تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     03-03-2021

چار شہدا کی ماں!

عربوں کو اللہ نے زبان دانی کا ایسا جوہر عطا فرمایا ہے جس کی مثال کسی دوسری زبان میں کم ہی مل سکتی ہے۔ عرب کے مقابلے پر عجم کی جو اصطلاح معروف ہے، اس کا معنی عربی میں گونگا کے مترادف ہے۔ عرب شعرا کے کلام میں بلا کی تاثیر اور اظہارِ جذبات کا بے مثال نمونہ ملتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ بعض اشعار میں بڑی حکمت و دانائی ہوتی ہے۔ آپﷺ اچھے شعر کو سن کر خوش بھی ہوتے اور اس کی تعریف بھی فرماتے تھے۔ آپﷺ کے صحابہ میں سے بھی کئی لوگ بڑے اچھے شعرا تھے۔ ان لوگوں نے اپنے اشعار سے کفار کا خوب مقابلہ کیا۔ زبان و قلم کے جہاد کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے '' ہم نے اپنے نبی کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ ہی شعر ان کے شایانِ شان ہے‘‘ ( سورہ یٰس: 69)۔ آپﷺ کو بذریعہ وحی جو کچھ عطا فرمایا گیا تھا وہ کلام الٰہی ہے،پوری انسانیت کے لیے ذکر اور نصیحت ہے۔ آنحضورﷺجب کبھی کوئی شعر پڑھتے تو اس کے الفاظ اور مصرعے آگے پیچھے ہو جاتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓاشعار کی تصحیح کرتے تو آپﷺ فرماتے ''میں شاعر نہیں ہوں اور مفہوم تو بہر حال یہی ہے نا‘‘۔ آپﷺ کے صحابہ میں کئی مایہ ناز شعرا کے نام ملتے ہیں جیسے حضرت حسانؓبن ثابت، حضرت کعبؓبن مالک، حضرت عبداللہؓبن رواحہ اور خواتین میں حضرت خنساءؓ۔ آپﷺ نے حضرت خنساء ؓ کے وہ اشعار سنے جو انہوں نے اپنے بھائی کے مرثیے کے طور پر کہے تھے تو فرمایا '' خنساءؓ ارثی العرب‘‘۔ (خنساءؓعربی زبان کی سب سے بڑی مرثیہ گو ہے )۔حضرت خنساء ؓکا نام تماضر بھی لکھا گیا ہے مگر معروف نام خنساءؓ ہی ہے۔ آپ نجد میں مقیم قبیلہ بنو سُلَیم سے تھیں۔ حضرت خنساءؓبڑی عظیم خاتون تھیں۔ ان کی زندگی کا جاہلی دور اور اسلامی دور ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ وہ حقیقی انقلاب کی بہترین مثال ہیں۔ حقیقی انقلاب وہ ہوتاہے جو دل کی دنیا کو بدل دے۔ انہوں نے اپنے بھائی معاویہ بن عمرو کے قتل پر بھی مرثیے لکھے تھے لیکن دوسرے بھائی صخر بن عمرو کے قتل پر تو ایسے دردناک اشعار مسلسل کئی سال تک کہے جن کو سن کر مخالف قبیلے کے لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے۔ اپنے ایک مرثیے میں وہ کہتی ہیں''سورج کا طلوع و غروب اپنے معمول کے مطابق جاری ہے مگر ہر طلوعِ آفتاب صخر کی جدائی کا پیغام لے کر آتاہے اور دل پر آرے چلاتاہے۔ ہر غروبِ آفتاب غم کی اتھاہ گہرائیاں لے کر سیاہ رات مسلط کر دیتاہے اور مجھے صخر کی یاد تڑپاتی ہے۔ میں مانند بسمل تڑپتی ہوں۔ نہ موت کی آغوش نصیب ہوتی ہے نہ زندگی کی مسکراہٹ کا سرا ہاتھ آتا ہے۔ صخر تیرے فراق میں میری آنکھیں بے نور ہوا چاہتی ہیں مگر تیری رفاقت و معیت نے سالہا سال مجھے خوشیوں اور مسرتوں کی بہار یں بھی تو دکھائیں۔ مقتولین پر آہ و زاری اچھی نہیںہوتی لیکن تجھ پر رونا قابلِ تحسین و ستائش ہے کہ تو واقعی بے مثال شہسوار اور منبع جود و سخا تھا‘‘۔
حضرت خنساءؓکی یہ کیفیت کئی سال رہی۔ آخر اللہ نے ان کی قسمت بدلنے کا فیصلہ فرما لیا۔ توحید کی روشنی فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوئی۔ پھر یثرب کو مینارہ نور بننے کا شرف ملا۔ قبیلہ بنو سلیم میں جب یہ دعوت اور روشنی پہنچی تو خنساءؓ کو یہ پیغام مانوس اور پسندیدہ محسوس ہوا۔ خوش بخت تھیں، لمبا سفر کر کے مدینے آئیں۔ آنحضورﷺکی خدمت میں حاضری دی اور اپنے قبیلے کے پورے وفد کے ساتھ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو گئیں۔ اس موقع پر آنحضورﷺنے ان کا دل نشین کلام سنا اور ان کی تعریف کی۔ حضرت خنساؓ اپنے بچوں سمیت مدینہ میں مقیم ہو گئیں۔
ایران و روم کے مقابلے پر جنگیں جاری تھیں۔ یہ حضرت عمرؓبن خطاب کا دورِ خلافت تھا اور حضرت سعدؓبن ابی وقاص ایران کے مقابلے پر قلعے پہ قلعے فتح کرتے کسریٰ کی نام نہاد سپریمیسی کو خاک میں ملا رہے تھے۔ ایرانیوں نے بالآخر ہاتھیوں کی فوج مقابلے میں لانے کا فیصلہ کیا۔ حضرت سعدؓنے امیر المومنین کی خدمت میں خط لکھا کہ ان کی مدد کے لیے تازہ دم فوج روانہ کی جائے۔ امیر المومنین کا اعلان سن کر مجاہدین فوراً جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت عمرؓاس تازہ دم لشکر کو مدینے سے رخصت کرنے کے لیے باہر تک اس کے ساتھ آئے۔دعائیں بھی دیتے رہے اور ہدایات بھی۔ اچانک آپؓنے ایک اونٹ پر ایک بوڑھی عورت کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا '' آپ کہاں جا رہی ہیں ؟‘‘ وہ فرمانے لگیں '' اپنے چار نوجوان فرزندوں کے ساتھ میدانِ جہاد میں جا رہی ہوں‘‘۔ یہ بوڑھی خاتون سیدہ خنساء ؓ بنت عمرو تھیں۔
مجاہدین جب میدانِ جنگ میں پہنچے تو حضرت خنساءؓ نے اپنے بچوں کو رات کے وقت ایک یاد گار نصیحت فرمائی۔ ''میرے بچو تم نے اپنی رضا اور خوشی سے اسلام اور ایمان کی دولت کو سینے سے لگایا۔ پھر اللہ کی راہ میں ہجرت کا شرف بھی حاصل کیا۔ خدا کی قسم! تمہارا حسب اور نسب ہر عیب اور داغ سے پاک ہے۔ آخرت کی دائمی زندگی دنیاکی حیاتِ فانی سے کہیں بہتر ہے۔ اگر میدانِ جنگ میں لوگوں کے قدم اکھڑ یں تو تم آگے بڑھنا۔ خبردار! اگر تم میدانِ جنگ سے بھاگ کر آئے تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اللہ کے راستے میں جان قربان کر دینا سعادت اور جہاد سے منہ موڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔
چشمِ فلک نے اس روز وہ ہولناک منظر دیکھا جو کم ہی دیکھنے میں آتاہے۔ جب ہاتھیوں کے لشکر نے ہلّہ بولا تو آغاز میں غازیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اللہ اکبر! فاتحین پر بڑا کڑا وقت آگیا تھا۔ عین اس لمحے سیدہ خنساءؓکے چاروں بیٹوں نے ایک دوسرے کو نام بنام پکار کر کہا ''ماں کی نصیحت کو یاد کرو‘‘۔چنانچہ وہ دیگر مجاہدین کے ساتھ آگے بڑھے اور ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹنا شروع کر دیں۔ ہاتھی کے جسم میں کانوں سے لے کر دم اور سر سے لے کر پائوں تک‘ کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا جس پر تیر، تلوار یا نیزہ کوئی اثر دکھا سکے، صرف سونڈ وہ حصہ ہے جو نرم ہوتاہے اور تلوار سے کاٹا جاسکتاہے۔ اب ایرانی ہاتھی بلبلا کر پیچھے کی جانب بھاگنا شروع ہو گئے۔ اکھڑے ہوئے قدم جم گئے۔ گھمسان کا رن پڑا۔ دونوں جانب سے لاتعداد لوگ مارے گئے،ان سے زیادہ زخمی اور مجروح ہوئے۔ شام کو لوگ اپنے اپنے خیموں میں واپس پلٹے تو معلوم ہوا کہ کون زندہ سلامت واپس آیا اور کون خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوا۔شام کے جھٹپٹے ہی میں اس خیمے میں چراغ جل رہاتھا اور آج اس میں بوڑھی خنساء ؓتنہا بیٹھی تھیں۔ اس خیمے میں کوئی بھی واپس نہ آیا۔ سعدؓبن ابی وقاص کو معلوم ہوا تو خود چل کر اس خیمے میں پہنچے۔ بہادر اور جری سعدؓکے لیے زبان سے ایک لفظ نکالنا بھی مشکل ہورہاتھا۔
خنساءؓنے پوچھا ''سعدؓبتائو جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟‘‘سعدؓ نے بمشکل یہ اطلاع دی کہ خنساءؓ کے چاروں بیٹے میدانِ جنگ میں شہید ہو گئے ہیں۔ ماں نے پھر پوچھا '' جنگ کا نتیجہ کیا نکلا ؟‘‘ سپہ سالار نے بتایا کہ ''اللہ نے فتح عطا فرمائی ہے‘‘۔ یہ سننا تھاکہ سیدہ خنساءؓ سجدے میں گر گئیں۔ ان کی زبان پر نہ کوئی نوحہ تھا نہ بین اور مرثیہ۔وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں اور زبان سے مسلسل کہہ رہی تھیں ''اے اللہ میں نے یہ قربانی تیرے راستے میں پیش کی ہے تو اسے قبول فرما لے۔ اے اللہ بوڑھی ماں کو اپنے بچوں سے جنت میں ملا دینا ‘‘۔
کہاں وہ جاہلی زندگی کے شب و روز اور کہاں آج اسلام و ایمان کی عزیمت و قربانی کی یہ مثال ! یہی تو حقیقی انقلاب ہے جو دل و دماغ اور سوچ و فکر کو نئے سانچے میں ڈھال دیتاہے۔ آج بھی شہدا کی مائیں انہی جذبات کا اظہار کرتی ہیں جب ان کے لختِ جگر میدانِ جنگ میں دادِشجاعت دیتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنے اسلاف کی تاریخ کو زندہ کر دیتے ہیں تومائوں کے دل حضرت خنساءؓوالی کیفیت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ حضرت خنساءؓنے اپنے دورِ ایمانی میں کئی مرتبہ اپنے مقتول بھائیوں کی یاد میں ان جذبات کا اظہار بھی کیاکہ اگر وہ حالتِ ایمان میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جاتے تو دل کو قرار آ جاتا مگر ہائے حسرت کہ وہ جاہلی زندگی میں موت سے ہمکنار ہو گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved