شوہر اور بیوی کے درمیان ہم آہنگی کا پایا جانا کامیاب گھریلو زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس ہم آہنگی کے نتیجے میں جہاں پر گھر امن اور سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے وہیں پر اولاد کے اذہان پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اپنے والدین کے درمیان ہم آہنگی کو دیکھ کر اولاد نفسیاتی اعتبار سے مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں ناچاقی، تنازعات اور لڑائی جھگڑے ہوں تو نہ صرف یہ کہ گھر میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے بلکہ اولاد کے اذہان وقلوب پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بہت سے افراد والدین کے مابین ناچاقی کو دیکھ کر احساسِ محرومی اور مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے درمیان ہم آہنگی کے قیام اور فروغ کے لیے کتاب وسنت میں مذکور تعلیمات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کتاب وسنت کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے تو یقینا گھر کو امن وسکون کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے اورلڑائی جھگڑے اور تنازعات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ اس نے انسان کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نباء کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے پیدا کیا تمہیں جوڑا جوڑا‘‘۔ اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃالروم میں اس بات کو بیان فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے انسانوں کے نفسوس میں سے ان کے جوڑوں کو پیداکیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمہارے نفسوں (یعنی تمہاری جنس) سے بیویوں کو تاکہ تم سکون حاصل کرو اُن کی طرف (جاکر) اور اُس نے بنا دی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی، اس میں یقینا نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے (جو) غور وفکر کرتے ہیں‘‘۔ آیت مذکورہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کے لیے ان کی بیویوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سکون رکھا ہے اور اُن کے درمیان مودّت اور شفقت کو پیدا کیا ہے۔ یہ سکینت، مودّت اور رحمت یقینا گھروں کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے اور اِن عناصر کی وجہ سے ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ میں شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت کو واضح فرماتے ہوئے آیت نمبر187 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لباس ہیں تمہارے لیے اور تم لباس ہو اُن کے لیے‘‘۔اس آیت مبارکہ میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دے کر جہاں پر شوہر اور بیوی کی قربت کو واضح فرمایا گیا وہیں پر اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح لباس انسان کے عیوب کو ڈھانپتا اور اس کی زینت کا سبب ہے اسی طرح شوہر اور بیوی جہاں پر ایک دوسرے کے لیے زینت ہیں وہیں پر ایک دوسرے کے رازوں کے محافظ بھی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق اور (البتہ) مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے‘‘۔اس آیت مبارکہ میں حقوق کا عمومی طور پر ذکر کیا گیا لیکن قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیویوں کے خاص حقوق کو بھی مقرر کیا ہے۔ جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مالی حقوق: مالی حقوق میں سے پہلا حق یہ ہے کہ عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی دیے جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ادا کرو عورتوں کو اُن کے مہر خوشی سے پھر اگر وہ خوشی سے (چھوڑ) دیں تمہیں کچھ حصہ اس سے از خود‘ تو کھاؤ اُسے مزے سے بغیر روک ٹوک کے‘‘۔ اسی طرح عورت کے نان نفقے کو پورا کرنا بھی مرد کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 233 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس کا بیٹا ہے (یعنی والد)اس (کے ذمہ) پر ہے ان (عورتوں)کا کھانا اور ان (عورتوں) کا لباس دستور کے مطابق‘‘۔ اسی طرح سورہ طلاق میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی کہ ہر شخص کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق اپنے مال کو اپنی اہلیہ پر خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر میں 7 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''چاہیے کہ خرچ کرے وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور (وہ) جس پر تنگ کر دیاگیا ہو اُس کا رزق تو چاہیے کہ وہ خرچ کرے (اُس) میں سے جو اللہ نے دیا ہے اُسے ‘اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی نفس کو مگر (اُسی کی) جو اُس نے دیا ہے اُسے ‘عنقریب ضرور کردے گا اللہ تنگی کے بعد آسانی‘‘۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ابو سفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریمﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: ''اے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ابوسفیان بخیل آدمی ہے تو کیا مجھ پر کچھ حرج ہے کہ میں جو کچھ اس کا ہے‘ اس میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہیں مگر (اتنا جائز ہے کہ )دستور کے مطابق کھلاؤ۔
2۔ حسن سلوک: مالی حقوق کے ساتھ ساتھ عورتوں سے حسنِ سلوک کی بھی تلقین کی گئی ہے جس کا ذکر سورہ نساء میں کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے پھر اگر تم ناپسند کرو اُن کو تو ہوسکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو اور رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں بہت بھلائی‘‘۔ اسی طرح طرح جامع ترمذی میں روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: سنو!عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو اس لیے کہ وہ تمہارے ماتحت ہیں۔ تم ان پر(ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ کے علاوہ) اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے)‘‘۔
3۔ بیوی کو اذیت نہ دینا: اسی طرح بیوی کو بلا وجہ تکلیف نہیں دینی چاہیے اگر وہ سرکشی یا فحاشی کا ارتکاب کریں تو ایسی صورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے ساتھ تادیبی معاملہ کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ عورتیں جو (کہ) تم ڈرتے ہو ان کی سرکشی سے تو سمجھاؤ انہیں اور (اگر بازنہ آئیں تو) چھوڑ دو اُنہیں (تنہا) بستروں میں اور (اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو) مارو اُنہیں پھر اگر اطاعت کرنے لگیں وہ تمہاری تو نہ تلاش کرو اُن پر (زیادتی کا) راستہ‘‘۔ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا اختیار ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہواس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو۔ البتہ عام حالات میں بیویوں کو اذیت دینا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ مومن ومسلمان کے پیشِ نظر درج ذیل حدیث رہنی چاہیے۔سنن ابن ماجہ میں عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نہ تو اپنے آپ کو نقصان دو اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو۔
جس طرح عورتوں کے حقوق ہیں اسی طرح شوہر کے بھی حقوق ہیں جن میں سے بعض اہم حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اطاعت: عورت کے لیے شوہر کی اطاعت کرنا لازم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر34 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مرد حاکم ہیں عورتوں پر (اس) وجہ سے جو فضیلت دی اللہ نے اُن میں سے بعض کو بعض پر اور (اس) وجہ سے جو انہوں نے خرچ کیا اپنے مالوں سے‘‘۔ عورتوں کو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر شوہر اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہے یا ان سے نفع حاصل کرنا چاہے تو ان کو اس مسئلے میں شوہر کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے، وہ نہ آئے اور وہ (شوہر) اس پر ناراضی کی حالت میں رات گزارے تو اس کے صبح کرنے تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
2۔شوہر کے ناپسندیدہ شخص کو گھر میں داخل ہونے سے روکنا: عورت کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو شوہر نا پسند کرتا ہو اس کو اس کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہ ہونے دیں۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر جب اس کی اجازت ہو اور اس کے گھر میں اس کی موجودگی میں (اپنے کسی محرم کو بھی) اس کی اجازت کے بغیر نہ آنے دے اور اس (عورت) نے اس کے حکم کے بغیر اس کی کمائی سے جو کچھ خرچ کیا تو یقینا اس کا آدھا اجر اس (خاوند) کے لئے ہے۔
3۔شوہر کے مال اور اولاد کا تحفظ: عورت کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ شوہر کے مال اور اس کی اولاد کا تحفظ کرے اور اس حوالے سے کسی قسم کی خیانت کا ارتکاب نہ کرے۔ اگر شوہر اور بیوی اپنے حقوق کو ادا کریںتو گھر ایک مثالی گھر بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے گھروں کو امن وسکون کا گہوارہ بنائے اور ہر شوہر اور بیوی کو مثالی زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین !