حکومت قوم کو بے سُری لوریاں سنا
کر وقت پورا کر رہی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت قوم کو بے سُری لوریاں سنا کر وقت پورا کر رہی ہے‘‘ لیکن قوم یہ بے سری لوریاں سن کر سونے کے بجائے مزید چوکنا ہو گئی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ بے سری لوریاں سن سن کر قوم کہیں خود بھی بے سری نہ ہو جائے، اس لیے حکومت کو چاہیے تھا کہ یوں قوم کا اور اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے پہلے اپنے آپ کو سُر تال سے اچھی طرح آراستہ کرتی اور لوریاں سنانے کا تردد بعد میں شروع کرتی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت یا تو غلط کام صحیح وقت پر کرتی ہے یا صحیح کام غلط وقت پر۔ آپ اگلے روز ملتان میں مہنگائی کے خلاف جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے‘ ہم کامیاب ہوں گے: حفیظ شیخ
وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ''ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم کامیاب ہوں گے‘‘ اور سینیٹ الیکشن میں میری کامیابی اور ناکامی ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اس لیے ملک کے مستقبل کے ساتھ دلچسپی رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کو اپنے اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے مجھے کامیاب کرانا چاہیے ورنہ نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
کیونکہ اگر میں ناکام ہو گیا تو پھر ہاتھ ملنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیونکہ ملک کا مستقبل دائو پر لگانا یا اس کی اجازت دینا کسی طور درست نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بے اختیار اور بے بس شخص لاچار ہو چکا ہے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر بے اختیار اور بے بس شخص لاچار ہو چکا ہے‘‘ جبکہ ہمارے دور میں ہم اتنے بااختیار تھے کہ ہم نے اختیارات کا کھل کر استعمال کیا جس پر اب ہم سب کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے؛ اگرچہ اسے انتقامی کارروائی کہنا انتہائی احمقانہ بات ہے کیونکہ موجودہ حکومت اس سے قبل کبھی برسراقتدار رہی ہی نہیں جو اس نے ہم پر کوئی ظلم ڈھایا ہو اور جسے انتقامی کارروائی کہا جا سکتا ہو، البتہ مجھے بے اختیار کرنے کی کوشش ضرور ہو رہی ہے اور پارٹی رہنمائوں کی ضمانتیں اس سازش کا حصہ ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
مریم کو آئندہ دنوں مشکلات میں گھرا دیکھ رہا ہوں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کو آنے والے دنوں میں مشکلات میں گھرا دیکھ رہا ہوں‘‘ اور یہ میری خواہش بھی ہو سکتی کیونکہ خواہشات ہی تو وہ گھوڑے ہیں جن پر سوار ہو کر آدمی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے، جبکہ اصل میں یہ پیش گوئی شیخ رشید احمد کو کرنا چاہیے تھی کیونکہ پیش گوئیاں کرنا زیب بھی انہی کو دیتا ہے اور پیشگوئیاں کر کر کے اب وہ باقاعدہ سیاسی نجومی بن چکے ہیں کیونکہ سیاسی گرفتاریوں کے حوالے سے انہی کی خبروں کوسب سے مستند سمجھا جاتا ہے جبکہ پیشگوئیوں کا باقاعدہ ایک سرکاری محکمہ ہے جس کی سربراہی شیخ صاحب کے سپرد ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
آرڈیننس مسترد ‘ کس بات کی خوشی منا رہے: خرم دستگیر
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ''حکومت کا آرڈیننس مسترد ہو چکا، کس بات کی خوشی منا رہے‘‘ اگرچہ ایک حد تک عدالت نے حکومت کی بات بھی مانی ہے؛ تاہم یہ اس خوشی کے برابر نہیں ہے جو ہم نے حمزہ شہباز کی ضمانت پر منائی تھی، اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ تمام الزامات سے بری ہو گئے ہیں، چنانچہ ملکِ عزیز میں نہ تو خوشی کامیابی کے تناسب سے منائی جاتی ہے اور نہ غم ناکامی کے تناسب سے منایا جاتا ہے جبکہ اس فیصلے پر ہر دو فریقوں کو آدھی خوشی اور آدھا سوگ منانا چاہیے تھا کیونکہ شاعر نے بھی یہی کہ رکھا ہے کہ ع
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
کھیلن کو مانگے چاند
یہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے ہلکے پھلکے کالموں اور مضامین کا مجموعہ ہے جسے سنگری پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے: ''سب گھر والوں کی دعائوں، مریضوں کی شفائوں، دوستوں کی وفائوں، غیروں کی جفائوں، زمانے کی سزائوں، موسموں کی ادائوں، روشن مستقبل کی صدائوں اور جھنگ کی ہوائوں کے نام‘‘ دیباچہ ڈاکٹر فوزیہ چودھری نے لکھا ہے جبکہ پیش لفظ مصنف کا بقلم خود ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کو محسن مگھیانہ کا کلیات، یا کلیات کی پہلی جلد بھی کہا جا سکتا ہے۔ پسِ سرورق جن مشاہیر کی مختصر توصیفی آرا درج ہیں ان میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، مشتاق احمد یوسفی، عطا الحق قاسمی، سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خاں، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر محمد یونس بٹ شامل ہیں۔ اندرونِ سرورق بھی ایسی ہی آرا سے مزین ہے۔
اور‘ اب آخر میں بھارت سے صابر کی نظم:
اندازے
مٹھی بھر خاک
قدِ آدم آئینے کو
گدلے پانی کی جھیل میں تبدیلی کر دیتی ہے
تہہ میں جگمگاتی ہوئی شے
چاندی کا سکہ بھی ہو سکتی ہے
اور بوتل کا ڈھکن بھی
اندازے اکثر درست نکل آتے ہیں
ہر نسل ایک قدم ہے
ایک نسل کے بعد دوسری نسل
قدم بہ قدم
راستا طے ہو رہا ہے
مسافت ختم ہو گئی
انتہا پر سب کچھ ویسا ہی ہو جائے گا
جیسا ابتدا میں تھا
مگر اندازہ لگانے سے بہتر ہے
آئینے کو صاف کر کے دیکھا جائے
تازہ پسینے کی بُوندوں
اور باسی اخبار کے تراشوں سے
آئینے کی صفائی ممکن ہے
لیکن پسینہ تیزابی اور اخبار خون آلود ہے
جھیل کا پانی مزید گدلا ہو گیا ہے
سطح پر سرحدوں میں بٹی جہنم
کے نقشے تیر رہے ہیں
گہرائی میں جھلملاتی ہوئی شے
ڈوبی ہوئی کشتی بھی ہو سکتی ہے
اور تابوت بھی
آج کا مقطع
اتنی کیچڑ تھی محبت کی‘ ظفرؔ
پائوں آلودہ ہیں اور ہاتھ خراب