تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-03-2021

زاہدان اور پلوامہ حملے اور چتی سنگھ پورہ

اگر قتل کے کسی کیس میں قاتل اور وجۂ قتل سامنے نہ ہو تو تفتیش اس رخ سے شروع کی جاتی ہے کہ مقتول کی موت سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچ سکتا ہے؟ چھبیس فروری 2019ء کو بھارت کی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالا کوٹ میں جابہ کے مقام پر پے لوڈ گرا کر فرار ہونے اور اگلے روز ستائیس فروری کو پاکستان کی جانب سے اس کا منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے دو سال پہلے کئے جانے والے آپریشن سویفٹ ریٹورٹ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ٹی وی چینلز اور اخبارات و جرائد میں اس حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ کچھ اَن کہے واقعات کی روشنی میں پلوامہ حملے سے بھارت کے ممکنہ مفادات پر بات کی جائے تو 14 فروی 2019ء کو پلوامہ حملے سے ایک روز قبل 13 فروری کو ایران کے پاسدارانِ انقلاب گارڈز کے کانوائے پر خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس میں 27 پاسدارانِ انقلاب شہید ہوئے تھے۔ زاہدان خاش شاہراہ پر کئے گئے اس خود کش حملے پر مزید کچھ بتانے سے پہلے یہ پہلو سامنے رکھیے کہ اس خود کش حملے اور پلوامہ حملے کے ٹھیک تین دن بعد سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان پہلی دفعہ وزیراعظم عمران خان سے خصوصی ملاقات کرنے کیلئے اسلام آ رہے تھے اور ان کی پاکستان آمد سے قبل ایرانی فوج کے کانوائے پر خود کش حملہ کیا گیا جبکہ اگلے ہی روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ ہوا۔ کیا یہ حملے مجرموں کی نشاندہی میں رہنمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں؟
13 فروری 2019ء کو ایران میں زاہدان خاش ہائی وے سے جب پاسدارانِ انقلاب کا کانوائے گزر رہا تھا تو اچانک ایک گاڑی کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس سے پا سدارانِ انقلاب کے27 گارڈز موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اس پر جنرل باقری نے بلوچستان کی ایک دہشت گرد تنظیم جیش عدل پر اس حملے کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کو ایران مخالف دو خلیجی ملکوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ بیان عین اس وقت دیا جا رہا تھا جب دو روز بعد سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آ رہے تھے۔ زاہدان حملے کے ٹھیک چوبیس گھنٹوں بعد‘ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پلوامہ کے علاقے میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس کے کانوائے پر سرینگر ہائی وے پر خود کش حملہ کیا جاتا ہے جس میں سی پی آر ایف کے چالیس جوانوں کی ہلاکت ہوتی ہے۔ بھارت کی جانب سے فوری یہ بیان داغا جاتا ہے کہ پلوامہ حملہ پاکستان نے کروایا اور اس حوالے سے آزاد کشمیر کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔ سعودی ولی عہد کی آمد سے ٹھیک دو روز قبل پاکستان کے دو پڑوسی ممالک میں خود کش حملے ہوتے ہیں اور دونوں ممالک پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ کیا یہ واقعات نشاندہی نہیں کرتے کہ ان خود کش حملوں سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا؟
یہ وہ دور تھا جب ایران میں بھارت کا اثر و رسوخ چابہار بندرگاہ کی صورت میں بہت بڑھ چکا تھا جس کی ایک واضح مثال کلبھوشن یادیو گروپ کا چابہار کو اپنا کیمپ بنا کر وہاں سے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں کو اسلحہ، ٹرانسپورٹ اور فنڈز کے علاوہ ہر قسم کے بارود کی فراہمی تھی۔ بھارت کو اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ملنے والی وہ خبریں بے چین کئے ہوئے تھیں کہ ایران چابہار بندرگاہ کا کنٹرول بھارت سے واپس لینے جا رہا ہے اور ایسا ہونے سے بھارت کو افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک اپنی اشیا کی آسان اور محفوظ نقل وحمل اور توانائی سمیت تجارتی رابطوں اور سہولتوں کے خواب مسمار ہوتے نظر آ رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر چابہار اور سیستان سے بے دخلی کی صورت میں بلوچستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے رابطوں میں بھی شدید رکاوٹیں پڑ سکتی تھیں اور یہ خدشات بھی سر اٹھا رہے تھے کہ زاہدان میں انڈین قونصلیٹ اور چابہار بندرگاہ کو آپریٹ کرنے والے بھارت کے مقامی دفاتر کیلئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کے ہزاروں افراد کی ایران میں موجودگی کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہنا تھا۔
زاہدان حملے کے بعد اجیت دوول اور 'را‘ کیلئے اطمینان بخش پہلو یہ تھا کہ پاسدارانِ انقلاب کے قافلے پر ہونے والے حملے سے کسی کا دھیان بھارت کی جانب نہیں جا سکتا تھا لیکن جب غور سے ان تمام واقعات کی ٹائم لائن کا جائزہ لیا جائے اور واقعات کی کڑیاں ملائی جائیں تو علم ہوتا ہے کہ پلوامہ اور زاہدان حملے ایک ہی طریقہ کار سے کیے گئے جبکہ ان میں بارود بھی ایک ہی طرح کا استعمال ہوا۔ اجیت دوول اور نریندر مودی کو پلوامہ اور زاہدان خود کش حملوں سے اپنی مقبولیت میں اضافے، الیکشن میں فتح سمیت ایران‘ پاکستان اور ایران‘ عرب تعلقات میں دراڑ بھی مقصود تھی۔ ان دونوں حملوں کی ٹائمنگ دیکھیں تو یہ سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان اور بھارت میں عام انتخابات کا وقت تھا اور ان حملوں کے سبب ہی دو تہائی اکثریت سے کامیابی سمیٹتے ہوئے مودی نے آئینی ترامیم کی صورت میں جہاں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی وہیں آر ایس ایس کے آمرانہ قوانین کے نفاذ کیلئے تمام رکاوٹوں کو بھی دور کیا۔ انتہا پسند ہندوئوں کا اتحاد مودی کے لیے کوئی کم کامیابی نہ تھی۔ اسی پر بس نہیں‘ جیش عدل پر زاہدان حملے کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے پاکستا ن اور ایران کی چابہاربندرگاہ سے بھارت کو باہر نکالنے کیلئے درپردہ کی جانے والی بات چیت میں رکاوٹ ڈالی گئی اور سعودی عرب کے ولی عہد کے دورۂ پاکستان کو جنرل باقری کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے خوف سے ملتوی کرانے کی کوشش بھی کی گئی جبکہ ان حملوں کے بعد پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کے نام پر ایسا ایڈونچر کیا گیا جس سے بھارت کے تمام ہندو ووٹرز مودی کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے کے جنون میں مبتلا ہو گئے اور نتیجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے دوتہائی اکثریت کی صورت میں برآمد ہوا۔
بھارت پلوامہ حملے کی ذمہ داری جیش محمد پر عائد کرتا ہے مگر جیش نے آج تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ ارنب گوسوامی کی لیکڈ چیٹ سے یہ ثابت ہو چلا ہے کہ یہ حملہ مودی سرکار کا الیکشن جیتنے کا ایک ڈھونگ تھا۔ لیکن اس حملے کے فوری بعد بھارتی حکومت اور میڈیا نے جیش محمد کا نام لے لے کر دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا، جس سے ایک جانب بھارتی فوج کے پہرے میں محبوس کشمیریوں اور بھارت بھر کے مسلمانوں میں خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی گئی تو دوسری جانب دنیا بھر میں بھارت کو دہشت گردی کے زخموں سے نڈھال ریاست کے طور پر پیش کرتے ہوئے بین الاقوامی ہمدردیاں سمیٹنا شروع کر دی گئیں۔ اس کے بعد فرانس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں زاہدان اور پلوامہ حملے کی دہائیاں دیتے ہوئے بھارت نے واویلا شروع کر دیا کہ اسے پاکستان سے بچایا جائے۔
امریکا کی سابق سیکرٹری آف سٹیٹ میڈلن البرائٹ نے اپنی کتاب ''The Mighty and the Almighty‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ لہجے میں کہا تھا ''مجھے ہمیشہ یہ افسوس رہے گا کہ کاش ہم 20 مارچ 2000ء سے پہلے ہی اپنا دورۂ بھارت منسوخ کر دیتے کیونکہ اس دن جب ہمارا (امریکی صدر بل کلنٹن کا)طیارہ نئی دہلی سے تین گھنٹے کی مسافت پر تھا تو ہمیں اچانک اطلاع ملی کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے ایک گائوں چتی سنگھ پورہ میں مجاہدین نے 36 سکھوں کو ان کے گھروں سے نکال کر قتل کر دیا ہے۔ جیسے ہی ہمارا طیارہ نئی دہلی اترا تو خبریں آنے لگیں کہ بھارت بھر میں پاکستان کے خلاف شدید مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ مظاہرین کی بہت بڑی تعداد نئی دہلی میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے معذرت کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس وقت ہم کشمیر پر کسی قسم کی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘‘۔
یہ امر واضح رہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی غرض سے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے برصغیر پاک و ہند کے دورے پر آئے تھے، یہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی حملوں اور کارگل جنگ کے بعد کا دور تھا جب پوری دنیا پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے مگر بھارت اس ثالثی سے جان چھڑا رہا تھا۔جیسے ہی امریکی صدر کا طیارہ فضا میں بلند ہوا، مقبوضہ کشمیر کے ایک گائوں چتی سنگھ پورہ میں مجاہدین کے بھیس میں چند دہشت گردوں نے سکھوں کے ایک گائوں پر دھاوا بول کر 36 بے گناہ سکھوں کو قتل کر دیا جس پر بھارت بھر میں ہنگامے شروع ہو گئے اور واجپائی سرکار نے پاکستان سے مذاکرات اور کشمیر ثالثی کے کسی بھی پروگرام سے معذرت کر لی۔ بعد میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان سکھوں کا قتل را کے کمانڈو سکواڈ سے کرایا گیا تھا جس کا مقصد امریکی صدر بل کلنٹن کے پہلے سے طے شدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے خصوصی ایجنڈے کو عین وقت پر ناکام بنانا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved