تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     03-03-2021

کوئی جیتے کوئی ہارے،شکست عوام کا مقدر

ایوانِ بالا میں بالادستی کیلئے کانٹے دار مقابلہ جاری ہے‘ دونوں طرف سے برتری کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ حکومتی اُمیدوار حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن ملک کے مستقبل کا مقابلہ ہے جبکہ پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے ارکانِ اسمبلی کو خط لکھ ڈالا کہ اُمید ہے میرے کردار کو مدِنظر رکھ کر ارکان فیصلہ کریں گے۔ سیاسی پنڈت ہوں یا دور کی کوڑی لانے والے سبھی کے اپنے اپنے قیافے اور اپنی اپنی پیش گوئیاں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر حکومتی اُمیدوار کامیاب ہوا تو سیاسی منظر نامہ اس طرح ہوگا‘ تو کسی کا دعویٰ ہے اگر پی ڈی ایم کامیاب ہوگئی تو سیاسی میدان کا نقشہ کچھ یوں ہوگا‘ سیاسی بیانیوں سے لے کر دعوؤں تک اخبارات ہوں یا ٹاک شوز سینیٹ الیکشن ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا ہے۔ گویا ملک بھر میں سیاسی سرکس کا سماں تھا‘ یوں لگتا ہے کہ دونوں طرف سیاسی کارکنوں سے لے کر اعلیٰ قیادت تک سبھی کو سب کچھ پتہ ہے۔ سبھی پر اپنے اپنے اُمیدوار کی کامیابی کو عوام کی فتح سے منسوب کرنے کی دھن سوار ہے۔
یہ منظرنامہ ہرگز نیا نہیں‘ حالیہ سینیٹ الیکشن میں سیاسی بازیگروں نے جو کرتب دکھائے تھے وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔آج بازی گر کیا چال چلتے ہیں اور کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے یہ فیصلہ اگلے چند گھنٹوں میں ہونے جارہا ہے۔ کامیاب حکومتی اُمیدوار ہو یا پی ڈی ایم کا‘ شکست بہر حال عوام کا ہی مقدر بنے گی۔ سیاسی بازیگر ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں‘ یہ کبھی نہیں ہارتے‘ یہ ہار کے بھی جیت جاتے ہیں اور ہر دور میں ہر بازی عوام نے ہی ہاری ہے۔ نہ انہیں عوام سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عوام کی حالتِ زار سے‘ تعجب ہے حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک نام عوام ہی کا استعمال کرتے ہیں‘ اپنی کامیابیوں کو عوام ہی کی فتح قرار دیتے ہیں لیکن برسرِ اقتدار آتے ہی عوام کو اس طرح فراموش کرڈالتے ہیں گویا عوام کے نام سے بھی واقف نہ ہوں۔ ان کی اصلاحات ہوں یا پالیسیاں‘ طرزِ حکمرانی ہو یا میرٹ‘ ان سبھی میں عوام مائنس ہی رہتے ہیں۔
کل تک یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور حفیظ شیخ ان کے اقتصادی چیمپئن تھے۔ آج یہ ایک دوسرے کے مدِمقابل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا نہ کوئی معیار ہے‘ نہ کوئی کردار‘ بس کوئے اقتدار تک رسائی درکار ہے۔ اسی طرح اس سیاسی سرکس میں ایک دوسرے کے بدترین حریف اور صبح وشام ایک دوسرے کے لتے لینے والے بانہوں میں باہیں ڈالے ایک دوسرے پر واری واری جانے کے علاوہ حلیف بنے پھرتے ہیں۔جن حادثات اور سانحات پر حکمرانوں سے استعفے طلب کیا کرتے تھے‘ آج ان سے بڑے حادثات اور سانحات پر کیسے کیسے ڈھونگ جواز اور توجیہات تراشتے پھرتے ہیں۔
کیا حزبِ اقتدار‘ کیا حزبِ اختلاف‘ کیا حریف‘ کیا حلیف سینیٹ کے تاحال نتائج تک سبھی کے دل میں نہ صرف لڈو پھوٹ رہے ہیں بلکہ بغلیں بجاتے پھرتے ہیں۔ ان سے کوئی بعید نہیں‘ عوام کے درد میں مرے جانے والے آج کے نتائج میں آئندہ کی بندر بانٹ بھی یقینا پہلے سے طے کر چکے ہوں گے۔ ڈسکہ کے حالیہ متنازع ضمنی انتخابات کا ذمہ دار انتظامی افسران کو ٹھہرانے کے بعد انہیں بَلی کا بکرا بناکر عہدوں سے فارغ کیا جارہا ہے جبکہ کون نہیں جانتا کہ حکومتی وزیر اور مشیر انتخابی حلقے میں کیوں ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی برملا بتاتے ہیں کہ وہاں متوقع انتخابی نتائج سے گھبرا کر بلوہ کرنے والوں کا انتظام کس نے کیا تھا اور فائرنگ کے ایڈونچر کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ انتظامی افسران کو بَلی کا بکرا بنا کر اصل کرداروں کو بچا لینا ہمارے ہاں کی پرانی روایت ہے۔ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کی یہ جنگ بہت پرانی ہے‘ دھونس اور دھاندلی سے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے سے لے کر ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کے سبھی ایڈونچر ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ آپریشن چھانگا مانگا ہو یا مری‘ اس کارِ بد کی روایات کچھ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی جوں کی توں جاری ہیں۔ جہاں عدم اعتماد بچانے کیلئے سیکرٹری پنجاب اسمبلی غائب کر دیا جائے‘ وہاں دھونس دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کوئی حیرت کی بات نہیں اور معاملہ بگڑنے یا اُلٹا پڑنے کی صورت میں چند انتظامی افسران کو بَلی کا بکرا بنا کر سارا ملبہ ان پرڈال دیا جاتا ہے۔ جھاکا اُترے روایتی سیاسی کارکن کن اشاروں اور ہدایات پر امن و امان برباد کرنے سے لے کر خون خرابے کرنے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ سبھی جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ ملکی تاریخ کے سبھی انتخابات ایسے ایڈونچرز سے بھرے پڑے ہیں۔
ناقص کارکردگی پر افسر شاہی کے سینکڑوں عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا طبل نجانے کتنی بار بجایا گیا ہے لیکن کارروائی کا عملی مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ انتخابات میں مطلوبہ توقعات پر پورا نہ اُترنے والے انتظامی افسران کو ایسے نتائج اکثر بھگتا پڑتے ہیں جبکہ اکثر اناڑیوں نے گھی نکالنے کے لیے اُنگلی سمیت پوری انتظامی مشینری کو ٹیڑھا کرنے کے سبھی حربے آزمانے کے علاوہ ہتھ چھٹ کارکنوں کو بھی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ ان زمینی حقائق اور ریکارڈ پر موجود واقعات کے بعد ڈسکہ کے معرکے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کیلئے 18مارچ کا انتظار کریں‘ اگرچہ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ انصاف سرکار یہ معرکہ سر کرتی نظر آتی ہے۔
ہر الیکشن کو عوام کی فتح سے منسوب کرنے والی سیاسی اشرافیہ کے سامنے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ عوام اور ان کے درمیان بس ایک ووٹ کا رشتہ ہے‘ ادھر ووٹ حاصل کیا اُدھر تم کون اور ہم کون۔ اس کے برعکس عوام ان سے مانگتے ہی کیا ہیں؟ حکومت انہیں اُن بنیادی ترین ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیتِ انسان ان کاحق بنتا ہے۔ عوام کیلئے بس یہی کافی ہے‘ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی نہیں مانگتے۔مگر عوام کے یہ حکمران انہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ عوام کو انسان کے مرتبے پر فائز کردیں گے شاید اُس دن انہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے جن کی جستجو میں نجانے کتنی دہائیوں کا سفر کرنے کے باوجود عوام آج بھی ہلکان اور لہولہان ہیں۔ تمام عمر گنوانے کے باوجود عوام کا وہ گھر نہیں آیا جس کے سہانے خواب انتخابات میں ان کے مسیحا انہیں دکھاتے آئے ہیں۔ بیچارے بھولے عوام جنہیں بے پناہ چاہتے ہیں‘ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پھر انہی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں پھر انہی سے نجات کیلئے منتیں مانگتے نظر آتے ہیں۔
چلتے چلتے وزیر داخلہ شیخ رشید کا ایک بیان قلم آرائی پر مسلسل اکسائے چلے جارہا ہے۔ جس میں انہوں نے منسٹر انکلیو کو برڈ فرینڈلی بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ منسٹر انکلیو میں ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے جس سے پرندے بے خطر کھنچے چلے آئیں گے۔ وزیر موصوف کی پرندہ دوستی یقینا قابلِ تعریف ہے‘ پرندوں کی چہچہاہٹ قدرت کی کسی انمول موسیقی سے کم نہیں۔ کاش! کوئی وزیر ایسا بھی ہوتا جومنسٹر انکلیو کو عوام فرینڈلی بنانے کی بات کرتا اور یہ کہتا کہ ان کی کالونی میں عوام اپنے مسائل کے حل اور دادرسی کیلئے بلا روک ٹوک آسکتے ہیں‘ مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ کوئی وزیر ہو اور ایسی سوچ رکھتا ہو‘ ہرگز نہیں۔ وزیر موصوف کے اس بیان سے چند روز قبل وزیر سندھ کی سرکاری گاڑی میں ان کے پالتو کتوں کی تفریح کی وائرل ہونے والی ویڈیو بھی بے اختیار یاد آگئی کہ حکمرانوں کے پالتوں کتے سرکاری گاڑیوں اور وسیع و عریض سرکاری رہائش گاہوں میں موجیں مارتے پھرتے ہیں جبکہ آوارہ کتوں نے کراچی سمیت ملک کے اکثر شہروں میں عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved