تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     01-03-2021

مدر نیچر کا انتقام

یہ بہت سی گرمی اور بہت سارے پٹرولیم کے لئے مشہور ریاست ہے، یو ایس اے سے بھی پرانی۔ یہاں کے گوروں پر چٹّی گوری آسمانی بَلا ایسے اُتری، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس برفانی حملے کی وجہ مدر نیچر کا انتقام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرت کے عطا کردہ موسمیاتی ڈسپلن میں مداخلت کاری بھی۔
مدر اَرتھ پر گلوبل کلائمیٹ چینج کا تازہ اور بے رحم برفانی حملہ ریاست ٹیکساس میں ہوا‘ جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ Cowboys کی یہ سرزمین امریکہ اور میکسیکو کے سرحدی علاقے پر واقع ہے۔ یہاں کے شہریوں کی بڑی تعداد انگریزی اور ہسپانوی، دونوں زبانوں پر عبور رکھتی ہے۔ ٹیکساس پہلے میکسیکو کا صوبہ تھا۔ سال 1836ء میں یہ آزاد ہو کر نئی ریپبلک بن گیا اور بعد ازاں ٹیکساس نے امریکہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ریاستِ ٹیکساس میں صحرا، جنگلات اور ساحل سمندر، تینوں پائے جاتے ہیں، جو ایک قدرتی کرشمے سے کم نہیں۔ یہاں پہ موسم زیادہ تر گرم ہی رہتا ہے، اس لیے ٹیکساس کے باسی اس گرمی کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکساس کی ریاست میں برف باری نے پورے نظام کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کی وحشت اور دہشت نے ایک بار پھر ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی ہے کہ کلائمیٹ چینج 21ویں صدی کے سب سے گمبھیر مسائل میں سے ایک ہے۔ جدید سائنس کا کہنا ہے، جنگلات کی کٹائی، گرین ہائوس گیسز کی ایمیشن اور دیگر انسانی اقدامات نے ہمارے ماحول کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ 20ویں صدی عیسوی کے دوران موسمیاتی تبدیلی اس رفتار سے شروع ہوئی کہ انسانی زندگی اور ماحولیات پر اس کے منفی اور تباہ کن اثرات کُھل کر نظر آنے لگے۔ سائنسدانوں کی جانب سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایک کے بعد ایک امریکی صدور اور حکومتوں نے اس ایشو پر زیادہ توجہ نہ دی، جس کے باعث صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ پچھلے کئی سال سے امریکہ میں موسمیاتی تبدیلی کے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کی بڑھتی شدت سے خراب حالات کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان واقعات میں سے سب سے تباہ کن، حال ہی میں ٹیکساس میں آنے والا برفانی طوفان ہے، جس نے بے شمار انسانوں کی جانیں لے لی ہیں۔
یوں تو ٹیکساس میں موسم اکثر و بیشتر گرم رہتا ہے، لیکن چند دن پہلے آنے والے ہولناک برفانی طوفان نے تھوڑی ہی دیر میں پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طوفان کی شدت کے باعث ٹیکساس کا گرِڈ سسٹم مکمل طور پر بند ہونے کے قریب تھا۔ لاکھوں افراد کئی دنوں تک گھر میں محصور رہے اور بجلی کے بلیک آئوٹ کا بھی سامنا کیا۔ طوفان کے پیش نظر ریاست کے کچھ علاقوں میں اشیائے خورونوش کی کمی کی شکایات سامنے آئیں۔ پینے کے صاف پانی کی کمی نے بھی متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ شدید سردی کے باعث 6 بے گھر افراد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ امریکہ جیسے ترقی یاقتہ اور امیر ملک کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ٹیکساس کے رہائشی اپنے منتخب گورنر گریگ ایبٹ سے نالاں نظر آئے۔ شہریوں نے سوشل میڈیا پر گورنر کو آڑے ہاتھوں لیا اور متاثرین کی لیٹ مدد کرنے پر اِن کی خوب کلاس لی۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور حالیہ برفانی طوفان کے پیچھے وجوہات سمجھنے کیلئے حکومتی ماحولیاتی اداروں نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ٹیکساس کے گورنر نے ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے واشنگٹن سے مدد کی درخواست کی، جسے امریکی صدر جو بائیڈن نے جزوی طور پر منظور کیا۔ امریکی بزنس مین اورعالمی entrepreneur بل گیٹس کا کہنا ہے ''اس طرح کے طوفان برپا ہوتے رہیں گے‘‘۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں بل گیٹس نے موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر ایک کتاب بھی شائع کی، جس کا نام ''How To Avoid A Climate Disaster‘‘ رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جنگلات کا تحفظ اور گرین انرجی کے استعمال پر زور لگانا ہی ہمیں تباہی کی راہ سے ہٹا سکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے انتخابی منشور میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا وعدہ تو کیا تھا، مگر اب تک پیرس معاہدہ بحالی کے علاوہ کوئی دوسرا خاطر خواہ قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
حالیہ خوفناک برفانی طوفان نے ٹیکساس کے منتخب نمائندے کی پرفارمنس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ ٹیکساس کے شعلہ بیان سینیٹر ٹیڈ کروز، جو امریکی صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں‘ طوفان کے شروع ہوتے ہی ٹی وی سکرینز سے غائب ہو گئے تھے۔ اسی وجہ سے خود کو عوامی سینیٹر کا نام دینے والے کروز کی گمشدگی پر خوب بحث شروع ہوئی۔ پھر اچانک کسی من چلے نے کروز کی ایئرپورٹ پر لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ تصویر سامنے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ذرائع نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ٹیڈ کروز چھٹیاں منانے کیلئے میکسیکو کے ایک مشہور سیاحتی مقام ''کین کون‘‘ میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود ہیں اور ان کا جلد واپسی کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں ہے۔ قدرتی آفت کا سامنا کرتے ٹیکساس کو چھوڑ کر کروز نے نیرو کی بانسری والی مثال کی یاد تازہ کردی۔ یہ خبر فیس بک، ٹویٹر اور سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی، جس کے نتیجے میں صارفین نے ٹیڈ کروز کی جم کر دُھلائی کی۔ پہلے سینیٹر کروز کی ٹیم کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک وضاحتی بیان جاری کیاگیا‘ مگر جاری کردہ بیان نے ناراض عوام کو اور بھی ناراض کردیا۔ کروز پبلک پریشر کے سامنے اتنے مجبور ہوئے کہ آخرکار انہوں نے اپنا پلان تبدیل کیا اور فوری وطن واپس لوٹ آئے۔
ٹیکساس واپسی پر میڈیا نے کروز کو گھیرے میں لے لیا اور وضاحت طلب کی۔ کروز نے فوری معافی تو مانگ لی مگر ساتھ ساتھ ڈیزاسٹرکے دوران چھٹیاں لینے کا سارا الزام اپنی نوعمر بیٹیوں کی ضد پر ڈال دیا۔ کروز نے نہ کوئی ریسکیو پلان بتایا، اور نہ عوام کو ریلیف دینے کی کوئی بات کی۔ نہ کوئی پالیسی بیان جاری کیا اور نہ متاثرہ علاقوں کے دوروں کا وعدہ تک کیا‘ بلکہ میڈیا کو غیر مطمئن دیکھ کر پریس ٹاک سے فرار میں ہی اپنی بہتری جانی۔ سیاست کے گرو کہتے ہیں کہ سینیٹرکروز کی اپنی اس غلطی کا خمیازہ اگلے الیکشن میں لازماً بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یو ایس اے کے سیاسی تجزیہ کاروں اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کروز کی نظریں ایک بار پھر وائٹ ہائوس پر ہیں اور وہ 2024 میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ریاست نیو جرسی کے مقبول گورنر کرِس کرسٹی کو بھی ایک برفانی طوفان ریلیف effort کی مِس ہینڈلنگ سیاسی طور پر بہت مہنگی پڑی تھی۔ اس قدر مہنگی کہ ایک وقت پر امریکی صدارت کے سنجیدہ امیدوار سمجھے جانے والے کرسٹی اب سیاست سے Retired hurt ہوچکے ہیں۔
اس وقت عالمی رائے عامہ موسمیاتی تبدیلی کو مدر ارتھ کا چیلنج نمبر1 قرار دے رہی ہے‘ جس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیش آنے والے حادثات امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کو اربوں ڈالر کا سالانہ نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ ماضی کی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ معاشی نقصان ہاروی نامی طوفان سے ہوا، جس کے نتیجے میں امریکی قومی خزانے کو 125ارب روپے کا جھٹکا لگا تھا۔ ٹیکساس ٹریبیون کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حالیہ ونٹر سٹارم سے ٹیکساس کواس سے بھی زیادہ معاشی نقصان ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ ٹیکساس میں بجلی بحال کرنے کا کام اس وقت جاری ہے اور دور دراز علاقوں میں امدادی کام بھی۔ صدر بائیڈن بھی ایک دو روز میں ٹیکساس روانہ ہوں گے جہاں وہ امدادی سرگرمیوں کا خود بھی جائزہ لیں گے۔ امریکی انتظامیہ کو معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے عالمی اداروں کے ساتھ جامع گلوبل پالیسی سازی کرنا ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved