جتنے مضبوط اعصاب ہم مسلمانوں کے بالعموم اور ہم پاکستانیوں کے بالخصوص واقع ہوئے ہیں ‘ کم ہی کسی کے ہوں گے! یہ ایک تقریر تھی جو وڈیوپر میں نے سنی‘ مگر افسوس تقریر پر نہیں‘ اُن بیشمار کمنٹس پر ہوا جو ناظرین اور سامعین نے نیچے دیے تھے۔ کس کس سے بحث کریں گے اور کس کس کو سمجھائیں گے ! ۔
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
حضرت یہ سمجھا رہے تھے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے والی بات میں کوئی حقیقت نہیں۔ دلیل ایسی تھی کہ سن کر سکتہ طاری ہو جائے۔ ہنسی آجائے یا گریہ طاری ہو جائے۔فرمایا کہ جہاں تک ہسپانیہ اور بغداد کے زمانۂ عروج کا تعلق ہے تو اُس زمانے کی سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کا کنٹری بیوشن اور مسلمانوں کی کامیابیاں مسلمہ ہیں۔ جغرافیہ تھا یا الجبرا‘ ستارہ شناسی تھی یا میڈیکل سائنس‘ قیادت ہر شعبے کی مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں تھی۔ رہا موجودہ دور تو بقول ان کے‘ سائنسی کامیابیاں تمام دنیا کے لوگوں کی مشترکہ ہیں۔ برہانِ قاطع جو اس کے حق میں انہوں نے پیش کی یہ تھی کہ امریکی ادارہ ''ناسا‘‘ ( نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن ) جو خلائی ریسرچ اور پروگراموں پر کام کرتا ہے ‘ تمام دنیا کے سائنسدانوں پر مشتمل ہے اور ان میں مسلمان بھی شامل ہیں !چنانچہ موجودہ عہد کی سائنسی ترقی کا سہرا صرف اہل ِمغرب کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ اس سنہری دلیل پر کمنٹس کرنے والے جوشیلے اہلِ ایمان نے داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برسائے تھے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ایک صاحب قمار بازی میں لگے ہوئے تھے اور مسلسل ہار رہے تھے۔ جو نقدی پاس تھی ‘ لٹا چکے تو مکان داؤ پر لگا دیا۔ وہ بھی ہار گئے اور باقی کچھ نہ بچا تو بیوی کو داؤ پر لگا دیا ‘ بیوی نے سمجھایا کہ ایسا نہ کرو‘ آج جیت تمہاری قسمت میں نہیں‘ یہ مجھے لے جائیں گے۔ اعصاب ان صاحب کے ہم لوگوں کی مثال تھے۔مضبوط ! بے حد مضبوط! کہا: نیک بخت ! میں ہار مانوں گا تو لے جائیں گے نا ! میں تو مانوں گا ہی نہیں ! منطق ہم لوگوں کی عجیب و غریب ہے۔ اب نئی نئی دلیلیں سننے میں آرہی ہیں۔ کسی سے پوچھئے آپ نے وعدہ کیا تھا‘ کیوں نہیں پورا کیا؟ جواب ملے گا ‘ وعدہ نہیں کیا تھا بس ایک بات کی تھی۔ غلطی انفرادی ہو یا اجتماعی‘ ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ! اور ایسے ایسے عذر پیش کرتے ہیں کہ سننے والے کا دل چاہتاہے گریباں چاک کر کے جنگل کی طرف نکل جائے۔
ہسپانیہ اور بغداد کے عہد ِعروج کی کامیابیاں تو آپ ساری کی ساری اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور آج کے مغرب کی سائنسی فتوحات میں اپنا حصہ جتاتے ہیں۔ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا۔ عباسیوں کے بغداد میں اہلِ ہند بھی موجود تھے اور قرطبہ‘ غرناطہ‘ طلیطلہ اور اشبیلیہ میں یہودی سکالر اور سائنسدان بھی سرگرم عمل تھے کیونکہ مسلمان حکومتیں اس معاملے میں لبرل تھیں اور غیر مسلموں کے حقوق برابر کے تھے۔ تو پھر اُس زمانے کی ترقی اور ایجادات کا کریڈٹ بھی صرف مسلمانوں کو کیوں دیا جائے۔ پھر بات قیادت کی بھی ہوتی ہے۔ کولمبس جب نئی دنیا کی تلاش میں نکلا تو اس کے بحری بیڑے میں ہسپانیہ کے مسلمان جہاز ران اور نیوی گیٹر بھی شامل تھے مگر قیادت کولمبس کے ہاتھ میں تھی اس لیے کریڈٹ اسی کو ملا۔ ناسا کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے؟ آخر ہم اپنے سائنسدانوں کیلئے کسی مسلمان ملک میں ناسا جیسا ادارہ کیوں نہیں بنا سکے ؟ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ ایسے ادارے مسلمان ملکوں میں بنتے اور مغرب کے سائنسدانوں کو ان میں کام کرنے کے مواقع دیے جاتے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ناسا میں مسلمان اہلِ علم کو مواقع میسر آرہے ہیں۔ اور یہ بھی ماننے کو ہم کہاں تیار ہوں گے کہ مغرب کے حکمرانوں کی ترجیحات اور ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تو جزیرے خریدے جاتے ہیں۔ ایک ایک یاٹ ( تفریحی بجرا) کروڑوں ڈالر میں لیا جاتا ہے۔ خالص سونے کی کاریں بنوائی جاتی ہیں۔ لندن کا سپر سٹور اتوار کو بند ملے تو اسی دن اپنی ملکیت میں لے لیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک بادشاہ سلامت انڈونیشیا کے دورے پر گئے تو وہاں کے تفریحی مقام بالی بھی تشریف لے گئے۔ درجنوں پروازوں میں تو ان کا ذاتی سامان گیا۔ ہزار کے لگ بھگ شاہی خاندان کے ارکان ساتھ تھے۔ مرسڈیز کاریں جہازوں پر ساتھ لے جائی گئیں۔ یہاں تک کہ جہاز سے اُترنے کی سنہری سیڑھی بھی اپنی لے کر گئے۔ فرانس میں پورا ساحل بُک کرا لیا۔ وہاں کے عوام نے احتجاج کیا تو لوٹ آئے۔ مراکش کے ساحلوں پر ان بادشاہوں کے میلوں تک پھیلے ہوئے قطار اندر قطار محل اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ دل کا علاج کرانے امریکی ہسپتالوں میں جاتے ہیں تو پورے پورے فلور ہوٹلوں کے بُک کرا تے ہیں اور کمروں کے کنڈے تالے اور باتھ روموں کی ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ مغرب کے حکمران سرّے محلات خریدتے ہیں نہ لندن کے مہنگے اپارٹمنٹس۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنے حکمرانوں کو پر تعیش زندگی سے روکیں اور ذاتی جاگیریں اور جہاز خریدنے سے منع کریں‘ مسلمانوں کو یہ کہہ کر خواب آور گولیاں کھلا رہے ہیں کہ آج کی ایجادات میں سب کا حصہ ہے۔ پینسلین کس کی دریافت ہے ؟ ہوائی جہاز بنانے والے رائٹ برادران کیا اوکاڑہ کے تھے یا بصرہ کے ؟ ٹرین کس نے بنائی؟ دنیا کی پہلی کار کہاں بنی اور کہاں چلی ؟ پریس پہلے پہل کہاں لگا؟ٹیلیفون کس کا کارنامہ ہے ؟ بلب بنانے والا ایڈیسن کیا اصفہان کا رہنے والا تھا ؟بھاپ سے چلنے والا ( سٹیم ) انجن کہاں وجود میں آیا؟ ٹرانزسٹر کہاں بنا؟ غالب دیاسلائی پر کیوں حیران ہوئے کہ فرنگی جیب میں آگ لیے پھرتے ہیں !اینٹی بایوٹک دوائیں جو کروڑوں اربوں انسانوں کی جانیں بچا رہی ہیں ‘ لوئی پاسچر اور رابرٹ کوچ نے 1877ء میں سب سے پہلے تجویز کیں۔ ریفریجریٹر اور ٹیلی وژن کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ پھر ہم میں ایک اور اندرونی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ کالجوں یونیورسٹیوں والے اہل ِمدرسہ کو مطعون کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ہیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ جو درسِ نظامی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ اہلِ مدرسہ جواب دیتے ہیں کہ تم کالج یونیورسٹی والوں نے کیا تیر مار لیا اور کیا ایجاد کیا؟ دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ مدرسہ اور غیر مدرسہ کی تفریق بے معنی ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ زوال مسلمانوں کاہوا ہے۔ مدرسہ والوں کا یا کالج والوں کا نہیں ہوا۔اور اہلِ مدرسہ ہی کو کیوں طعنہ دیا جائے ؟ جو ہارورڈ اور آکسفورڈ گئے انہوں نے کیا کیا؟ آج تک آئی ایم ایف سے نجات کیوں نہ حاصل کی ؟ اتنی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر‘ پاکستان ریلوے کے ساتھ کیا کیا ؟ سٹیل مل اور قومی ایئر لائن کو نشانِ عبرت کس نے بنایا ؟ خدا کے بندو آپس میں جھگڑا نہ کرو! مغرب کے مقابلے میں صرف مدرسہ والے یا کالج والے پسماندہ نہیں‘ صرف شیعہ یا سْنّی پیچھے نہیں رہ گئے۔ صرف عرب‘ صرف ایران ‘ صرف ترکی یا صرف پاکستان کا معاملہ نہیں۔ جب بھی اہل ِمغرب الزام لگاتے ہیں ‘ درست الزام یا غلط الزام‘ عسکریت پسندی کا یا اقتصادی اور سائنسی پسماندگی کا‘ تو مدرسہ پر یا کالج پر یا شیعہ پر یا سنی پر نہیں لگاتے۔ صرف اور صرف مسلمانوں پر لگاتے ہیں اور مسلمان ‘ ہم سب ہیں۔ کم از کم غیر مسلم ہم سبھی کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔
اپنی غلطی ‘ اپنا تنزل ‘ تسلیم کرنے میں کوئی توہین نہیں۔یہی تو حالی مسدسِ حالی میں رونا روتے رہے۔ کاش یہ کتاب‘ مدرسوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کر لی جاتی! کاش ہم جاگ اُٹھتے !