تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     02-03-2021

افغان مذاکرا ت اور پاکستان کا کردار

پاکستان اور افغانستان کے مابین روابط ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان عمر داؤد زئی کے حالیہ دورہ ٔاسلام آباد نے باہمی تعلقات میں ایک بڑا قدم آگے بڑھایا ہے۔ دوحہ عمل میں اپنے میزبانوں کی شراکت کی تعریف کرتے ہوئے داؤد زئی دو پیغامات لے کر آئے۔ 1) طالبان کو ایک معنی خیز مذاکرات کرنے کی طرف راغب کیا جائے، 2) اگر مکمل جنگ بندی نہ بھی ہو تو کم ازکم انہیں تشدد میں خاطر خواہ کمی لانے پر مجبور کیا جائے۔ کابل کا خیال ہے کہ محض مذاکرات مددگار ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی جاری تشدد کے ہوتے ہوئے مذاکرات معنی خیز انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا موقف بہت واضح ہے۔ موجودہ تناظر میں پاکستان سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے؛ تاہم سول اور عسکری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ''جو بھی ہو سکتا ہے‘ ہم کریں گے کیونکہ ہم دوحہ ڈائیلاگ کے احیا کیلئے پُرعزم ہیں‘‘۔ امریکی سینٹکام کے چیف جنرل کینتھ میکنزی کے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے صرف دو دن بعد ہی داؤد زئی اپنے وفد کی قیادت کرتے ہوئے پاکستان آئے۔ ایک خیال ہے کہ ان مذاکرات کی توجہ کا مرکزافغان شراکت داروں کے مابین مفاہمت اور امن ہے۔ پاکستانی عہدیداروں نے اس عمل میں اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے لیکن یہ بھی واضح کردیا کہ ''یہ ہم زیادہ سے زیادہ اس حد تک جا سکتے ہیں‘‘۔ میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے، ہم طالبان پر جتنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے تھے‘ وہ کر چکے ہیں۔
عمرداؤد زئی جو ایران اور پاکستان دونوں ممالک میں افغان سفیرکے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں‘ کو اسلام آباد کی حدود کا احساس ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ طالبان کو مکمل طور پر آن بورڈ رکھنا ہی تمام افغان شراکت داروں کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ دو طرفہ اعتماد میں نمایاں طور پر بہتری کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں شک کرنے والوں سے کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں ماضی میں مستقبل کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ پاک افغان یوتھ سمٹ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے داؤد زئی نے کہا ''پچھلے آٹھ مہینوں میں ہم نے ویزا، تجارت، سیاسی اور تعلیمی محاذوں پر گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں زیادہ ترقی کی ہے، تاجروں کی زیادہ تر شکایات کو پاکستانی وزارتوں نے دور کر دیا ہے اور اس سے ہمیں اس ملک کے اخلاص کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے، جب دونوں ممالک نے کسی بھی معاملے پر بات چیت اور تیز رابطوں کے لئے خصوصی ایلچی مقرر کئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام نئے مواقع سے فائدہ اٹھاکر ہمیں مذاکرات کو جاری رکھنا چاہئے تاکہ باہمی تعلقات بہتر سے بہتر ہوں۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے پاس ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ ہم ماضی کے قیدی نہیں بن سکتے۔ انہوں نے بگاڑ اور شک پیدا کرنے والوں کو نظر انداز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم عدم اعتماد کا مرحلہ گزار چکے ہیں، اب مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے ملاقات کے بعد داؤد زئی پاک افغان پارلیمانی فرینڈشپ گروپ کے کردار کوبھی سراہتے ہوئے نظر آئے جو دونوں ممالک میں پائی جانے والی بدگمانیاں ختم کرنے میں ادا کر رہا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پارلیمانی گروپ نے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ مختلف وزارتوں کے متعدد اُن عہدیداروں کو‘ جو باہمی روابط اور ہم آہنگیوں میں رخنہ ڈال رہے تھے‘ مسائل کے حل پر مجبور کیا۔ افغانستان کے بارے میں موجودہ علاقائی تعاون نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ بعض افغان رہنماؤں کے خیالات کے علاوہ روس، چین، ترکی اور ایران جیسی علاقائی طاقتیں بھی پاکستان کو خطے میں بھارت کے علاوہ ایک ناگزیر کھلاڑی سمجھتی ہیں۔ روس کے خصوصی مندوب ضمیر کابلوف کا حالیہ اسلام آباد کا دورہ پاکستان کے اس اہم کردار پر مہر ہے۔ کابلوف نے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کا افغان عمل پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہے لیکن یہ سمجھنا غلطی ہو گی کہ پاکستان جو چاہے کر سکتا ہے، پاکستانی ہمیشہ طالبان کی پوزیشن پر غور کرتے ہیں اور دو طرفہ تعلقات میں کبھی بھی اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے۔مذکورہ بالا تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ امن تمام افغان سٹیک ہولڈرز‘ جن میں طالبان بھی شامل ہیں‘ کے مل بیٹھنے سے ہی آئے گا۔ طالبان کو نہ صرف امریکا نے 29 فروری (2020ئ) کے امن معاہدے کے ذریعے بلکہ پچھلے سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے بھی ایک طاقتور شراکت دار تسلیم کیا جا چکا ہے۔ پاکستان نے کابلوف، جنرل کینتھ میکنزی، زلمے خلیل زاد اور دیگر افغان معززین کو آگاہ کیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے اردگرد ہونے والی پیش رفتوں کو جغرافیائی سیاست سے الگ تھلگ نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ شراکت کے ان نظریات کے بارے میں اپنے عہد کا اعادہ کرتی ہے تو پھر یہ سوچنا بیکار ہو گا کہ تمام غیر ملکی سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کے بارے میں سوچ اور عمل کی حقیقی ہم آہنگی کو سمجھا جائے۔
بھارت اور امریکاکے اُس مشترکہ اعلامیے‘ جس پر امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو، اس وقت کے امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر، بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے دستخط کیے تھے، نے چین کو مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس جغرافیائی سیاسی اتحاد کا کمزور ہدف رہے گا۔ مسعود فاؤنڈیشن کے سربراہ احمد وال مسعود نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''اگر صدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ دونوں جانتے ہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے میں قوم کو جو تکالیف ملی ہیں، اس کیلئے وہ آپس میں ہاتھ ملا کر اس مصیبت سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ تو ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ افغان عوام جنگ سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ اس میں ہر روز افغانوں کی ہی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جس میں طالبان بھی پوری طرح ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ تشدد کا راستہ نہیں چھوڑ رہے۔ تشدد کو کچھ افغان اور بھارتی ہوا دے رہے ہیں‘ اس لئے امن کے حصول کیلئے کسی ایک ملک‘ جیسے صرف پاکستان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ تنازعات سے امن کی طرف سفر کیلئے ہمیں ہر ایک کی ضرورت ہوگی، صدر غنی کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا‘‘۔ یہ وہ پیغام ہے جو اس وقت اسلام آباد سے باہر جا رہا ہے اور تمام علاقائی طاقتیں اس کی تائید کر رہی ہیں۔ کیوں؟ محض اس لئے کہ جب تک افغانستان تنازعات میں جکڑا رہے گا‘ معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور علاقائی تجارتی رابطے کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن تو چاہتا ہے لیکن طالبان کے ساتھ مزید محدود نہیں ہونا چاہتا۔
ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں عمر دائود زئی نے افغانستان میں جنگی معیشت پر بھی بات کی کہ بہت سے اہم لوگ اس کاروبار میں ملوث رہے ہیں؛ تاہم وہ اس مسئلے پر تفصیل میں جانے سے گریز کر رہے تھے اور ان مخصوص افغانوں کا ذکر نہیں کر رہے تھے جو جنگی معیشت سے ارب پتی ہو گئے؛ مثلاً پیر گیلانی، سابق وزیر دفاع فاروق وردک کا گھرانہ یا اور ایسے کئی کلیدی رہنما جو امریکا کیلئے ذیلی کنٹریکٹر بنے اور نیٹو کیلئے رسد سے جڑے ہوئے کاروبار سے لاکھوں ڈالر کمانے لگے۔ جنگ کے دنوں میں منشیات کا بھی کاروبار ہوا جس سے لوگوں نے کافی مال کمایا اور شاید یہی لوگ افغان امن عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved