تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     03-03-2021

غازی مرید حسین اور عشق کی وادیٔ گل رنگ

یہ غازی مرید حسین کی کہانی ہے جس کی ساری زندگی عشق سے عبارت تھی۔ جس کی روح بے چین اور مضطرب تھی۔ جس نے زندگی کی آسائشیں چھوڑ کر پُر خار راہوں کا انتخاب کیا تھااور جو ایک دن عشق کی وادی ٔگل رنگ میں اُتر کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا تھا۔ یہ چکوال کے علاقے دھنّی میں واقع ایک گائوں بھلّہ کے رہنے والے غازی مرید حسین کی کہانی ہے جس کے مزار پر عشاق کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ وہ فروری کی 28 تاریخ تھی اور اتوار کا روشن دن۔ سردیوں کی مہربان دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ آج میری منزل چکوال تھا۔ پنجاب کا وہ مردم خیز علاقہ جہاں تاریخ کے کتنے ہی واقعات یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ انہی ہیروں اور موتیوں کی تلاش مجھے یہا ں لے آئی ہے۔ بعض اوقات آپ گھر سے ایک منزل کا تعین کر کے نکلتے ہیں لیکن قدرت آپ کا ہاتھ پکڑ کر ایک اور راستے پر لے جاتی ہے جس کے بارے میں آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا‘آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ نصیر نے گاڑی چلاتے ہوئے اچانک ایک جگہ پر بریک لگائی‘ میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگا: آپ تاریخی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں یہاں سے کچھ فاصلے پر چواسیدن شاہ روڈ پر جائیں تو ایک گائوں بھلّہ آتاہے۔ یہاں کا ایک مکین غازی مرید حسین تھا جو 23 سال کی عمر میں تختۂ دار پر چڑھ کر تاریخ میں اَمر ہو گیا۔ میں اپنی منزل بھول گیا اور نصیر سے کہا ـ کہ ـچلو بھلہ چلتے ہیں۔ مجھے کیا پتہ تھا بھلہ میں تاریخ کی ایک انمٹ کہانی میرا انتظار کر رہی ہے۔
فروری کا آخر تھا اور دور دور تک پھیلے کھیتوں میں سرسوں کے زرد پھول روشن تھے‘ میں گاڑی سے باہر تیزی سے گزرتے کھیتوں اور درختوں کو دیکھ رہا تھا۔ یہ پنجاب کا حسن تھا جسے اوائلِ بہار نے اور سحر انگیز بنا دیا تھا۔ اچانک نصیر نے گاڑی کی رفتار آہستہ کر دی‘ اب مجھے ایک مسجد کا مینار اور مزار کا گنبد نظر آ رہا تھا۔یہ مزار غازی مرید حسین کی ابدی آرام گاہ تھی۔سفید ٹائلوں کا خوب صورت وسیع صحن اور پھر مزار کی عمارت جس پر دیدہ زیب نقاشی کی گئی تھی۔مزار کی عمارت ایک بہت بڑے احاطے میں واقع ہے اور عمارت سے ہٹ کر پیچھے کی طرف صحن میں کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ صحن میں ایک جگہ پر بھینسیں اور بکریاں بندھی ہیں۔ کونے میں تندور سے گرم گرم روٹیاں اُتر رہی ہیں۔آنے والوں کے لیے لنگر کا اہتمام ہے۔ صحن میں دو چارپائیاں اور کچھ کرسیاں رکھی ہیں۔ایک چارپائی پر بابو غلام اکبر صاحب بیٹھے ہیں۔جو اس مزار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔زندگی کا ایک حصہ بیرونِ ملک رہے اب اپنی زندگی یہاں کے لیے وقف کر دی ہے۔انہوں نے خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا‘میں ان کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔میں نے کہا :میں آپ سے غازی مرید حسین کی کہانی سننے آیا ہوں۔غلام اکبر صاحب نے بولنا شروع کیا ''غازی مرید حسین میرے والد خیر مہدی کے چچا زاد بھائی تھے۔میرے والد عمر میں غازی مرید حسین سے دس بارہ سال بڑے ہوں گے لیکن دونوں میں دوستی کا اٹوٹ بندھن تھا‘ایک ہی بڑی حویلی تھی جس میں میرے والد صاحب اور مرید حسین پلے بڑھے‘‘۔میں نے کہا: یہ کس سن کی بات ہے؟ غلام اکبر صاحب بولے : غازی مرید حسین کی پیدائش 24فروری 1914ء میں ہوئی۔وہ جس گھر میں پیدا ہوئے وہ ایک خوشحال زمیندار گھرانا تھا۔مرید حسین کے والد صاحب کا نام عبداللہ تھا جن کی گاؤں میں کافی زمین تھی۔گاؤں میں زمین ہی کسان کا زیور ہوتی ہے۔اسی سے اس کا معاشرتی رتبہ متعین ہوتا ہے۔عبداللہ صاحب کا گاؤں کے اہم لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔غازی مرید حسین کی والدہ کا نام غلام عائشہ تھا جو ایک نیک خاتون تھیں۔یہ ایک مثالی زندگی تھی‘لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔غازی مرید حسین پانچ سال کے تھے کہ ان کے والد عبداللہ صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اب غازی مرید حسین کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ کے سر آپڑی تھی جنہوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔میں نے پوچھا :کیا اس گاؤں میں کوئی سکول تھا؟ اس پر غلام اکبر صاحب بولے: اس زمانے میں بچوں کو ابتدائی تعلیم مسجد میں دی جاتی تھی‘غازی مرید حسین کو بھی مسجد کے امام سید محمد شاہ کی شاگردی میں دے دیا گیا۔بھلہ میں اُس زمانے میں کوئی سکول نہیں تھا۔بچوں کا ایک پرائمری سکول ساتھ والے گاؤں کریالہ میں تھا۔غازی مرید حسین کو بھی کریالہ کے اس سکول میں داخل کرا دیا گیا۔جب ہائی سکول کا مرحلہ آیا تو غازی مرید حسین کو چکوال کے گورنمنٹ سکول میں داخل کر ا یا گیا۔یہیں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
ہم باتوں میں محوتھے کہ ہمارے سامنے چائے آگئی میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا: غلام اکبر صاحب آپ کے والد تو غازی مرید حسین کے دوست تھے وہ کیا بتاتے تھے غازی مرید حسین کس طرح کے طالبِ علم تھے؟ پڑھائی کے علاوہ ان کی کیا دلچسپیاں تھیں؟ غلام اکبر صاحب بولے: والد صاحب بتاتے تھے کہ مرید حسین ایک ذہین طالبِ علم تھا وہ پھرتیلے بدن کا مالک تھااور والی بال اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔والد صاحب بتاتے تھے کہ مرید حسین کو شعروشاعری میں دلچسپی تھی۔وہ خود بھی اردو اور پنجابی میں شعر کہتے تھے۔غلام اکبر صاحب نے گفتگو جاری رکھی اور کہنے لگے: غازی مرید حسین اب اس قابل ہو گئے تھے کہ نمبر داری کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا سکیں لیکن انہیں جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ نمبرداری کا یہ طوق وہ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے بالآخرانہوں نے اس منصب کو چھوڑ دیا۔میں نے غلام اکبر صاحب سے پوچھا :ایک دور افتادہ گائوں میں پروان چڑھنے والا نوجوان سیاسی طور پر اس قدر با شعور کیسے ہو گیا ؟ غلام اکبر صاحب بولے :غازی مرید حسین کو مطالعے کا جنون تھا اور وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے۔ ایک بار علامہ مشرقی چکوال تشریف لائے تو غازی مرید حسین نے ان سے ملاقات کی اور باضابطہ طور پر اس تحریک میں شامل ہو گئے۔
تب ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے غازی مرید حسین کی دنیا ہی بدل دی۔ غازی مرید حسین نماز روزے کے پابند تھے اور حضور پاکﷺ سے خاص عقیدت رکھتے تھے‘ ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺنے انہیں دو لوگوں کے چہرے دکھائے اور کہا کہ یہ میرے گستاخ ہیں‘ غازی مرید حسین کی آنکھ کھلی تو ان کی سانس دھونکنی کی طرح چل ر ہی تھی۔ اس خواب کی تعبیر کیا ہے انہیں اس کی خبر نہ تھی۔پھر ایک روز زمیندار اخبار میں ایک خبر چھپی جس کے مطابق گڑگائوں کے ایک گائوں پلول میں جانوروں کے ایک ڈاکٹر رام گوپال نے پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی۔غازی مرید حسین نے یہ خبر پڑھی تو انھیں چند دن پہلے کا خواب یاد آگیا۔غازی مرید حسین کا خون اُبلنے لگا وہ گاؤں کی آڑھی ترچھی پگڈنڈیوں پر مارے مارے پھرنے لگے۔یہ گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کا موسم تھا۔یہ کسانوں کی سال بھر کی محنت کے صلے کا موسم ہوتا ہے۔غازی مرید حسین نے اپنی درانتی اپنے چچا زاد بھائی خیر مہدی کو دیتے ہوئے کہا :تم میرے حصے کا کام کر دینا مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے لمبے لمبے ڈگ بھرتے گاؤں کی کچی سڑک کی طرف روانہ ہو گئے۔ حیرت زدہ خیر مہدی دم بخود کھڑا سوچ رہا تھا کہ بھلا فصل کی کٹائی سے بھی ضروری کوئی کام ہے؟ اسے کیا خبر تھی غازی مرید حسین کس سفر پر جا رہا ہے؟ یہ عشق کی وادیٔ گُل رنگ کا سفر تھا جو پُر خار راستوں سے ہو کر جاتا ہے۔غازی مرید حسین نے اسی سفر کا آغاز کیا تھا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved