طاقت کا معاملہ ہے ہی اِتنا ٹیڑھا کہ جنہیں یہ مل جائے اُن میں ٹیڑھ کا پیدا ہونا فطری امر ٹھہرتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور کی طاقتور ترین ریاستوں نے طاقت کے نشے میں چور ہونے کے بعد کبھی یہ نہیں دیکھا کہ جو کچھ وہ کر رہی ہیں وہ اخلاقی اعتبار سے درست ہے یا نہیں۔ یورپ نے کم و بیش چار صدیوں تک دنیا پر حکومت کی اور اِس کے بعد امریکا بھی اُس سے آن ملا۔ بیسویں صدی امریکا اور یورپ یعنی مغرب کے مکمل اقتدار و اختیار کی صدی ثابت ہوئی۔ فطری علوم و فنون کی ترقی کے حوالے سے بھی یہ صدی اب تک کی تاریخ میں فیصلہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس ترقی نے انسان کو خرابی کی طرف بھی دھکیلا۔ امریکا اور یورپ نے باقی دنیا کو محض غلام کا درجہ دینے کا سوچا اور اِس سوچ پر عمل کی بھی ٹھانی۔
1500 عیسوی کے بعد سے 1900 عیسوی کی آمد تک چار صدیوں کے دوران یورپ نے جدید علوم و فنون کے حوالے سے اپنی پیش رفت سے باقی دنیا کو محض نفسی طور پر ہی متاثر نہیں کیا بلکہ سیاسی و معاشی اعتبار سے بھی صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ معیشت کو غیر معمولی بڑھاوا دینے سے طاقت بڑھی۔ طاقت میں اضافے کی خواہش پروان چڑھی تو یورپی طاقتوں نے باقی دنیا کو غلام بنانے کی سمت سفر شروع کیا۔ یوں نو آبادیاتی دور کی ابتدا ہوئی۔ یہ دور یورپ کے دامن اور ماتھے پر آج تک انتہائی بدنما داغ ہے۔ اِس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر طاقتور ریاست اپنے مفادات کی زیادہ سے زیادہ تقویت چاہتی ہے۔ اس میں کچھ خاص بُرائی بھی نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ باقی دنیا کے مفاد کے بارے میں بالکل نہ سوچے۔ کسی بھی طاقتور ریاست کی طرف بہت سی کمزور ریاستیں پُرامید نظروں سے بھی دیکھتی ہیں۔ یورپی طاقتوں نے دنیا کو ایجادات و اختراعات کے حوالے سے بہت کچھ دیا مگر دوسری طرف طاقت کی بدمستی میں اُنہوں نے محض ریاستوں کو نہیں بلکہ خطوں کو بھی پامال کر ڈالا۔ کئی خطوں کو یورپی طاقتوں نے صدیوں غلام بنائے رکھا۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں وہ ہوئیں۔ صدیوں محکوم و مرعوب رہنے والی اقوام اب تک پُراعتماد انداز سے جینے کے قابل نہیں ہوسکیں۔
بیسویں صدی میں یورپی طاقتوں کے لیے پوری دنیا پر اپنا جبر و تسلّط برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ ایسے میں امریکا نے آگے بڑھ کر کمزور ممالک، بلکہ پورے پورے خطوں کو بدحالی سے دوچار رکھنے کی ٹھانی۔ یہ سفر مختلف شکلوں میں اب تک جاری ہے۔ نو آبادیاتی دور کو دو عظیم جنگوں نے ختم کیا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں یورپی طاقتیں شدید کمزوری سے دوچار ہوئیں۔ فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور دیگر یورپی طاقتیں اس پوزیشن میں نہ رہیں کہ افریقا، ایشیا اور جنوبی امریکا میں اپنا اثر و نفوذ برقرار رکھ سکیں۔ برطانیہ کے لیے بھی لازم ہو گیا کہ اپنی نو آبادیوں سے دستبردار ہو۔ یوں بیسویں صدی میں درجنوں ممالک کو آزادی ملی۔ یہ آزادی کس حد تک آزادی ہے، اِس پر بحث پھر کبھی سہی۔
امریکا نے جب دنیا کا نظام اپنے ہاتھ میں لیا تب اس نے اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر پورے پورے خطوں کو دبوچ کر رکھا۔ نو آبادیاتی دور لد چکا تھا۔ ایسے میں لازم ٹھہرا کہ باقی دنیا پر حاکمیت قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے امریکی قائدین کچھ اور سوچیں۔ طے پایا کہ کسی بھی ملک کو براہِ راست غلام بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اُس کے پورے نظامِ حکومت کو مفلوج کردیا جائے تاکہ قومی زندگی اپنی شناخت کھو بیٹھے اور معاشرت پستی سے دوچار ہو۔ یہ تھی وہ حکمتِ عملی جس کے تحت امریکا سات عشروں سے کمزور ممالک کو جی بھر کے لُوٹ رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے مضبوط حریفوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی کمزور ممالک ہی کو بروئے کار لانے پر توجہ دی۔ بارک اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس کے رابطہ کار کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دینے والے فلپ ایچ گورڈن نے محلاتِ اقتدار و اختیار کی اندرونی کہانیاں ''لوزنگ دی لانگ گیم‘‘ میں خاصے موثر انداز سے بیان کی ہیں۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں حکومتیں گرانے اور نظام ہائے حکومت تبدیل کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا‘ وہ اب تک مطلوب نتائج یقینی بنانے میں کچھ خاص کامیاب نہیں ہوسکا۔ فلپ گورڈن کا استدلال ہے کہ امریکی پالیسی میکرز نے ناپسندیدہ قرار پانے والے ممالک میں اپنی پسند کے حکمران لانے کے لیے ایک طرف تو حکومتیں گرانے پر توجہ دی اور دوسری طرف حکومتی نظام بدلنے کو بھی ترجیح دی۔ بدمستی کا یہ مظاہرہ لبرل جمہوریت کے نام پر کیا گیا۔ امریکا نے سات عشروں کے دوران ایران، عراق، مصر، لیبیا، شام اور دیگر ممالک میں حکومتیں گرانے اور اپنی مرضی کے حکمران ہی نہیں بلکہ نظام لانے کے حوالے سے جو کچھ کیا‘ اُس نے پورے خطے کے امن و استحکام کو داؤ پر لگا دیا۔ 1953ء میں سی آئی اے نے ایران میں منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر بادشاہت بحال کی۔ دوسری طرف بعض ممالک میں بادشاہت کو ختم کرکے جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکی پالیسی میکرز نے سات عشروں کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں اشتراکیت اور انتہا پسندی کے سدباب، جیو پولیٹکل مسابقت کی راہ روکنے اور بڑے حریفوں کو ایک خاص حد تک رکھنے کی خاطر حکومتیں گرائیں اور سیاسی عمل کی راہ میں رخنہ ڈالا۔ فلپ گورڈن نے اپنی کتاب میں صرف مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر بحث کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے متعدد خطوں میں درجنوں ممالک کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اس کی عسکری مہم جوئی نے ویتنام کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ امریکی فوج خاصی رسوائی کے بعد ویتنام سے نکلی۔ افغانستان کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ طالبان کو ختم کرنے کے نام پر امریکا نے افغانستان میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا اُس نے پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگادی۔ جنوبی امریکا کو امریکی پالیسی میکرز نے کبھی پنپنے نہیں دیا۔ امریکا کے اپنے پڑوس میں واقع یہ خطہ بھی عسکری مہم جوئی سے کبھی محفوظ نہیں رہا۔ ہیٹی، پاناما، نکارا گوا، کیوبا، وینزویلا اور دیگر بہت سے ممالک میں امریکی پالیسیوں نے اِتنی خرابیاں پیدا کیں کہ اب اِن ممالک کے لیے حقیقی معنوں میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہا۔ امریکا نے اپنی طاقت میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے اُن تمام ممالک کو دانستہ کمزور رکھنے پر توجہ دی جن کے ابھرنے اور طاقتور ہوجانے کا خدشہ تھا۔ جب تک سوویت یونین بڑے حریف کی شکل میں موجود تھا تب تک اشتراکیت کو ہرانا مقصدِ اول تھا۔ جب سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تب ناپسندیدہ ممالک کو لبرل ڈیموکریسی سکھانے کی ٹھانی گئی۔ مسلم دنیا کو امریکا نے پوری توجہ کے ساتھ نشانے پر رکھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ شمالی افریقا میں بھی عدم استحکام امریکا کے بنیادی پالیسی اہداف میں شامل رہا۔
اب زمانہ غیرمعمولی بلکہ فیصلہ کن انداز کی کروٹ بدل چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدِ صدارت میں ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کی بات کی جو حقیقت پسندی کا مظہر تھی۔ پھر کچھ یوں بھی ہے کہ امریکا کے لیے پوری دنیا میں اپنے اثر و نفوذ برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ امریکی فوج کئی عشروں سے over-stretched ہے۔ دباؤ کم کرنے اور ''عسکری حواس‘‘ بحال کرنے کے لیے لازم ہے کہ غیر ضروری مہم جُوئی سے گریز کیا جائے۔ اچھا ہو کہ صدر جوبائیڈن تین چار عشروں کے دوران کی امریکی پالیسیوں کا جائزہ لے کر حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو دنیا میں بگاڑ کا گراف نیچے لائیں۔ اور کچھ نہ سہی، کمزور ریاستوں کو ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل تو چھوڑا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہنگامہ خیز اور بے ہنگم دورِ صدارت کے بعد جو بائیڈن کی آمد کو شدید حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ دعا ہے کہ امریکی پالیسی میکرز اب ضمیر کی آواز سُنیں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔