معیارِ زندگی یقینی بنانے کی گنجائش بھی دینا کوئی ایسی کامیابی نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔چین نے دیہی علاقوں میں بھی غربت پر قابو پانے کا ہدف حاصل کرکے دنیا کو بتادیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ابھرنے اور عالمی سیاست و معیشت میں وسیع تر کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی ایسا مضبوط ہے کہ فضا مجموعی طور پر خاصی پُرسکون ہے اور عام چینی باشندہ حالات کے حوالے سے شکوہ سنج نہیں۔
آج دنیا بھر میں ایک بنیادی مسئلہ عمومی سطح پر پائی جانے والی غربت کا خاتمہ ہے۔ امریکا سپر پاور ہے مگر وہ بھی اب تک اپنے ہاں شدید غربت پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکی آبادی کے کئی نچلے طبقات تاحال غربت کے شکنجے میں ہیں۔ غربت نے جرائم کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ امریکا میں ہسپانوی بھی قابلِ رشک معاشرتی معیار کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتے۔ اُن میں غربت بھی ہے اور جہالت بھی جس کے منطقی نتیجے کے طور پر اُن میں بھی جرم پسندی پائی جاتی ہے۔ سفید فام امریکی نمایاں طور پر اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تارکین وطن چونکہ زیادہ کام کرتے ہیں اور اپنے اخراجات قابو میں رکھتے ہیں اس لیے اُن کا معیارِ زندگی بھی عام امریکیوں سے خاصا بلند ہوتا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز نے آمدنی میں تفاوت کم کرنے اور غربت کو ختم کرنے کو اب تک بنیادی اہداف کا حصہ نہیں بنایا۔ امریکی خود کو اعلیٰ آدرشوں کا حامل قرار دیتے ہیں۔ وہ لبرل ڈیموکریسی کے علمبردار بھی بنے پھرتے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی اور مساوی حقوق کے حوالے سے بھی وہ اپنا منجن بیچنے سے باز نہیں آتے مگر جب بات عمل کی آتی ہے تب سارے ''لانجھے‘‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ امریکا میں آج بھی آمدنی کا فرق شرمناک حد تک زیادہ ہے۔ آبادی کے متعدد طبقات غیر معمولی معاشی الجھنوں کے باعث معاشرتی خرابیوں سے دوچار ہیں۔ خرابیوں کی جڑ میں غربت بنیادی چیز ہے مگر اُسے دور کرنے پر ذرا بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ طبقاتی فرق برقرار رکھنا شاید امریکی پالیسی میکرز کی ترجیحات میں شامل ہے۔
چین سے دنیا کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ یہی دیکھیے کہ اتنی بڑی آبادی میں فکر و نظر کی ہم آہنگی بھی نمایاں ہے اور جرائم کا گراف بھی بہت نیچے ہے۔ چینی قیادت نے تین چار عشروں کے دوران آبادی کے بڑے حصے کو پُرسکون رکھنے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی ہے۔ کوشش یہ رہی ہے کہ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں نمایاں حد تک پیچھے رہ گئے ہیں وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں‘ اُن میں اشتعال پروان نہ چڑھے‘ کچھ کر گزرنے کی امید بھی باقی رہے اور حوصلہ بھی۔ چین میں چند خطے انتہائی ترقی یافتہ ہیں جو فطری امر ہے۔ باقی ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے ضرور رہا ہے مگر معاملہ اتنا خراب نہیں کہ امید ہار دی جائے‘ کچھ کر گزرنے کا ولولہ ہی ترک کردیا جائے۔ چین سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ کم و بیش چار عشروں کی محنت کے نتیجے میں چین نے شدید ناموافق سمجھی جانے والی آبادی کو اپنے لیے نعمت میں تبدیل کیا ہے۔ آج چین کے طول و عرض میں کروڑوں افراد گھریلو صنعتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ صنعتیں برآمدات کا گراف بلند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ملک کی خام قومی پیداوار یعنی معیشت کا عمومی حجم 14 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس میں خاصا بڑا حصہ گھریلو صنعتوں کا ہے۔ یہ شعبہ مضبوط ہوکر آبادی کے ایک بڑے حصے کو بہتر زندگی کی طرف بڑھنے میں مدد دے رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ چین میں اب بھی آمدنی کا فرق موجود ہے اور کئی خطے زیادہ ترقی یافتہ ہیں مگر جو علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی اس احساس کے حامل نہیں کہ وہ شکست سے دوچار ہوچکے ہیں۔ عمومی معیارِ زندگی کو اُس مقام تک لایا جاچکا ہے جہاں سے امید کا سفر بھرپور ولولے کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں غربت کے خاتمے کے حوالے سے اب تک باتیں ہی کی جاتی رہی ہیں۔ چین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ حقیقی مفہوم میں زندہ قوم ہے اور باقی دنیا کیلئے روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے صرف عدمِ توجہ اور لااُبالی پن کے باعث اب تک بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جس نوعیت کے معاشی رویّے پائے جاتے ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ملک کو شدید نوعیت کے افلاس کی دلدل سے نکالنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں۔ اگر اسے چیلنج کے طور پر لیا جائے تو معاملات کو درست کرنے میں عشرے نہیں لگیں گے۔ سوال صرف نیت کا ہے۔ نیت کا اخلاص ہو تو ہم بھی چین کی طرح غربت اور جہالت کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے اوّلاً تو یہ لازم ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے سوچا جائے۔ آبادی کے تمام طبقات کے مفاد کو ذہن نشین رکھ کر پالیسیاں مرتب کی جائیں۔ چند ایک علاقوں کو پروان چڑھا کر باقی آبادی کو سڑنے کیلئے چھوڑ دینے کی ذہنیت کام کر رہی ہو تو کوئی بھی حکمتِ عملی مطلوب نتائج نہیں دے سکتی۔ ثانیاً یہ کہ ہمیں دنیا پر ثابت کرنا ہے کہ ہمیں معاشی عدم مساوات سے چِڑ ہے اور قومی مفاد میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ غربت ختم کرکے آبادی کے بڑے حصے کو اطمینان معیارِ زندگی کی دہلیز تک پہنچانے کی ہر کوشش کامیاب ہوسکتی ہے اگر نیت میں اخلاص پایا جائے۔ کیا کیجیے کہ نیت کا اخلاص ہی تو ناپید ہے۔