اگست 2018ء میں جب تحریک انصاف اپنے زوردار منشور کے ساتھ برسراقتدار آئی تو بہت سوں کو امید بندھی کہ اب تبدیلی کا سفر شروع ہوگا۔ ایک مہینے بعد یعنی ستمبر2018 ء میں اس نے اپنا بجٹ پیش کیا تو قلعی کھل گئی۔ کوئی بنیادی اصلاح کی نہ معیشت پر طاری جمود کو توڑنے کا اشارہ دیا۔ بس اعدادوشمار کا ایک لایعنی گورکھ دھنداتھا جو صرف تبدیلی حکومت کی نالائقی کے دیباچے کے طور پر یاد رہ گیا۔ اس کے بعد معیشت کی گاڑی ان سے چھوٹ گئی۔آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی تو سرمایہ کاروں نے بھی ہاتھ روک لیا۔ حکومت کی معاشی ٹیم نے قرضوں کا راگ الاپ الاپ کر دنیا کویہ تاثردے دیا کہ ہمارا دیوالیہ نکلنے کو ہے۔ ظاہر ہے جس ملک کی معاشی ٹیم دیوالیہ ہونے کا امکان ظاہر کرنے لگے ‘ اس ملک میں کون پیسہ لگائے گا۔ سووہی ہوا‘ کاروبار بند ہوتے چلے گئے‘ روپے کی قدر تیزی سے نیچے آنے لگی‘ جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے بازار میں لانے کی بجائے گھر میں روک لیا اور معیشت کا صرف وہی حصہ چلتا رہا جو انتہائی ضرورت کی اشیا سے متعلق ہے۔ کارخانوں کی پیداوار گرتی گرتی یہاں تک گری کہ اس حکومت کے دوسرے سال میں ترقی کی شرح منفی ہوگئی۔ یاد رہے کہ ان تباہ کن معاشی فیصلوں میں سینیٹ کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ وہ اس لیے کہ دستور کے مطابق بجٹ سے متعلق معاملات صرف قومی اسمبلی میں آتے ہیں جہاں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل تھی۔ اس لیے اگر کوئی یہ توقع لگائے بیٹھا ہے کہ سینیٹ الیکشن جیت کر حکومت معیشت بہتر کرلے گی تو غلط ہے۔
2018 ء کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف نے جن بنیادی تبدیلیوں کا وعدہ عوام سے کیا تھا ان میں سے ایک بیوروکریسی اور پولیس سے متعلق تھی۔ بیوروکریسی کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے صرف ایک اصلاح کی ضرورت ہے اور وہ ہے کہ عمومی انتظامی افسروں کی بجائے پیشہ ورانہ اہلیت کے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پرلایا جائے۔ اس کا مطلب یہ کہ صحت کے محکمے کا سربراہ کسی ڈاکٹر کو اور آبپاشی کا سیکرٹری کسی انجینئر کو لگایا جائے نہ کہ ایسے افسروں کو جن کی مبلغ مہارت چھوٹے موٹے انتظامی امور کو نمٹانے تک محدود ہوتی ہے۔ یہ اصلاحات صرف کابینہ کے ذریعے قواعد میں تبدیلیوں کے ذریعے کی جاسکتی تھیں۔ اسی طرح پولیس کا معاملہ ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے قوانین کو بدل کر بامعنی تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔ دلچسپ بات ہے کہ دونوں اصلاحات کیلئے سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت تحریک انصاف کے راستے کی رکاوٹ نہیں تھی کیونکہ ان میں سے کچھ بھی سینیٹ تک جانا ہی نہیں تھا۔ اس لیے اب اگر سینیٹ میں تحریک انصاف کی ممکنہ اکثریت سے کوئی یہ سمجھے کہ حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات کا آغاز ہوگا تووہ بھی غلط ہے۔ اگر یہ اتنی ہی لائق ہوتی تو یہ کام ڈھائی برس پہلے سینیٹ کے بغیر ہی مکمل ہوچکا ہوتا۔
سودن میں یہ کردیں گے‘ نوے دن میں وہ کردیں گے جیسے نعرے تو سبھی کو یاد ہوں گے۔ پھر سو دن بعد وزیر اعظم کی وہ تقریر بھی یاد ہوگی جس میں انہوں نے قوم کو کٹوں اور مرغوں کے ذریعے زرعی ترقی کی نوید سنائی تھی۔ آنجناب کے اندازِ بیاں کو نظر اندازبھی کردیجیے‘ کیا کسی نے دیکھا کہ ان کے ارشاد کے مطابق ملک میں لائیو سٹاک (مویشی) کی پیداوار میں کوئی اضافہ ہوا ہو؟ زراعت کی حالت یہ ہے کہ ہم طویل عرصے بعد چینی اور گندم بھی درآمد کررہے ہیں۔ اس حکومت میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس قابل ہوکہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرسکے۔ زراعت اور صنعت کا تعلق مضبوط کرکے پیدوار میں اضافے کی سبیل کرے۔ اقتدار کی آدھی مدت گزار کر امید کی صرف ایک کرن پھوٹی ہے کہ ایک ڈھنگ کے افسر کو زرعی منصوبہ بندی کے لیے کہا گیا ہے۔ کاشتکاروں کوٹریکٹر کیلئے بلاسود جو قرضہ مل رہا ہے‘ دراصل اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ اس منصوبے کو عمل میں لانے کیلئے اب بھی سینیٹ کی کوئی ضرورت نہیں‘ بس اس کو آئندہ بجٹ کا حصہ بنانا ہوگا‘ جو ظاہر ہے قومی اسمبلی سے منظور ہونا ہے لہٰذا اس معاملے میں بھی سینیٹ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔
عمران خان کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ درست کہتے ہیں۔ اپنے کہنے کے بالکل برعکس‘ اقتدار میں آکر انہوں نے پنجاب کے برے بھلے بلدیاتی نظام کو لپیٹ دیا اور اس سے بھی زیادہ برا ایک بلدیاتی نظام پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے منظور کرا لیا۔ جب اس نظام کی قلعی کھلی تو پھر اس میں ترمیم کا ڈول ڈالا‘ ترمیم سے یہ نظام مزید بگڑا تو نئے سرے سے ترمیم کا کھیل شروع ہوگیا۔ ترمیم بعد از ترمیم کا یہ سلسلہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جاری ہے۔ اگر یہی رفتار رہی توتحریک انصاف کو سو دو سو برس تو لگ ہی جائیں گے بلدیاتی انتخاب کراتے ہوئے۔ بجائے اس کے کہ پرویز مشرف کے دور کابنا بنایا بہترین بلدیاتی نظام دوبارہ نافذ کردیتے‘ ایک بے فائدہ مشق میں الجھ گئے اور وقت ضائع کردیا۔ یاد رہے کہ بلدیاتی نظام کی تشکیل نو‘ اس کے نفاذ یا اس کے الیکشن میں سینیٹ کا کچھ لینا دینا نہیں۔ یعنی سینیٹ کا الیکشن جیت کر بھی اس معاملے میں کچھ نہیں ہونے والا۔
دو نہیں ایک پاکستان‘ تحریک انصاف کا نعرہ تھا۔ اس نعرے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سرکاری دفتر میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ اس نعرے کے مطابق نظام کو ڈھالنے کیلئے قطعاً سینیٹ کی ضرورت نہیں۔ وفاق اور دو صوبوں میں تو یہ کام صرف ذرا سی توجہ کے ساتھ ہوسکتا تھا۔ مگر نہیں‘ کھلنڈرے بچوں کے اس گروہ کو چونکہ اس میں اپنے کرتب دکھانے کا موقع نہیں ملنا تھا اس لیے پہلے دن سے ہی یہ نعرہ بھلا دیا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا سے بہترین صلاحیتوں کے لوگوں کو بھی تو پاکستان لانا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ باہر سے لائے جانے والوں کی فہرست ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ‘ رضا باقر اور فیصل واوڈا جیسے نابغوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ سینیٹ کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں تھا‘ مسئلہ فقط یہ ہوا کہ جن لوگوں کو تحریک انصاف قابل سمجھتی تھی‘ انہیں پاکستان میں کوئی کسی قابل نہیں سمجھتا۔
سینیٹ پاکستان کے دستور میں وہ ادارہ ہے جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی مساوی ہے۔ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے حوالے سے یہ ادارہ قانون سازی کیلئے اہم تو ہے لیکن قومی اسمبلی کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ کسی قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کی صورت میں سینیٹ کو بائی پاس کردے۔ اس لیے اس ادارے میں اکثریت کا ہونا اہم تو ہے لیکن اتنا نہیں کہ اس کے بغیر کاروبارِ حکومت ہی آگے نہ بڑھ سکے۔ تحریک انصاف کے اب تک کچھ نہ کرپانے کا معاملہ سینیٹ میں نہیں اٹکا بلکہ خود اس کی نالائقی سے جڑا ہے۔ اگر اسے یہ علم ہوتا کہ ملک کو کسی طرف لے جانا ہے‘ کہاں اصلاح کرنی ہے‘ کہاں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے‘ تو سینیٹ کے بغیر بھی بہت کچھ بدل سکتا تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ اب حکومت کے ڈھائی سال گزارنے کے بعد بھی اس جماعت کو یہ علم نہیں کہ مستقبل کا نقشہ کیا بنانا ہے۔ اس لیے سینیٹ میں اس کی اکثریت سوائے ماضی کی حکومتوں کو گالیاں دینے کے‘ اورکسی کام کی نہیں ہوگی۔
شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بار انہیں اتنی غربت کا سامنا کرنا پڑا کہ جوتا خریدنے کی بھی استطاعت نہ رہی۔ ننگے پاؤں چلنا دشوار ہوگیا توایک روز نماز میں اللہ سے شکوہ بھی کر بیٹھے۔ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تو ایک ایسے فقیر پر نظر پڑی جس کے پاؤں ہی نہ تھے اور وہ گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر سجدہ ٔشکر بجا لائے کہ میں جوتوں کو روتا ہوں‘ اس کے پاس تو چلنے کیلئے پاؤں ہی نہیں۔موجودہ حکومتی بندوبست کی حالت بھی پاؤں سے محروم فقیر جیسی ہے۔ اب اس کے پاس بھی پاؤں نہیں رہے۔ اسے جوتا مل بھی گیا تو پہنے گا کہاں‘ بس اب اسے یونہی گھسٹ گھسٹ کرچلنا ہے۔